بھارت میں خواجہ سراؤں کے گاؤں

تامل ناڈو کے کوراگام گاؤں میں ’’تھالی کا تہوار‘‘
ملک بھر کے تیسری صنف کے افرادشادی اور بروا ہونے کی رسومات ادا کرتے ہیں

مرد اور خواتین کے ساتھ روئے زمین پر ایک ایسی مخلوق بھی ہے جو ہے تو انسان لیکن زمانہ قدیم سے یہ معاشرتی نانصافیوں کا شکار ہیں، لوگ ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتے ہیں لیکن وہ اس بدسلوکی کی کہیں شکایت بھی نہیں کرسکتے۔ خالق کائنات نے جب کرئہ ارض پر آدم اورحوا کو اتارکر اسے اولاد آدم سے آباد کرنا شروع کیا تو بعض تیکنیکی خامیوں کی وجہ سے عورت اور مرد کے درمیان یہ تیسری جنس بھی وجود میں آگئی جن کے بارے میں آج تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ انہیں مرد کہا جائے یا عورت ۔ ان کو دنیا میں لانے کے ذمہ دار ان کے ماں باپ بھی اسی شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں بیٹا کہہ کر پکاریں یا بیٹی،کوئی فیصلہ نہ ہونے پر انہیں خواجہ سرا، کھُسرا یا مخنث جیسے تضحیک آمیز ناموں سے پکارا جاتا ہے جب کہ یورپی ممالک میں انہیں عورت اور مرد کا چربہ بنا کر شی میل کہا جاتا ہے۔ لوگوں کی جانب سے تصحیک آمیز سلوک سے دل گرفتہ ایک خواجہ سرا کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا شمار نہ تو خواتین میں ہوتا ہے اور نہ ہی مردوں میں لیکن ہم انسان تو ہیں، ہمارے ساتھ بدسلوکی کرنے والے اس نہج پر کیوں نہیں سوچتے؟

9ویں صدی قبل مسیح میں انہیں یونانی رؤسا اپنی خواب گاہوں اور حرم کی نگرانی کے لیے تعینات کرتے تھے۔ چین میں ’’منگ شہنشاہوں‘‘ کے دور میںگرانڈ پیلس میں 70ہزار درمیانی جنس کے افراد کو ملازمت پر رکھا گیا جب کہ شاہی مہمان خانوں میں ہزاروں خواجہ سرا محل میں ملازمت ملنے کی آس لگائے رہتے تھے۔ مسلمان سلاطین و بادشاہوں کے زمانے میںبھی انہیں بے ضرر مخلوق سمجھ کر کنیزوں کی ہمراہی میں شاہی بیگمات کی خدمت کی ذمہ داری سونپی جاتی تھی لیکن ایک مرتبہ ایک حکمراں کو اپنی کنیز کے کسی خواجہ سرا کے ساتھ ضرر رساں تعلقات کا علم ہوگیا لیکن ملزمان کی واضح نشان دہی نہ ہوسکی جس کی بنا پر اس نے اپنے پاس موجود تمام خواجہ سراؤں اور کنیزوں کو بوریوں میں بند کروا کرمحل کی فصیل سے دریا میں پھنکوا دیا تھا۔پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں آج بھی ان کی خاصی تعداد موجودہے، ان ممالک کی حکومتوں کی طرف سے ان کے حقوق متعین کیے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود لوگ ان سے کراہیت محسوس کرتے ہوئے ان کے قریب بیٹھنا گوارہ نہیں کرتے۔ ان کا ذریعہ معاش آج بھی بھیک مانگ کر اور گا بجا کر روزی کمانا ہے۔

خواجہ سراؤں کی باقاعدہ ایک برادری ہے ، جس کے افراد ’’گرو‘‘ اور ’’مہا گرو‘‘ کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کے پاس معلومات حاصل کرنے کا انتہائی حیران کن نظام ہے، جسے بروئے کار لا کر وہ قرب وجوار کےعلاقوں میں شادی بیاہ کی تقریبات، بچے کی ولادت سمیت تمام معلومات حاصل کرلیتے ہیں اور وہ نسوانی روپ دھار کر ہاتھ کنگنا اور پیروں میں گھنگھرو باندھ کر ڈھول گلے میں لٹکا کر کھوج لگاتے ہوئے مذکورہ گھروں تک جاپہنچتے ہیں اور اس کے سامنے ڈھولک کی تھاپ پر گیت گاتے اور رقص کرتے ہوئے اس گھر کے مکینوں کو آوازیں دیتے ہیں۔ اس موقع پر وہ اپنی پاٹ دار آوازوں میں بے ہنگم گانے گاتے ہیں جب تک مذکورہ گھر کے افرادمیں سے کوئی شخص سمع خراشی سے گھبرا انہیں گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں دیتاہے۔ وہ بچے کو گود میں لے کر پیار کرتے ہیں اور اسے اپنی دعاؤں سے نوازتے ہیں جب کہ اس کے عوض صاحب یا خاتون خانہ سے زیادہ سے زیادہ رقم لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس دوران وہ بچے کا باریک بینی کے ساتھ جسمانی معائنہ بھی کرتے جاتے ہیں اور اگر انہیں ذرا سا بھی شبہ ہوجائے کہ نومولود انہی کی طرح کی تیسری جنس سے تعلق رکھتا ہے تو وہ اسے اس کے والدین سے لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر ماں باپ معاشرے کے سامنے شرم ساری سے بچنے کے لیے اپنے جگر گوشے کو ان کے حوالے کردیتے ہیں اور وہ اسے اپنی بستی میں لے جاکر اس کی مخصوص انداز میں پرورش کرتے ہیں۔ خواجہ سرا کی بستیوں میں انتہائی پراسرار رسومات رائج ہیں، جن کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہوپاتا ہے۔

زیادہ تر لوگوں کو اب تک یہی نہیں معلوم کہ خواجہ سرا کیسے وجود میں آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی پیدائش عام بچوں کی طرح ہی ہوتی ہے اور وہ چہرے مہرے سے لڑکا نظر آنے کے باوجود ’’مردانہ خصوصیات ‘‘ سے عاری ہوتے ہیںجب کہ بعض لوگ اس کے بارے میں دوسری رائے رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکا ہی پیدا ہوتے ہیں لیکن خواجہ سرا انہیں اپنے ساتھ لے جاکرجبری طورپر مردانہ خواص سے محروم کرکے اپنے جیسا بنا لیتے ہیں۔ دونوں ہی باتیں اپنی جگہ درست معلوم ہوتی ہیں، بعض بچے پیدائشی طور سے مخنث ہوتے ہیں جب کہ بعض کو خواجہ سرا اپنے ’’گرو‘‘ کے حکم پر اپنے جیسا بناتے ہیں لیکن جبراً نہیں۔ انہیں تیسری جنس بنانے کے لیے آپریشن کیا جاتا ہے ، لیکن اس کے لیے باقاعدہ ایک تقریب منعقد کی جاتی ہے، جس کے انتظامات بستی سے باہر ایک کھلے میدان میںکیے جاتے ہیں جس کے لیے ’’مہاگرو‘‘ سے اجازت لینا ضروری ہوتی ہے۔ اس تقریب کا انعقاد ایک مذہبی تہوار کی طرز پر کیا جاتا ہے، جس میں دعائیہ عبادت کے بعد ناچ رنگ کی محفل سجائی جاتی ہے، اس کےآخری حصےمیں مذکورہ بچے کو خواجہ سرا بنانے کے لیے آپریشن کیا جاتا ہے۔ لیکن اس تقریب کے انعقاد سے چند روز قبل اس بچے یا بڑے کو افیون ملا دودھ خوراک کے طور پر پلایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت مدہوشی کی کیفیت میں رہتا ہے۔ جب مہا گرو کی جانب سے اس رسم کو منانے کےلیے’’شبھ دن‘‘ کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس بچے کو تقریب کی جگہ لاکر ایک تخت پر لٹایا اور اس کے جسم کو تسموں سے جکڑا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی رسومات کے مطابق جشن مناتے ہیں جس کے بعد اس رسم کا اصل فریضہ اداکیا جاتا ہے۔ تقریب کےچند روز بعد برادری کا سربراہ اپنی صنف میں شامل ہونے والے ’’نئے رکن ‘‘کو اپنے قدموں میں بٹھا کر خواجہ سراؤں کی رسوم و روایات سکھاتا ہے، اور اس کی کفالت کی ذمہ داری کسی ایک خاندان کے سپرد کردیتا ہے۔ بچے کو گود لینے والا گھرانہ اس کے کھانے پینے، ملبوسات اور نگہداشت کی تمام ذمہ داریاں انتہائی پیار و محبت سے اٹھاتا ہے، یہاں تک کہ ننھا خواجہ سرا بڑا ہوکر خود ناچ گا کر کمانے کے قابل نہیں ہوجاتا۔ جوانی کی حدود میں پہنچنے کے بعد چہرے پر سستے قسم کا میک اپ کرنے کے بعد زنانہ ملبوسات زیب تن کرکے یہ بازاروں اور چوراہوں پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔

بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں انہیں معاشرے کا سودمند حصہ بنایا گیا ہے، وہاں ان کی آبادی تقریباً دس لاکھ کے قریب ہے لیکن حکومت کی جانب سے ان کی فلاح و بہبود اور ملازمتوں میں حصہ ملنے کے بعد ان کے رہن سہن کے انداز میں خاصی تبدیلی رونما ہوگئی ہے۔وہاں ان کے ذرائع آمدنی موجود ہ دور میںصرف گانے بجانے یا بھیک مانگنے تک محدود نہیں رہ گئے،لیکن ان میں سے بعض خواجہ سرا اب بھی شادی بیاہ یا بچے کی پیدائش کی سن گن ملنے پرمذکورہ گھروں میں جاتے ہیں، گا بجا کر بچے اور اس کے ماں باپ یا دولہا دلہن کو اپنی دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ لوگ ان کی دعاؤں کے طالب اور بددعاؤں سے خوف زدہ رہتے ہیں کیوں کہ ان کے عقائد کے مطابق خواجہ سرا کرشنا دیوتا کے قریب ہوتے ہیں اس لیے ان کی دعا یا بددعاکا نتیجہ بہت جلد برآمد ہوتا ہے۔

ممبئی میں ان کی بستی ’’کماتی پورا‘‘ کے نام سے معروف ہے جہاں ہر جانب خوب صورت چہروں والے خواجہ سرا نسوانی چال ڈھال کے ساتھ متحرک نظر آتے ہیں۔ مذکورہ بستی تک پہنچنے کے لیے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں سے گزر کر جانا پڑتا ہے جہاں قدیم طرز کی تین سے چار منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں، ہر فلور کے سامنے کے رخ پر طویل برآمدے ہیں۔ بستی کی سڑکوں، گلیوں اور گھروں کے سامنے نسوانی اطوار کے حامل مرددکھائی دیتے ہیں، جو ایک دوسرے کے بال سنوارتے ہوئے، سر میں سے جوئیں نکالتے، یک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے یا اپنے دروازوں پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔کماتی پورا کے علاوہ پورے بھارت میں ان کی لاتعداد بستیاں ہیں جن میں لاکھوں ہیجڑے پیار محبت کے ساتھ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔

تامل ناڈو کی ریاست میں مدراس شہر کے جنوب میں دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر ’’کووا گام‘‘ نامی گاؤں واقع ہےجہاں ہر سال ملک بھر کے خواجہ سرا اکٹھا ہوکر ’’تھالی کا تہوار‘‘ مناتے ہیں۔ اس کا انعقاد مئی کے مہینے میں ہوتا ہے،جب پورن ماشی کا چاند کرہ ارض پر روشنی بکھیر رہا ہوتا ہے اور کووا گاؤں کے مکانات چاندنی میں نہائے ہوئے ہوتے ہیں، تیسری صنف کے لوگ بھارت کے مختلف شہروں سے اس گاؤں میں اراوان مندر کے سامنے جمع ہوتے ہیں۔ مذکورہ مندر کے بارے میں روایت ہے کہ خواجہ سراؤں کا مذہبی اوتار اراوان، جودیوتا ارجن کا بیٹا تھا، کرو کشترا کی جنگ سے قبل سہادیو نامی پنڈت کے پاس گیا ، جو علم نجوم کا ماہر تھا۔ شہزادے نے اس سے جنگ شروع کرنے کا سازگار دن اور وقت نکالنے اور فتح و شکست کا احوال معلوم کیا تو اس نے گیان دھیان کرنے اور زائچہ بنانے کے بعد اسے ہدایت کی کہ جنگ میں فتح یاب ہونے کے لیے اسے اپنی فوج میں سے کسی ’’کامل مرد‘‘ کی قربانی دینا پڑے گی۔ شہزادے نے جب اپنی فوج میں موجود کامل مردوں کی تلاش میں نگاہ دوڑائی تو اسے وہاںصرف تین افرادہی نظر آئے، جن میں ارجن، کرشنا اور اراوان بہ ذات خود شامل تھا۔ اراوان نے خود کو اس قربانی کے لیے پیش کیا لیکن اس سے قبل اس نے اپنے باپ کے حضور اپنی آخری خواہش بیان کی کہ وہ اپنا سر قلم کیے جانے سے قبل ، ناگن شہزادی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ارجن نے شہزادی کے گھر رشتہ بھیجا لیکن اس کے گھر والوں نے انکار کردیا، اس نے دیگر گھرانوں میں بھی کوشش کی لیکن کوئی بھی عورت کسی ایسے شخص کو اپنا شوہر بنانے پر راضی نہیں تھی جو شادی کے دوسرے روز اسے جوانی میں ہی بیوگی کا داغ دے جائے۔ یہ صورت حال دیکھ کر کرشنابھگوان خو ایک عورت کے روپ میں آئے اور اراوان کی آخری خواہش کی تکمیل کے لیے اس سے شادی کی رسومات کی ادائیگی کی۔ شادی کے اگلے روزعلی الصباح اراوان کا سر قلم کردیا گیا۔ کرشنا نے اپنی اصل شکل میں آنے سے قبل اراوان کی بروا کے طور پر بیوگی کا سفید لباس پہنا، گلے سے منگل سوتر اتارا اور ہاتھوں کی چوڑیاں توڑیں۔

بھارت کے خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ ان کی نسوانی ہیئت دیوتا کرشنا اور اراوان کے اس غم ناک واقعے کی عکاسی کرتی ہے۔ کواگام گاؤں میں تھالی کے انوکھے تہوار کے موقع پر ’’چتھرپرونامی‘‘ کی شام کو وہ روحانی طور سے ان دیکھے دیوتاؤں سے شادی رچا کر اس واقع کی یاد تازہ کرتے ہیں جو ان کے دھرم کا ایک حصہ ہے۔ ’’چتھرا پورنامی ‘‘والے روز دوپہر کے وقت سے ہی تمام خواجہ سرا دلہنوں کی طرح بننا سنورنا شروع ہوتے ہیں۔ چہرے سمیت سارے بدن سے غیرضروری بالوں کی صفائی کرتے ہیں، ہونٹوں پر سرخ اور گلابی رنگ کی لپ اسٹک لگاتے ہیں ، ناک میں نتھ اور کانوں میں بالیاں یا جھمکے پہنتے ہیں اور سر پر پہنی ہوئی بالوں کی وگ میں خوش نما پھولوںکا گچھا لگا کر شادی کی رسومات کی ادائیگی کے لیے اراوان مندر کا رخ کرتے ہیں۔ مندر کا پنڈت جس کے پاس چھوٹی چھوٹی تھالیاں رکھی ہوتی ہیں ، جو ایک زرد رنگ کے دھاگے سے پروئی ہوتی ہیں جن میں ہلدی کا ٹکڑا بندھا ہوتا ہے، وہ ان تھالیوں کو ہر خواجہ سرا کے گلے میں منگل سوتر کے طور پر پہناتا ہے، جس کے بعدازدواجی بندھن کی دیگر رسومات کی ادائیگی کی جاتی ہیں۔ ان کی شادی رات بھر قائم رہتی ہے ۔ دوسرے روز صبح کا اجالا پھیلتے ہی اس تہوار کی اصل رسم شروع ہوتی ہے۔ پھولوں سے سجی ہوئی ایک خوب صورت رتھ میں اراوان دیوتا کے بت کو بٹھا کر پورے گاؤں میں جلوس کی صورت میں گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے تمام راستے میں کافورکے بڑے بڑے ٹکڑے اور جگہ جگہ ناریل کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں ۔ خواجہ سرا سارے راستے رقص کرتے ہوئے چلتے ہیں۔ مندر سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ’’نئی نویلی دلہنیں‘‘ بھی جلوس میں شامل ہوجاتی ہیں۔ ۔ مندر کے سامنے لے جاکراراوان کا سرقلم کیاجاتا ہےدلہنیں اپنی گردن میں پڑی ہوئی تھالی کاٹ کر اتار دیتی ہیں اور چوڑیاں توڑدیتی ہیں، اس کے بعد اپنے فرضی خاوند کی موت کا سوگ مناتے ہوئے سینہ کوبی کے ساتھ آہ و زاری کرتی ہیں اس رسم کی ادائیگی کے بعد دلہنیں گاؤں کے تالاب جاتی ہیں، وہاں دیہاتیوں کی موجودگی میں اشنان کرنے کے بعد سفید لباس پہنتی ہیں اور مکمل طور سے بیوہ نظر آنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس کے بعد شام کو اس تہوار کا اختتام ہوجاتا ہے۔

اس تہوار میں صرف تیسری صنف ہی شریک نہیں ہوتی بلکہ پہلی اور دوسری جنس بھی شرکت کرتی ہے، جن میں بعض لوگ مجذوبانہ حرکتیں کرتے ہیں۔۔’’ویلور‘‘ نامی گاؤں کا رہائشی جوڑا انتھونی اور اس کی بیوی سانتھی بھی انہی افراد میں شامل ہیں جو ہر سال تھالی کے تہوار کے موقع پر واگام گاؤں آتے ہیں۔ ان دونوں کی شادی آٹھ سال قبل ہوئی تھی ، اگرچہ وہ ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہیں لیکن اس کے باجودخوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں مثالی جوڑا قراردیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ سانتھی ایک خواجہ سرا ہے جس نے نسوانی روپ اختیار کرنے کی خاطر اپنے مردانہ پن کی قربانی دے کر انتھونی سے شادی کی تھی۔ اسی طرح ’’ولنجی پرام‘‘ نامی قصبے کا رہائشی شخص دیوی ہے جو سبزی کا تھوک بیوپاری ہے۔ اس کی شادی ایک عام سی خاتون سے ہوئی تھی جس میں تمام نسوانی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور اس سے دیوی کے پانچ بچے ہیں۔ وہ اپنے اہل خانہ کے علم میں لائے بغیر تھالی کے تہوار میں شرکت کرتا ہے۔ وہ نسوانی روپ دھا رکر خواجہ سراؤں کے رسوم و رواج کے مطابق دلہن بننے اور بروا ہونے کی رسومات پوری کرتا ہے ۔ اس کے خیال میں وہ اس طرح کرشنا دیوتا اور اس کے اوتار اراوان کی قربت حاصل کرلیتا ہے۔ چالیس سالہ تھالان بھی انہی لوگوں میں شامل ہے۔ وہ کانشی پورم کے ایک پرائمری اسکول میں مدرس ہے۔ تمام وقت وہ اپنے طلباء کو ’’بھارت نیتام‘‘ کے بارے میں پڑھاتا ہے، اس دوران وہ پروقار اور جاہ و جلال والا مرد دکھائی دیتا ہے، جس سے اس کے طالب علم خوف کھاتے ہیں۔ لیکن گوواگام میں خواجہ سراؤں کے تہوار کے موقع پر وہ بالکل مختلف روپ میں نظر آتا ہے۔ یہاں وہ سبز رنگ کی ساڑھی اور گلابی بلاؤز پہن کر، ناخنوں میں نیل پالش اور ہونٹوں پر سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگا کر ہاتھ میں سنہری رنگ کا پرس پکڑ کر چلتے ہوئے خواجہ سراؤں کے انداز میں تھرک تھرک کر چلتے ہوئے وہ کوئی اورمخلوق معلوم ہوتا ہے۔ زیادہ تر خواجہ سرا گروپ کی شکل میں سفر کرتے ہیں، ہر گروپ کی قیادت ایک ’’میڈم‘‘ کرتی ہے جسے بھارت کے شمالی علاقوں کے لوگ’’ ممی‘‘ جب کہ جنوبی ریاستوں کے افراد ’’اماں‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ شمالی حصوں میں رہنے والے خواجہ سرا خاندان یا برادری کی شکل میں زندگی گزارتے ہیں جب کہ جنوبی حصے کے لوگ تنہا رہنے کے عادی ہیں۔

کواگام کے علاقے میں نہ تو کوئی رہائشی ہوٹل ہے اور نہ سرائے،مقامی دیہاتی جو خود بھی اسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، دوسرے علاقوں سے آنے والے زائرین کے لیے اپنے گھرو ں کے دروازے کھول دیتے ہیں اور اس تہوار کے اختتام تک ان کی میزبانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کے عقیدے کے مطابق کرشنا بھگوان کے مہمان ہونے کے سبب ان کے لیے مقدس ہستیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے وہ ان کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191501 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.