مظلوم یمنی عوام کیلئے عالمِ اسلام جوابدہ۰۰۰!

ہر ملک میں حکمراں اور عوام کے درمیان تال میل بہتر ہوتو اس ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک کی معیشت بھی مستحکم ہوتی ہے اور جس ملک کے عوام اور حکمراں کے درمیان اختلافات پیدا ہوجائیں اور اسے حکمراں جبر و ستم کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کریں تو یہاں کے حالات مزید ابتر ہوجاتے ہیں ،آخر کار ایسے ممالک میں عوامی انقلاب برپا ہوتا ہے جسے آج کی دنیا دہشت گردی کا نام دے رہی ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران اسلامی ممالک میں جو انقلاب دیکھنے میں آیا ہے اسے دشمنانِ اسلام ، اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کررہے ہیں۔ صدیوں سے اقتدار کیلئے لڑائیاں ہوئیں ہیں جس میں کبھی حکمراں کامیاب ہوئے ہیں تو کبھی عوام اپنی جانوں کی قربانی دے کر ان ظالم و جابر حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔یمن کے حالات بھی ان دنوں ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے۔ صدر عبد ربہ منصور ہادی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے شیعہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے حوثی باغیوں نے انہیں دارالحکومت سے بے دخل کیا جس کے بعد وہ سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے انہوں نے اپنے اقتدار کی بحالی کیلئے سعودی عرب و دیگر عرب ممالک سے تعاون کی درخواست کی جس کے بعد سعودی عرب کی سرکردگی میں دیگر ممالک نے منصور ہادی کو مکمل فوجی تعاون فراہم کیا اور آج اسی کا نتیجہ ہے کہ یمن بُرے دور سے گزررہا ہے۔ معصوم ، بے بس عوام حوثی باغیوں اور حکومتی فورسس و اتحادی ممالک کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کا شکار ہورہے ہیں ۔ فضائی و زمینی کارروائیوں کے نتیجہ میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی ہلاکت کی تعداد کچھ اور ہے تو دوسری جانب ان حملوں کے بعد اشیاء خورد و نوش، صاف ستھرے پینے کے پانی کی قلت اورادویات کی کمی نے ان افراد کو بیماریوں کی جانب ڈھکیل دیا ہیجس کی وجہ سے ان دنوں یمن میں وبائی مرض ہیضے سے گزررہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یہاں پر اپریل 2017سے پھیلنے والے مرض ہیضے کی وجہ سے کم و بیش پانچ لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں ، بتایا جاتا ہیکہ اب تک تقریباً 2000افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ہر روز کم از کم پانچ ہزار افراد اس مرض سے متاثر ہورہے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہیکہ ادویات اور دیگر اشیاء کی رسد میں تعطل خاصا طویل ہے اور لگ بھگ تیس ہزار طبی عملے کو تقریباً ایک سال سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادھنو غیبریس کے مطابق یمن میں طبی عملہ ناممکن حالات میں کام کررہا ہے۔انکاکہنا ہیکہ ڈاکٹرس اور نرسیس شعبۂ صحت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں اور انکے بغیر ہم یمن میں کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں تنخواہیں ضرور ملنی چاہیں تاکہ وہ مریضوں کی صحت یابی اور دیکھ بھال کی اپنی خدمات جاری رکھ سکیں۔ انکا کہناہیکہ عالمی ادارہ صحت اپنی خدمات کو جاری رکھتے ہوئے اپنے پارٹنرز کے ہمراہ ہیضے کے علاج کے لئے کلینکس، طبی سہولیات اور ادویات کی فراہمی کے علاوہ یمن کے صحت کے شعبے کی مدد کررہا ہے۔ڈاکٹر ٹریڈ روس کے مطابق یمن کے تنازعہ میں مارچ2015سے اب تک 8160افراد ہلاک اور 46330افراد زخمی ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہیکہ یمن کے اس تنازعہ کا حل جلد از جلد نکالا جائے کیونکہ یمن کے لوگ اس کو اب مزید عرصے تک برداشت نہیں کرسکیں گے۔ انہیں امن کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی زندگیوں اور اپنے ملک کی ازسرنو تعمیر کرسکیں۔ اس وقت یمن کی جو صورتحال ہے اس سے اندازہ ہوتا ہیکہ اگر واقعی یمن میں امن و آمان بحال نہ ہوا تو اس کے اثرات پڑوسی ممالک پر بھی پڑیں گے ۔ان لاکھوں افراد کی بیماری کی ایک وجہ ہاسپتلوں کی کمی ،ادویات اور صاف پانی سے محرومی کا نتیجہ ہے۔سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک جو یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف صدر عبد ربہ منصور ہادی کی تائید و حمایت میں انہیں بھرپور فوجی طاقت بہم پہنچارہیہیں اگر سعودی عرب کی سرکردگی میں جاری حوثی باغیوں کے خلاف حملے بند کئے گئے اور یمن کے عوام کے لئے صاف ستھری غذائی اشیاء اورادویات کی فراہمی کے انتطامات کے علاوہ پینے کے پانی کی شدید قلت کو دور کیا جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ یمن میں صدر عبدربہ منصور ہادی کی حکومت کو بچانے کے لئے ہزاروں افراد کا قتل ہوچکا ہے اور لاکھوں افراد اس جنگ کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں ، ہیضہ کی وباء بھی اسی وجہ سے پیش آرہی ہے۔ سعودی عرب اور اتحادی ممالک کو چاہیے کہ وہ حوثی باغیوں کے خلاف مزیدکارروائی کرنے کے بجائے مذاکرات کا آغاز کریں تاکہ یمن کا اقتدار محفوظ ہاتھوں میں رہے اور عوام کی سلامتی اور صحت یابی بھی بہتر ہوسکے ورنہ ایک صدر کو بچانے کیلئے معصوم، ظلم و بربریت کے شکارعوام کے قتل عام کو تاریخ کبھی معاف نہ کرے گی۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ جس طرح نام نہاد جہادی تنظیمیں دہشت گردی کے ذریعہ عبادتگاہوں، ہاسپتلوں، اسکولوں،شادی بیاہ کی تقاریب، جلوس جنازوں اور عام مقامات پر خودکش حملے، بم دھماکے اور فائرنگ کرتے ہیں اسی طرح سعودی عرب کی اتحادی فورسس نے بھی یمن میں فضائی کارروائی کی ہے جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔اب بھی وقت ہے سعودی عرب و دیگر اسلامی ممالک یمن کے مظلوم عوام میں پھیلنے والی بیماری ہیضہ کو ختم کرنے کے لئے مؤثر انتظامات کریں اور یمن کے اس 30ہزار طبی عملے پر مشتمل افراد کی ایک سال کی تنخواہوں کا انتظام کریں تاکہ یہ عملہ پورے انہماک کے ساتھ مریضوں کی دیکھ بھال کرسکے۔ورنہ عالمِ اسلام کے ان حکمراں دنیا و آخرت میں جوابدہ ہونگے۔

افغانستان میں امریکہ کی ناکامی ۰۰۰
افغانستان کے ذریعہ عالمِ اسلام تک پہنچنے والا ملک امریکہ گذشتہ 16سال کے دوران افغان فورسسز کو مسلح کرنے کے لئے 76ارب ڈالرز خرچ چکا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکن گورنمنٹ اکاؤنٹبلٹی آفس (جی اے او) کی ایک نئی رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاہم اس قدر رقم خرچ کرنے کے باوجود امریکہ، افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، جس کا مقصد افغان فورسز کو بغیر مدد کام کرنے کی صلاحیت فراہم کرنا تھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تاہم امریکہ افغانستان کی حمایت جاری رکھ سکتا ہے کیونکہ اس ملک کے ’استحکام اور سیکیورٹی کو طالبان کے تحت جاری دہشت گردی، جرائم کے نیٹ ورکس اور دہشت گرد تنظیموں، جس میں داعش کا گروپ خراسان بھی شامل ہے، سے مستقل خطرات لاحق ہیں۔ خیال رہے کہ 11 ستمبر 2001 میں امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد امریکہ کی سربراہی میں عالمی طاقتوں نے افغانستان میں حملوں کا آغاز کیا تھا اور 2002 سے امریکہ مستقل افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کو ہتھیار، مواصلات کے آلات سمیت دیگر سیکیورٹی آلات فراہم کررہا ہے۔ عالمی سطح پر سوپر پاور کہلائے جانے والا ملک امریکہ 11؍ ستمبر2001کو دنیا کے سامنے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد مجبور و لاچار دکھائی دینے لگا کیونکہ اقوام عالم جانتے تھے کہ امریکی انٹیلی جنس سروس دنیا کی بہترین سروس ہے جو اپنے ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے خلاف کسی بھی دہشت گردانہ حملے کو منظم طریقہ سے ناکام بناسکتی ہے ۔ لیکن یہ کیا۔ 9/11کے واقعہ نے امریکہ کی اصلیت کا پردہ فاش کردیا۔ امریکی سیکیوریٹی سروس یا تو ناکام ہوگئی یا پھر امریکہ نے خود عالمی سطح پر ایک سازش کے تحت ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو نشانہ بناکر عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد کی حیثیت سے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔کیونکہ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے کئی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ 9/11کا دہشت گردانہ واقعہ خود امریکہ کی جانب سے کیا گیا تھا اب اس میں کس حد تک سچائی ہے یہ تو کارروائی کرنے ، کرانے والے اور الزام عائد کرنے والے بہتر جانتے ہیں۔دنیا کی اتنی ہمہ منزلہ بلند ترین عمارتوں کا آن واحد میں ملیامیٹ ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ اس کے پیچھے کیا پوشیدہ عوامل تھے اس پر تجزیہ نگاروں اور بعض صحافتی اداروں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ دنیا کو بتانے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے برباد ہوجانے کے بعد عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت بتانے کی کوشش کی ویسے اس سے قبل ہی امریکہ افغانستان، عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں اپنی اسلام دشمن پالیسی کو بڑھاوا دینے کے لئے کارروائی کا آغاز کرچکا تھا۔ افغانستان میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے جس طرح مذہب کی بنیاد پرلڑانے کیلئے افغان مسلمانوں کے درمیان ہتھیار فراہم کئے اسے کون نہیں جانتا۔ افغانستان سے جب روسی فوج چلے گئی اور اب ان مسلمانوں سے امریکہ کو کوئی سروکار نہ رہا تو وہی امریکہ جس نے روس کے خلاف ان مسلمانوں کو استعمال کیا تھا انہیں ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ اسامہ بن لادن کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ماسٹر مائنڈ بتاکر انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے ملا محمد عمر کی افغان حکومت پر دباؤ ڈالا گیا اور آخر کار امریکہ کی بات نہ سننے کے بدلے افغانستان پر خطرناک فضائی کارروائی کرکے ملا محمد عمرکی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا تو دوسری جانب اس سے قبل ہی ایران عراق جنگ کے موقع پر ایران کے خلاف صدام حسین کی عراقی حکومت کو مکمل امریکی تعاون فراہم کیا گیا۔عرب ممالک کے درمیان تیل کی قیمتوں کی وجہ سے خلفشار پیدا ہوا اور صدر عراق صدام حسین نے عراقی فوج کو راتوں رات کویت میں داخل کردیا جو ان ممالک کا اندرونی معاملہ تھا اس موقع پر امریکہ کی مداخلت اور کویتی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے عراق پر حملہ کیاگیا۔ اس کے بعد پھر دوبارہ صدام حسین حکومت پر الزامات عائد کرکے خطرناک فضائی حملے کئے گئے اور آخر کار صدر عراق صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی کیونکہ عراقی صدر صدام حسین عالمی سطح پر مسلمانوں کے رہنماء کے طور پر ابھرنے لگے تھے اور عراق عالم اسلام کے لئے نمایاں ہوتا گیا ، امریکہ کو یہ گوارہ نہ ہوا اور آخر کار اس نے عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کرعراق پر خطرناک فضائی حملے کئے جس کی وجہ سے ایک طرف ہزاروں عراقی عوام ان حملوں کی زد میں آکر ہلاک و زخمی ہوئے تو دوسری جانب عراق کی معیشت مکمل طور پرتباہ و برباد ہوگئی اور آخر کار صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی جبکہ بعد میں جو الزامات عائد کئے گئے تھے جھوٹے ثابت ہوئے۔افغانستان اورعراق پرکئے گئے حملوں کے بعد عالمِ اسلام میں نام نہاد جہادی تنظیمیں وجود میں آئیں ان میں بعض افراد اپنے مظلوم بھائیوں کا بدلہ لینے کا اصل درد رکھتے تھے لیکن ان نام نہاد جہادی تنظیموں کا وجود بھی آہستہ آہستہ عالمی سطح پر آشکار ہونے لگا کیونکہ یہ تنظیمیں جس طرح خودکش حملوں، بم دھماکوں، فائرنگ وغیرہ کے ذریعہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنانے لگیں۔ ایک طرف عالمی طاقتیں مسلمانوں کو دہشت گرد بتاکر بین الاقوامی سطح پر بدنام کررہی ہیں تو دوسری جانب نام نہاد جہادی تنظمیں اسلامی تشخص اور اسلام کے خلاف صفِ آرا نظرآتی ہیں۔ کروڑوں ڈالرز افغان فورسسز کی ٹریننگ کے لئے دینے کے باوجود امریکہ اپنی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے گذشتہ کئی ہفتوں سے افغانستان کے حالات بگڑتے جارہے ہیں نہیں معلوم اس کے پیچھے امریکہ کی پھر کیا سازش ہے۔

مقتدیٰ الصدر سعودی عرب اور عرب امارات میں کیوں۔؟
ان دنوں عراق کے سرکردہ سیاسی اور مذہبی رہنمااور الصدر گروپ کے سربراہ مقتدیٰ الصدر نے 11سال بعد سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں انہوں نے سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔مقتدیٰ الصدر یہ وہی شخص ہے جس نے عراقی صدر صدام حسین کی پھانسی کے وقت موجود تھااور خوشی کا اظہار کیا تھا جسکی ویڈویو بعد میں منظر عام پر آئی تھی۔مقتدیٰ الصدر کا سعودی عرب دورہ خطے میں قیام امن بتایا جارہا ہے ۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور مقتدیٰ الصدر نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا اور بعد میں انہوں نے ایک جریدہ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں مختلف امور پر یکساں موقف اور ویژن کے حامل ہیں۔ انہوں نے اپنی ملاقات کو شفاف اور دیانت دارانہ قرار دیا ، انکا کہنا تھا کہ خطے میں جاری تمام تنازعات کو بتدریج وقت کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے ۔ قطر کے تنازعہ کو طے کرنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ قطر سمجھوتہ پر تیار نہیں ہے لیکن بالآخر وہ ہوش کے ناخن لے گاانہوں نے شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنے پر زوردیتے ہوئے کہا کہ بشارالاسد رجیم شام کے سربراہ کی حیثیت سے منظر عام سے جاتے ہیں تو اس سے امن کی راہ ہموار ہوگی۔سعودی عرب دورہ کے بعدگذشتہ دنوں مقتدیٰ الصدر نے متحدہ عرب امارات کی دعوت پر ابو ظہبی پہنچے جہاں انہوں نے ولیعہد محمد بن زاید سے ملاقات کی اس موقع دو طرفہ سیاسی تعلقات، عراق میں امن و امان کی موجودہ صورتحال اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مقتدیٰ الصدر کاسعودی عرب اور عرب امارات کا دورہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ قطر کے خلاف سعودی عرب، عرب امارات، بحرین اور مصر نے دہشت گردوں کی سرپرستی کے حوالے سے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ عراقی حکومت کو بھی راضی کرانے کے لئے مقتدیٰ الصدر اہم رول ادا کرسکتے ہیں تاکہ قطر پر مزید دباؤ بنایا جاسکے۔
***

Mohammed Abdul Rasheed
About the Author: Mohammed Abdul Rasheed Read More Articles by Mohammed Abdul Rasheed: 352 Articles with 207246 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.