ماں

میری پہلی کہانی

کہانی

میں ہمیشہ سے بدتمیز رہا۔۔۔ بچپن میں اسکول جاتے ضد کرنا۔۔۔ کھانا کھاتے وقت ضد کرنا۔۔۔ یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا۔۔۔ مجھے نہیں یاد کے پانچویں کلاس تک میں نے اپنے ہاتھ سے نہایا ہو، کپڑے پہنے ہو یا کھانا کھایا ہو۔۔ باپ، بھائی اور بہن کی محبت مجھے مِل نہ سکی۔ پرائمری سے میٹرک کلاس تک تو یہ عادت تھی کہ رات میں سونے سے پہلے کتابیں، کاپیاں، بیگ غرض کہ ہر چیز اِدھر اُدھر چھوڑ کر سو جاتا تھا۔ مگر صُبح آنکھ کھولتے ہی جب دیکھتا کہ ہر چیز بہت ہی سلیقے سے بیگ میں پڑی ہوئی ہوتی تھی۔ اور میرا بیگ نہایت ہی نفاست سے میز پر رکھا ہوا ہوتا تھا۔ اور جب کبھی بھی رات میں بارش ہوتی تو مجھ پر کمبل ڈال دیا جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی مجھے ہمیشہ سے گھر میں دو چیزوں سے بہت چیڑ تھی۔ ایک بارہ سے تیرہ گھنٹے ہاتھ سے چلائی جانے والی سلائی مشین کے شور سے اور دوسری روٹی کے کناروں سے جو گئ نا کگنے سے سوکھی رہ جاتی تھی۔ مگر وہ روٹی کے سوکھے ٹکڑے جو نا کھانے کی وجہ سے چھوڑ دیتا تھا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ وہ روٹی کے سوکھے ٹکڑے کبھی فروخت کیے گئے ہو۔ اور ہاں جب بھی مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی میں اُسی سلائی مشین کی طرف رُخ کرتا جس سے مجھے چیڑ تھی۔ جب بھی مجھے معمول سے بڑھ کر پیسوں کی ضرورت ہوتی تو میں دیکھتا کہ گھر میں سلائی مشین کے چلنے کا دورانیہ سولہ گھنٹوں سے بھی بڑھ جاتا تھا۔ مجھے یاد ہیں کہ کالج میں داخلے کے لیے مجھے زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی، تو میں نے گھر میں آکر بتا دیا۔

اور اُسی رات تقریباً دو بجے میری آنکھ کھلی توگھر کے برآمدے میں مجھے کوئی آواز سُنائی دی، جب غور سے سُنا تو معلوم ہوا کہ کوئی گُٹھی گُٹھی سیسکیوں کے ساتھ رو رہا ہیں۔ میں نے چُپکے سے برآمدے میں دیکھا تو مُوٹے سے شیشے کا چشمہ لگائے میری ماں مشین میں دھاگہ ڈالنے کی ناجانے کب سے مسلسل کوشش کر رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ آنسو بھی گِر رہے تھے۔میں نے پوچھا!کیاکر رہی ہو ماں؟ ماں نے چونک کر میری طرف دیکھا اور جلدی سے آنسوصاف کر کے مُسکرا کر صاف آواز میں کہا، کہ محلے میں کل شادی ہے اُن کے کپڑے تیار کر رہی ہوں۔ لیکن دھاگہ سوئی میں نہیں ڈھل رہا۔اُس دن ماں کے آنسو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ مجھے کوئی چھوٹا موٹا کام کرنا چاہیے۔

اور پھر میں مُناسب سا کام بھی ڈھونڈتا رہا اور پڑھتا بھی رہا۔ اور پھر کچھ عرصے بعد ادھر ایف اے مکمل ہوا اور اُدھر آفس میں کام بھی مل گیا۔ میں نے گھر جا کر ماں کو بتایا تو وہ خوشی سے نہال ہو گئ، اور جلدی سے میٹھا منگوا کر محلے میں بانٹھ دیا۔ اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ جب میں کام سے آکر فوراً لیٹ گیا، تھوڑی تکھاوٹ ہو رہی تھی اس لیے پاؤں چارپائی سے نیچے لٹکائے ہی سو گیا۔ اور جب اُٹھا تو دیکھا کہ آج معمول کے مطابق نا جوتے میرے پاؤں سے اُترے تھے اور نا ہی کھانا بنا ہوا تھا۔میں نے ماں کو آواز دی، ماں۔۔۔ ماں۔۔۔اے ماں۔۔۔اُٹھو کھانا دو بھوک لگئ ہیں۔۔ چیخ چیخ کر رویا مِنتیں کیں کہ ماں اُٹھو۔۔۔

مگر شاید ماں اب کی بار پھر سے اُٹھنے کے لیے نہیں سوئی تھی۔ آج سوچتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی جس کی خدمت نہیں کی، اور نا کوئی آسائش اور سکون دیا۔۔ وہ میری ماں تھی۔ میں اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کرسکتا، کبھی بھی۔۔۔

Muhammad Naeem
About the Author: Muhammad Naeem Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.