ستر سالہ کرکٹ کہانی

پاک بھارت کرکٹ تعلقات کب بحال ہوں گے..........؟
پاکستان کرکٹ ٹیم کو آئی سی سی ٹیسٹ اسٹیٹس دلوانے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا
سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے جنرل ضیاءالحق اور صدر مشرف نے کرکٹ ڈپلومیسی کا استعمال کیا

پاک بھارت کرکٹ تعلقات کب بحال ہوں گے..........؟
پاکستان کرکٹ ٹیم کو آئی سی سی ٹیسٹ اسٹیٹس دلوانے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا
سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے جنرل ضیاءالحق اور صدر مشرف نے کرکٹ ڈپلومیسی کا استعمال کیا
رفیع عباسی

غیر منقسم ہند میں کرکٹ عروج پر تھی اورکئی مسلمان کھلاڑی بھی انڈین کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے۔قیام پاکستان کے بعد اس کے اثرات نوزائیدہ مملکت کے عوام کے ذہنوں پر بھی چھائے نظر آئے۔ پاکستان اس وقت نشو و نما کےمراحل سے گزر رہا لیکن ناسازگار حالات ہونے کے باوجودلوگوں میں کرکٹ کا شوق غیرمعمولی حد تک پایا جاتاتھا۔ ، فرسٹ کلاس کا ڈھانچہ مناسب خطوط پر استوار نہیں تھا لیکن نئی وجود میںآنے والے ملک کے کرکٹرز کے عزائم بلند نظر آرہے تھے ۔ پاکستان کی تاریخ کا پہلا فرسٹ کلاس کرکٹ میچ دسمبر 1947ء میںسندھ اور مغربی پنجاب کے درمیان لاہورکے باغ جناح میں کھیلا گیااور ان دونوں ٹیموں میں شامل کرکٹرز کی اکثریت نے آگے چل کر ٹیسٹ کرکٹ کے بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔یہ متحدہ ہندوستان کے معروف کرکٹر وزیرعلی کا الوداعی فرسٹ کلاس میچ بھی تھا۔ شہرہ آفاق بالر فضل محمود بھی اس میچ میں شامل تھے، حالاں انہیں آسٹریلیا جانے والی ہندوستانی ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا لیکن انہوں نے پاکستان میں کھیلنے کو کو ترجیح دیتے ہوئےبھارت کی طرف سے دورے پر جانے سے انکار کر دیا تھا۔اور 1948کے سیزن میں کرکٹ ایڈ ہاک کی بنیاد پر کھیلی جاتی رہی۔ یکم مئی 1949ء کو پاکستان بورڈ برائے کرکٹ کنٹرول معرض وجود میں آیا۔27-29 دسمبر 1947 کو لاہور میں پنجاب کی ٹیم کا سندھ سے مقابلہ ہوا۔ جس سے پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس کے بعد 6 تا 8 فروری 1948 کو پنجاب گورنر الیون بمقابلہ پنجاب یونیورسٹی کا میچ منعقد ہوا اور یہ میچ بھی لاہور میں ہی کھیلا گیا۔ کرکٹ سیزن میں ویسٹ انڈیز، سری لنکا جواس زمانے میں سیلون کے نام سے جانا جاتا تھا اور ایم سی سی کی ٹیمیں غیرسرکاری ٹیسٹ کھیلنے پاکستان آئیں۔ نیل ہاورڈ کی قیادت میں یہاں آنے والی ایم سی سی ٹیم کے خلاف کراچی ٹیسٹ 4 وکٹوں کی جیت نے پاکستان کے لئے ٹیسٹ کرکٹ تک رسائی کو ممکن بنا دیا۔اس ٹیسٹ میچ میں میں پاکستان کی جیت کے مرکزی کردار عبدالحفیظ کاردار، حنیف محمد، فضل محمود اور خان محمد تھے۔
1948تک پاکستان کی ٹیم غیر رسمی حیثیت میں کھیلتی رہی، لیکن بورڈ کا قیام عمل میں آنے کے بعد اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی۔جولائی 1952ء میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے ٹیسٹ ٹیم کا درجہ ملا اوریہ امرقابل ذکر ہے کہ پاکستان کو ٹیسٹ اسٹیٹس دلوانے میں بھارتی سفارش نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔اسی سال اکتوبر اورنومبرکےدرمیان پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلا دورہ ہندوستان کا کیا اور وہاں بھارتی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلیں۔ عبدالحفیظ کاردار کو پاکستان کے پہلے ٹیسٹ کپتان ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ان کی قیادت میں بھارت کے دورے کے لئے منتخب کی جانے والی 17 رکنی ٹیم کے دستے میںخان محمد، نذر محمد، حنیف محمد، وزیر محمد، وقار حسن، امتیاز احمد، مقصود احمد، انورحسین، امیر الٰہی، محمود حسین، خان محمد، فضل محمود، اسرار علی، خورشید شیخ، خالد قریشی، ذوالفقار احمد اور روسی ڈنشا شامل تھے لیکن خان محمد کے ان فٹ ہونے کے بعد نوجوان کرکٹر خالد عباداللہ کو بھارت طلب کیا گیا ۔ پاکستانی اسکواڈ میں شامل عبدالحفیظ کاردار اور امیرالٰہی ٹیسٹ کرکٹ میں غیرمنقسم ہندوستان کی نمائندگی کر چکے تھے۔ اس ٹیم میں حنیف محمد سب سے کم عمر کھلاڑی تھے اورامیر الہی بزرگ ترین کرکٹر تھے۔ حنیف محمد کی عمر اس وقت 17سال چند ماہ تھی جب کہ امیر الٰہی 44سال کےتھے۔
16 اکتوبر1952 پاکستان کرکٹ کی کی تاریخ کا یادگار دن ہے، اس روز پاکستان نے دہلی کےفیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں بین الاقوامی ٹیسٹ سفر کا آغاز کیا۔کرکٹ کےناقدین کا خیال تھا کہ پاکستانی ٹیم ہندوستان کے مقابلے میں ’’بے بی آف ٹیسٹ کرکٹ ’’ کی حیثیت رکھتی ہے جب کہ اس کی حریف کا شمار دنیائے کرکٹ کی مضبوط ٹیموں اور کرکٹرز کا شمار قدآور کھلاڑیوں میں ہوتاہے۔ اس کےکئی کھلاڑی برطانوی دور حکومت میں انگلش ٹیم کی جانب سے کھیلتے رہےتھے۔ اسے ٹیسٹ اسٹیٹس 1932میں حاصل ہواتھا اور اسی سال اس کی ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا۔ آزادی کے بعد بھارتی ٹیم نے پہلی ٹیسٹ سیریز 1948ء میں آسٹریلیا کے خلاف برسبین میں کھیلی۔ آسٹریلین ٹیم کی قیادت سرڈان بریڈمین اور بھارت کے کپتان لالہ امرناتھ تھے۔ 1952 میں بھارتی ٹیم نے مدراس ٹیسٹ میں انگلینڈ کو شکست دے کر فتح حاصل کی تھی اور مستقبل میں اس کے کھلاڑیوں کے عزائم بلند نظر آتےتھے۔لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستانی کھلاڑی اپنی ناتجربہ کاری کے باعث بھارتی ٹیم کےسامنے جم کر نہیں کھیل سکیںگے اوراس کے لیےتر نوالہ ثابت ہوںگے۔نوزائیدہ ٹیم کے نوآزمودہ کھلاڑیوں نے تماش بین اور مبصرین کے تمام اندازے غلط ثابت کردیئے۔ سات ہفتے کے اس دورے میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو اگرچہ ٹیسٹ سیریز میں دو ایک سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پاکستانی کھلاڑیوں خصوصاً حنیف محمد، فضل محمود، نذر محمد، وقار حسن، عبدالحفیظ کاردار، امتیاز احمد اور محمود حسین جارحانہ کھلاڑی کے طور پرنمایاں نظر آئے۔پاکستان نے دورے کی ابتدا امرتسر میں نارتھ زون کے خلاف حنیف محمد کی دونوں اننگز کی سنچریوں کے ساتھ کی۔بالرخان محمد نے پنکج رائے کو آؤٹ کر کے پاکستان کی جانب سے پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کی۔ نذر محمد پاکستان کی جانب سے پہلی گیند کھیلنے، پہلا رن بنانے اور پہلا کیچ لینے والے کرکٹر بنے۔ حنیف محمد نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی پہلی نصف سنچری بنائی۔ کیوں کہ بھارت کے پاس منجھے ہوئے کھلاڑی تھے، اس لیے انفرادی طور سے چند کارہائے نمایاں انجام دینے اوراعزازات کے حصول کے باوجود پاکستان کو پہلےٹیسٹ میں اننگز اور 70 رنز سے شکست سے دوچار ہونا پڑا جس کا بڑا سبب لیفٹ آرم اسپنر ونومنکڈ کی تباہ کن بولنگ تھی جس نے لالہ امرناتھ کی بھارتی ٹیم کو سرخرو کردیا۔انہوں نے پہلی اننگز میں صرف 52 رنز دے کر 8 وکٹیں حاصل کیں اور دوسری اننگز میں 79 رنز کے عوض 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ تین روز بعد لکھنؤمیں ٹیسٹ میچ شروع ہوا ۔ پہلے ٹیسٹ میں ناکامی سے دوچار ہونےو الے پاکستانی کھلاڑی ایک نئے عزم اورولولے کے ساتھ میدان میں اترے اور انتہائی جاں فشانی کے ساتھ کھیلتے ہوئےبھارتی ٹیم کو اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کرحساب بے باق کر کے لوگوں کو حیران کردیا۔ ایک ایسی ٹیم، جس نے ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے کے بعد یہ دوسرا ٹیسٹ میچ کھیلا تھا، یہ انتہائی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ تھا ۔ لکھنؤ کی یونیورسٹی گراؤنڈ میں پاکستان کی اس تاریخی جیت کے مرکزی کردار فضل محمود اور نذر محمد تھے۔ نذر محمد نے انتہائی مہارت سے بیٹنگ کرتے ہوئے ملک کی تاریخ کی پہلی ٹیسٹ سینچری اسکور کی جب کہ فضل محمود نے اپنی خطرناک سوئنگ بولنگ سےبھارتی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے پاکستان کی جیت میں حتمی کردار ادا کیا۔ نذر محمدکو یہ بھی منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ وہ بیٹنگ اور فیلڈنگ کر کے ٹیسٹ میچ کے تمام دن میدان میں موجود رہنے والے دنیا کے پہلے کرکٹر بن گئے۔بھارتی بیٹس مینوں کو پہلی مرتبہ فضل محمود کی خطرناک بالنگ سے واسطہ پڑا تھا، اس سے قبل وہ انڈین کرکٹ کی جانب سے کھیلتے رہے تھے، اس لیے انہیں پہلی مرتبہ فضل محمود کے غیض وغضب کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے یونیورسٹی گراؤنڈ پر بچھی میٹنگ وکٹ پر اپنی سوئنگ بولنگ کا ایسا جادو جگایا کہ پہلی اننگ میں 52 رنز کے عوض 5 وکٹیں حاصل کیں جب کہ دوسری اننگ میں 42 رنز کے عوض 7 وکٹوں کی شاندار کارکردگی سے پاکستان کو فتح سے ہم کنارکیا ۔ بھارتی عوام کرکٹ کے معاملے میں ابتدا سے ہی جذباتی ہیں اور انہیں بھارت کی شکست ، خاص طورسے پاکستان کے ہاتھوں کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہوتی۔ بھارتی تماشائی غصے میں آگئے اور انہوں نے لکھنؤ ٹیسٹ میں اپنے ملک کی شکست پر سخت ردعمل کا اظہارکیااورگراؤنڈ میں نعرے بازی کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔
تیسرا ٹیسٹ میچ ممبئی میں کھیلا گیا۔ اس سےقبل پاکستانی بیٹسمینوںنے سینٹرل زون، ویسٹ زون اور ممبئی کے خلاف سائیڈ میچز میں عمدہ پرفارمنس کے بعد برابورن اسٹیڈیم ممبئی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔بھارت کے شہرہ آفاق اسپن اٹیک کے سامنے جم کر نہ کھیل سکے اورونومنکڈ اور سبھاش گپتا کی کی مؤثر اسپن بولنگ کے سامنے بے بس نظر آئے۔وقار حسن اور حنیف محمد کے علاوہ کوئی بھی بیٹسمین انہیں پراعتمادطور سے نہیں کھیل سکا۔ حنیف محمد صرف چار رنز کی کمی سے اپنی سنچری مکمل نہ کر سکے اور وقارحسن نے پہلی اننگز میں 81 اور دوسری اننگز میں 65 رنز اسکور کرکےذمہ دار بیٹسمین ہونے کا ثبوت دیا۔بالنگ کے شعبے میں بھی پاکستانی کھلاڑی ناکام رہے اوربھارتی بیٹسمین وجے ہزارےاور پولی امریگر نے سینچریاں اسکور کیں۔ بھارت نے 10 وکٹوں کی جیت سے سیریز میں دو ایک کی برتری حاصل کر لی جو فیصلہ کن ثابت ہوئی کیونکہ مدراس اور کلکتہ میں کھیلے گئے ٹیسٹ برابری پر ختم ہوگئے تھے۔مدراس میںچوتھا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا ، بارش نے پاکستان کی جیت کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ کپتان حفیظ کاردار، ذوالفقار احمد اور وقار حسن کی عمدہ بیٹنگ کی وجہ سے پاکستان نے 344 رنزبنائے تھے۔اس کے جواب میں بھارتی بیٹسمین پاکستانی بالرز کے سامنے جم کر نہ کھیل پائے اور اس کی ابتدائی تین وکٹیں صرف30رنز کے اسکور پر گرگئیں۔ پولی امریگر اور ایم ایل آپٹے نے اپنی بیٹنگ لائن کو سہارا دینےکی کوشش کی اور اسکور چھ وکٹوں کے نقصان پر 175رنز تک پہنچا دیالیکن اس کےباوجودبھارت کی شکست کے آثار صاف نظر آرہےتھے کہ ا س موقع پر بارش نے اسے شکست سےبچایااور یہ ٹیسٹ ڈرا ہوگیا۔ کلکتہ ٹیسٹ وقارحسن کی 97 رنز کی عمدہ اننگز اور اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے دیپک شودھن کی سنچری کی وجہ سے یاد گار ہوگیا۔دوسری اننگز میں وقارحسن اور فضل محمود کی پارٹنرشپ نے پاکستان کو مشکل سے نکالا جو صرف 12 رنز کی سبقت کے ساتھ 6 وکٹوں سے محروم ہوچکی تھی۔سیریز ہارنے کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں نے عمدہ کارکردگی دکھائی۔ اس سیریز میں وقار حسن نے 3 نصف سنچریوں کی مدد سے سب سے زیادہ یعنی 357 رنز بنائےتھے۔بولنگ میں فضل محمود صرف 60ء25 کی اوسط سے 20 وکٹیں حاصل کر کے نمایاں رہے۔ دورے کے تمام فرسٹ کلاس میچوں میں حنیف محمد نے 4 سنچریوں اور 3 نصف سنچریوں کی مدد سے 917 رنز بنا کر یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ جسمانی طور سے پست قامت صحیح لیکن کرکٹ کے کھیل کےقد آور کھلاڑی ہیں۔ فضل محمود نے 25 اور محمود حسین نے 26 وکٹوں کے ساتھ کرکٹ ناقدین کوحیران کردیا۔اسی دورے کے دوران مشہور بھارتی کرکٹ کمنٹیٹروجے آنند (مہاراج کمار آف وزیانگرم) اور طالع یار خان نے حنیف محمد کو’’ لٹل ماسٹر‘’ کے خطاب سے پکارا جو مرتےدم تک ان کی زندگی کا حصہ بنا رہا۔پاکستانی ٹیم اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز 2-1سے ہار کر وطن لوٹی۔ 1955ء میں بھارت نے پاکستان کا جوابی دورہ کیا۔ ہزاروں بھارتیوں کو لاہور ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لئے ویزے جاری کئے گئے۔ یہ سیریز اور اس کے بعد 1961ء میںکھیلی جانے والی سیریز جس کا انعقاد بھارت میں ہوا تھابرابر رہیں۔ ان سیریز میں ایمپائرز کا کردارہدف تنقید بنا رہا، جن کے بہت سے فیصلے متنازعہ تھے جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم جیت سے محروم ہوگئی۔
60 کی دہائی کے بعد پاک بھارت کرکٹ تعلقات میں اکثر و بیشتر تعطل پیدا ہوتا رہا، موجودہ دور میں بھی گزشتہ آٹھ سال سے ان دوممالک کےدرمیان کرکٹ نہیں کھیلی گئی۔ پاک بھارت کے درمیان کرکٹ کی معطلی کی زیادہ تر وجوہات میںبین الاقوامی یا اندرون ملک سیاست کا زیادہ کردار رہا ہے۔ 1989سے 1999تک دس سال اور 1961سے 1978تک 17سال تک دونوں ملکوں کے مابین کرکٹ تعلقات منقطع رہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ ان دونوںممالک کےدرمیان جب بھی کرکٹ میچوں کا انعقاد ہواکھلاڑیوں اورتماش بین میں خاصا جوش و خروش پایا گیا۔ 1952سے1960کے وسط تک دونوں ممالک کے درمیان پانچ ٹیسٹ سیریز کا انعقاد ہوا۔ 1962میں چین اور بھارت جنگ کا اثر جنوبی ایشیاءکےان دو ممالک کےتعلقات پربھی پڑا۔ 1965میں کشمیر کے مسئلےپرسترہ روزہ جنگ لڑی گئی جس کے بعدان کےدرمیان کسی بھی سطح کی کرکٹ کے امکانات معدوم ہوگئےجب کہ اس کے صرف چھ سال بعد1971میں دوسری پاک بھارت جنگ شروع ہوئی جس کا نتیجہ سقوط ڈھاکا کی صورت میں برآمد ہوا۔ ان حالات میںان دوممالک کے درمیان کرکٹ سمیت ہر طرح کے تعلقات سردمہری کا شکار رہے۔ 1975میں پاک، بھارت کرکٹ بورڈز کے حکام کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں کرکٹ کی بحالی کے لیے تبادلہ خیال کیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ بہت جلد ٹیسٹ سیریز کا انعقاد کیا جائے گا لیکن اسی سال بھارت میں سیاسی صورت حال اس حد تک ابتر ہوگئی کہ آں جہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کوملک میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی۔ 1976میں دونوں ملکوں کے کرکٹ حکام کے درمیان ایک بار پھر مذاکرات کا انعقاد ہوا جس میں طے کیا گیا کہ مستقبل قریب میں بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی کیوں کہ پچھلی دفعہ جو سیریز کھیلی گئی تھی اس کے لیے پاکستان ٹیم بھارت کے دورےپر گئی تھی۔ لیکن شو مئی قسمت اس سال پاکستان میں سیاسی افراتفری کا دوردورہ ہو گیا جب کہ بھارت میں اندرا گاندھی نے امیرجنسی ختم کردی اور نئے الیکشن کرائے گئے جن میںوہ شکست کھا کر اقتدار سے باہر ہوگئیں۔ 1977میں ایک فوجی انقلاب نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔1978میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے کرکٹ بورڈ کے توسط سے ستمبر سے نومبر کے مہینے کے درمیان بھارتی ٹیم کو پاکستان میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کی دعوت دی ۔ طویل تعطل کےبعد دونوں ملکوں میں کرکٹ تعلقات کی بحالی ملکی و بین الاقوامی حلقوں کے لیےبڑی خبر تھی، اس لیے جب بھارتی ٹیم دورہ پاکستان پر لاہور ائیرپورٹ پہنچی تووہاں اسے خوش آمدید کہنےکے لیے پاکستان کرکٹ حکام کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرملکی اخبار نویس بھی موجود تھے۔عوام کی بھی بڑی تعداد ایئرپورٹ پہنچ گئے جب کہ بے شمار لوگوں نے ائیرپورٹ سے ہوٹل تک کے راستےمیں کھڑے ہوکر بھارتی کھلاڑیوں کا استقبال کیا۔ بھارتی ٹیم کی قیادت بشن سنگھ بیدی کررہے تھے، جس میں بی ایس چندراشیکھر، پراسنا اور وینکٹ راگھوان جیسے مایہ نا آف اسپنراور لیک بریک بالر شامل تھے جب کہ بیٹنگ لائن بھی انتہائی مضبوط تھی، جس میں سنیل گواسکر اور ان کے بہنوئی جی آر وشواناتھ جیسے بلے باز شامل تھے ۔ بھارتی ٹیم فاسٹ بالنگ کے شعبے میں کمزور تھی اوراس کے پاس صرف میڈیم پیسر مدن لال اور کرسن دیوجی بھائی گھاوری موجود تھے جب کہ اس سیریز میں 19سالہ کپل دیو پہلی مرتبہ کھیل رہے تھے۔پاکستان نے یہ ٹیسٹ سیریز 2-0سے جیتی۔
1978ء کے دورے کے موقع پر دونوں ممالک کی سرکردہ قیادتوں کو آمنے سامنے بیٹھنے کا موقع ملا اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوا۔ 1979ء میں پاکستان ٹیم نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا دورہ کیا۔ 1984ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم جب پاکستان کے دورے پر تھی، وزیراعظم اندرا گاندھی کو قتل کردیا گیا، جس کی و جہ سے اسےاپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر بھارت واپس جانا پڑا۔1986-87میں بھارت نے پاکستانی سرحدوں کے ساتھ براس ٹیک نامی فوجی مشقوں کا آغاز کیا اور یہ مشقیں اتنی بھاری پیمانے پر تھیں کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس کی آڑ میں بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے انتہائی جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور وہ 1987میں پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے بھارتی شہر جے پور پہنچ گئے اور راجیو گاندھی کے نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے ملاقات میں ان مشقوں کےبارے میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا، جس کے بعد بھات نے یہ مشقیں ختم کردیں۔ اسی دورے کی مناسبت سے ’’کرکٹ ڈپلومیسی ‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی جو آج تک معروف ہے۔۔ 1989ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا، جس کےبعددو طرفہ سیاسی حالات کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ ہوگئے۔ 1999ء میں پاک بھارت تعلقات بحال ہونا شروع ہوئے، بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کادورہ کیا۔ اس موقع پر انہوںنے کرکٹ تعلقات کی بحالی کے لیے 15سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستانی ٹیم کو بھارت آنے کی دعوت دی ، لیکن کارگل کی جنگ ان تعلقات پر دوبارہ اثر انداز ہوئی ۔2000ء کے بعدصدر پرویز مشرف کی افہام تفہیم کی پالیسی نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں واضح کردار ادا کیا، جس کے بعد دوطرفہ کرکٹ کی بحالی بھی ممکن ہوئی۔ پندرہ سالہ طویل انتظار کے بعد بالآخر 2004ء میں بھارتی ٹیم ایک مرتبہ پھر پاکستان پہنچی۔ کشمیر کی سرحدوںپر جاری کشیدگی کم کرنے کے لئے اپریل 2005میںاس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے جنرل ضیاء الحق کی طرح کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لیا اورکرکٹ میچ کےموقع پر بھارت کا دورہ کرکے دہلی میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ہمراہ پاک بھارت میچ دیکھا۔2005اور 2006ء میں کرکٹ ٹیموں کے دوروں کا انعقادکیا گیا۔ 2007میں پاکستانی ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا جہاں اس نے پانچ ایک روزہ اور تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلی۔ ایک روزہ میچوں میں بھارت نے پاکستان کو 3کے مقابلے میں دو میچوں سے ہرایا جب کہ ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں دو میچ ڈرا ہوئے اور ایک میچ بھارت نے جیت کر سیریز اپنےنام کی۔25دسمبر 2012کو پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا دورہ کیا جو 6جنوری 2013تک جاری رہا۔ اس میں تین ایک روزہ اور دو ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کا انعقاد ہوا۔ ٹی ٹوئنٹی سیریز 1-1سے برابر رہی جب کہ ایک روزہ میچوں میں پاکستان نے 2-1سے فتح حاصل کی۔80اور 90ء کی دہائیوں کے درمیان دونوں ممالک نے شارجہ، متحدہ عرب امارات اور کینیڈا میں ٹیسٹ میچز کھیلے۔ کینیڈا میں کھیلی جانے والی سیریز کو تو ’’فرینڈ شپ کپ‘‘کا نام دیا گیا تھا۔ 13جنوری تا 19فروری 2009ء کو بھارتی ٹیم کے دورہ پاکستان کی تمام تفصیلات طے پاچکی تھیں کہ ممبئی حملے کا واقعہ پیش آگیا جس کاالزام بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا اور دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ میچو ںکی مجوزہ سیریز بھی منسوخ کردی گئی۔ بھارتی ٹیم کے دورے کی تنسیخ کے فوراً بعد 2009ء میں سری لنکا کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیالیکن اس دوران لاہور میں دہشت گردوں نے سری لنکا کی ٹیم کو اغوا کرنے کی ناکام کوشش کی۔اس دوران ٹیم کی سکیورٹی پر مامور پولیس کے جوانوں اور دہشت گردوں میں کئی گھنٹے تک مقابلہ ہوا جس میںپولیس اہل کاروں کے علاوہ کئی شہری بھی شہید ہوگئے۔ سری لنکن ٹیم اپنا دورہ ملتوی کرکے وطن واپس چل گئی۔ اس سانحے کے بعد پاکستان پر عالمی کھیلوں کے دروازے بندہوگئے اوراس کے بعددنیا کی کوئی بھی کرکٹ ٹیم پاکستا ن میں کھیلنے پر راضی نہیں ہوئی۔ان حالات کے باجود 2011ء میں ہونے والے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کے میچ میں پاکستان نے شرکت کی جو کہ موہالی میں کھیلا گیا تھا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کی دعوت پر ورلڈ کپ سیمی فائنل میچ دیکھنے کے لئے بھارت کا دورہ کیا۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاک بھارت کرکٹ تعلقات تعطل کا شکار ہیں، 18جون 2017کو لندن کے اوول کے میدان میں آئی سی سی عالمی چیمپئنز کے فائنل میں دونوں ٹیمیں مدمقابل ہوئیں، جس میں پاکستان نےاپنےروایتی حریف کو 18رنز سے شکست دے کر ٹرافی اپنے نام کرلی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کےحکام بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان کے دورے پر بلانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں لیکن بھارتی بورڈ کی جانب سے اب تک کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔ اب دیکھنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے ان دونوں ہم سایہ ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات دوبارہ کب بحال ہوتے ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 191466 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.