این اے ١٢٠ کے ضمنی انتخاب میں شکست کی ذلت کے حقدار

اگلے مہینے یعنی ستمبر کے تیسرے ہفتے این اے ١٢٠ میں انتخابی معرکہ ہونے جارہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سیاسی میچ میں شکست کی ذلت و رسوائی کی حقدار کون کون سی جماعتیں ہوتی ہیں

گو نواز گو، وینٹ گون کے بعد اب نواز شریف کے نااہل قرار دئے جانے کے بعد خالی نشست پر ستمبر کے تیسرے ہفتے انختابی عمل ہونے جارہا ہے جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواران کے درمیان معرکہ متوقع ہے۔ بنیادی طور پر این اے ١٢٠ سے نواز شریف اچھے خاصے مارجن سے فتحیاب ہوئے تھے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ منعقدہ انتخاب میں کون سی جماعت سرخرو ہوتی ہے اور کون سی شکست خوردہ۔

بادی النظر میں مسلم لیگ کے امیدوار کی جیت کی توقع کی جارہی ہے، اور بڑی حٰیرت و تعجب کی بات ہوگی اگر مسلم لیگ ن یہاں سے کامیابی حاصل نہیں کرپاتی۔ تجزیاتی طور پر یہ بات بالکل واضع نظر آرہی ہے کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں بے چینی و سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے اور پی ٹی آئی کے لئے اس سیٹ پر شکست ٢٠١٨ کے الیکشن عمل کے لئے نقصان دہ تصور کی جارہی ہے، اب اس سلسلے میں پی ٹی آئی کھلے طور پر انتخابی عمل میں جانے کے معاملے میں بری طرح پریشان ہے اور اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ ن کے امیدواران کو اس سیٹ کے لئے بھی معزول کرادیا جائے اس سلسلسے میں ن لیگ کے امیدوار کے خلاف الیکشن کمیشن، میڈیا اور ہر سطح پر جاکر انتخاب سے پہلے ہی انہیں نااہل قرار دینے کی کوشش کے لئے تن من دھن کی بازی لگائی جارہی ہے اس سے یہ بخابی واضع ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کو اس سیٹ پر اپنی شکست کا یقین ہوچلا ہے۔

جیسے جیسے انتخابی تاریخ قریب آتی جائے گی، پی ٹی آئی کی یہ کوشش ہوگی کہ کسی طرح یا تو اس حلقے میں ن لیگ کے امیدوارکو قبل از انتخاب ہی نااہل قرار دلوادیا جائے یا پھر انتخاب سے پہلے ہی کسی حٰیل و حجت کو آلہ کار بنا کر اس حلقے میں انتخابی بائیکاٹ کا اعلان کردیا جائے اور ثانی الذکر کا امکان خاصہ روشن نظر آرہا ہے،

اگر ن لیگ اس حلقے میں کامیاب نہ ہوپاتی ہے اور پی ٹی آئی اس حلقے سے جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر صورتحال کافی دلچسپ ہوجائے گی حالانکہ اس بات کا امکان انتہائی سے بھی کچھ زیادہ کم ہی ہے۔ بحرحال اگر پی ٹی آئی اس میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یقینا ن لیگ کے لئے یہ کسی دھچکے سے کم نہ ہوگا اور ملکی سیاست ایک نئے ڈگر پر نظر آئے گی اور اگر ن لیگ کامیاب ہوجاتی ہے جس کی توقع بحرحال کافی سے کچھ زیادہ ہی ہے تو شیر آیا شیر آیا کے نعرے پہلے سے زیادہ شدت سے بلند ہوجائیں گے۔

امیدہی کی جاسکتی ہے کہ ن لیگ کی طرح پی ٹی آئی بھی انتخابات میں جانے اور عوامی رائے کو قبول کرنے میں کامیاب رہے اور انگلیوں اور کورٹس کے زریعے اپنے اقتدار کے حصول سے باز رہے، ورنہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو یقینا اب تک یا تو کسی انگلی یا کورٹ آرڈر کے زریعے نیازی صاحب ملک کے وزیر اعظم بن چکے ہوتے، مگر ایسا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں، ملک میں وزیراعظم بننے کے لئے ووٹ چاہئے ہوتے ہیں اور نیازی صاحب نے شیخ رشید احمدکو ماضٰ میں جو خطاب یعنی شیدا ٹلی کا لقب عطا کیا تھا اس صورت حال میں شیدا ٹلی تو ایک طرف کئی شیدے ٹلی بھی کسی طور نیازی صاحب کو ملک کا وزیراعظم بنانے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے۔

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 493173 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.