معصومانہ سوالات

جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے سابقہ وزیر اعظم پاکستان، نواز شریف عوامی عدالت میں اپنی معصومیت کا رونا تادم تحریر رو رہے ہیں ان کے نااہل ہونے کے بعد معصومانہ سوالات میں ایک یہ سوال جنم لیتا ہے کہ وہ کس بات پر اپنی معصومیت کا رونا رو رہے ہیں حقائق سامنے ہیں اور حقائق پر مشتمل رپورٹ بھی عوام کے سامنے ہے پھر کیوں عوام کو رو رو کر اپنی معصومیت دکھا رہے ہیں ۔ انھیں پروٹوکول مل رہا ہے کنٹینر جو ہماری سیاست میں نیوانٹری ہے ،ان کے لیے کروڑوں روپے کا تیار ہوا جس میں ایک نااہل وزیر اعظم کو تو آسائشات میسر ہیں جب کہ عوام اس ریلی کی زد میں آکر تکالیف اور اذیتوں کا شکار ہیں۔ معصومانہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل ٹھہرائے جانے والے شخص کو تو آسائشات سے بھر پور پروٹوکول مل رہا ہے جب کہ آدھی سے زیادہ آبادی مسائل میں گھری پڑی ہے ،تحریر کو ورق پر منتقل کر رہا تھا تو اطلاع ملی کہ اس ریلی کی زد میں آکر ایک بارہ سالہ لڑکا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ بے حسی کا یہ عالم تھا کہ بڑی بڑی گاڑیوں والوں نے اسے اٹھانے کی جرأت نہ کی وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا اور جس کے لیے یہ رنگ ڈھنگ سجایا گیا وہ اس بچے کی بے حسوں کے ہاتھوں موت کو اپنی سیاست میں رنگتے ہوئے یہ بیان دیتا ہے کہ اس بچے کی یہ موت ہماری جدوجہد کی پہلی قربانی ہے۔۔۔جمہوریت جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں کے لیے اس بچے کی موت عام سی بات ہے جب کہ ان کے بچوں کی تصویر لیک ہونا حکمرانوں پر گستاخی کے مترادف اور جمہوریت کے خلاف سازش ہے ۔ گستاخی اور سازش کا واویلہ ڈالنے والے یہی بڑی بڑی گاڑیوں والے اس بچے کی خون میں لت پت لاش کو دیکھ کر جاتے بنے ۔معصومانہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بچے کی موت جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں کیا یہ گستاخی نہیں کہ ایک ماں سے اس کا بچہ چھین لیا جائے اور اوپر سے کرپشن پر نااہل ہونے والا یہ کہے کہ یہ موت ہماری جدوجہد کی پہلی قربانی ہے ؟سوال تو یہ پیدا ہوا کہ کرپشن پر نااہل ہونے والے ایک شخص کے لیے اتنا رش اتنا پروٹوکول ؟حیرت عوام پر بھی ہے کہ ایک مجرم کے لیے اپنا سب کچھ نچھاورکر رہے ہیں ۔

کچھ عرصہ پہلے مسلم لیگ ن کے وزراء ، عہدیداران اور حتیٰ کہ مسلم لیگ ن کا چھوٹا سا حمایتی بھی پاناماکیس اور جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنی بھڑاس عمران خان پر ہی نکال رہاتھاان کے بیانات اور غم و غصہ کو دیکھ کر لگتا ایسا تھاکہ اس سارے معاملہ میں قصور وار صرف عمران خان ہی ہے حالاں کہ میاں فیملی پر کیس صرف عمران خان نے نہیں کیا ہے بلکہ جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ ایک دو اور بھی جماعتیں اس کیس میں شامل بھی ہیں اور اپنا اپنا حصہ بھی خوب ڈالا مگر مسلم لیگ ن کے سربراہ سے لے کر ایک چھوٹے سے سپورٹر تک کے بیان کو، بحث کو ،تکرار کو آپ دیکھ لیں لگتا ایسا ہے کہ یہ کیس صرف عمران خان نے دائر کیا تھا۔سپریم کورٹ کے باہر آتے ہی حکومتی ارکان جس غیض و غضب سے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اس کا فائدہ حکومتی جماعت کو کم تحریک انصاف کو زیادہ اور باقی کیس دائر کرنے والی جماعتوں کو نقصان ہوا ۔ کیوں کہ جس طرح حکومتی جماعت کے ممبران بیانات میں صرف تحریک انصاف کو ہی آڑے ہاتھوں لیتے تھے اس سے عوام عمران خان کو اس کارنامے پر کریڈٹ دے رہے تھے جب کہ دوسری جماعتوں کا نام نہ لینے اور دوسری جماعتوں کو آڑے ہاتھوں نہ لینے کا نقصان دوسری جماعتوں کو عوام کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے کافی زیادہ ہوا ۔خیر اس میں قصور ان دوسری جماعتوں کا بھی ہے جو نہ جانے کس ڈر و خوف کی وجہ سے پس پشت ہی رہیں ۔

دھرنا کے دنوں میں حکومتی جماعت کی طرف سے جواب دیا جانے لگا تھا کہ سڑکوں پر فیصلہ کرنے کے بجائے تحریک انصاف کو عدالتوں کا رخ کرنا چاہیے تب عوام نے بھی اس جواب کی تائید کی اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے مسلم لیگ ن کی حمایت کی ۔ خیر دھرنا ختم ہوا اور کیس عدالتوں میں چلے گئے جس پر مسلم لیف ن کی طرف سے خوشی کی لہر اٹھی او رعوام بھی قانون کی پاس داری کو دیکھنے کے لیے انتظار کرنے لگے ۔ کچھ عرصہ بعد عدالتوں سے فیصلے آنا شروع ہوگئے اور مسلم لیگ ن خوشی کے ساتھ ساتھ غصہ بھی ظاہر کرنے لگی ۔ بات جے آئی ٹی اور جے آئی ٹی رپورٹ تک پہنچی مگر حکومتی جماعت مزید غصہ ہوگئی حالاں کہ حکومتی جماعت کو اپنے کہے کی پاس داری کرنی چاہیے تھی کہ سڑکوں پر نہیں عدالتوں کے ذریعے فیصلے کروائے جائیں مگر انھوں نے ایسا نہ کیااور شکوک وشبہات کا اظہار کرنے لگے۔ وہی جے آئی ٹی جس کے بننے پر مٹھائیاں بانٹی گئیں اب اسی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر لعن طعن ہورہی ہے ۔ حالاں کہ خود ہی کہا گیا تھا کہ سڑکوں پر نہیں عدالتوں پر اعتماد کرنا چاہیے مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اعتماد کہاں گیا کیا وہ اعتماد صرف اس صورت میں ہے جب فیصلہ اپنے حق میں آئے ؟

مسلم لیگ ن اس چیز پر مصر ہے کہ ان کے قائد کا جو ٹرائل ہواوہ سب جھوٹ کا پلندہ تھا اور ایک سازش تھی۔ جھوٹ کا پلندہ کیسے ہے یہ وہ بتانے سے قاصر ہیں دستاویزات بھی یہ خاندان مہیا نہ کر سکا اور دلائل بھی مضبوطی سے نہ دے سکا حتیٰ کہ جے آئی ٹی میں پوچھے گئے سوالات پر بھی یہ خاندان جواب مناسب نہ دے سکا جب کہ سازش کی بات اگر کی جائے تو مسلم لیگ ن کو سازش کرنے والے عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے اور عوام کو دلائل سے یہ بات ثابت کروانی چاہیے کہ ان کے خلاف سازش ہوئی ہے پھر یہ بھی کنفرم نہیں ہے کہ سازش کس کے خلاف ہے ان کی دولت کے خلاف غیر ملکی سرمائے کے خلاف ان کی حکومت کے خلاف یا ان کی کمپنیوں اور فیکٹریوں کے خلاف۔ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین ظفر حجازی کے کیس کو ذہن میں رکھنے سے ایک سوال معصومانہ سا گردش کرتا ہے کہ اگر میاں فیملی نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو پھر ظفر حجازی ریکارڈ میں ردوبدل کیوں کررہا تھا ؟ ریکارڈ ادھر ادھر کیوں کر رہا تھا ۔ویسے ظفر حجازی کے کیس کو دیکھ کر ایک بات پر دل خوش ہوا ہے کہ اس بار ریکارڈ میں صرف ردوبدل ہواہے ریکارڈکو آگ لگی ہے اور نہ ہی کسی قسم کاکوئی جانی نقصان ہوا ہے ۔
 

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 77960 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.