سنو! مخلص جذبوں کو جگائے رکھو۔۔!

یکجہتی، جوش و ولولہ،کچھ کر دکھانے کا جذبہ،سکون کی کیفیت،امن کی بحالی،مثبت خیالات کی عکاسی،حب الوطنی اور قائدانہ سوچ کی پروان،سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ٹیلی ویژن اسکرینز پر ترقی و خوشحالی کی باتیں عروج پر تھیں۔ ہر طرف مثبت پہلوؤں کا طوطی بول رہا تھا۔ ملک کی خدمت کرنے کا عزم ہر زبان و دل میں روشن تھا۔نیوز چینلز پر سارا سماں سفید اور سبز رنگ میں نہایا ہوا تھا۔ ہر خبر میں پیارے وطن ''پاکستان'' کا عنوان نمایاں تھا۔ملی نغموں کی گونج دل میں حب ا لوطنی کے جذبے کو مزید پروان چڑھا رہی تھی۔ہر سو اطمینان و خوشی کا عالم تھا۔آج۔۔۔14اگست کا دن تھا!!

ملک میں ہر اہم شہر و شاہراہ پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ان میں مشہور شخصیات کی دانشورانہ گفتگو بہت دلچسپ تھی۔آزادی کے دن کی مناسبت سے اتوار کے روز اخبارات و میگزین میں پیارے وطن کے متعلق مضامین کی بھرمار تھی۔جن میں قارئین کے لئے معلومات کا خزانہ مدفون تھا۔تاریخ سے جدو جہد آزادی کے اوراق کو پلٹا گیا تھا۔اس جدوجہد میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیات کی زندگیوں کے منظم انداز کو سامنے لایا گیا تھا۔کہیں دادا پوتے کی معلوماتی بات چیت کو موضوع بنا کر گہرے و خاص نقطے پڑھنے والوں کی نظر کئے گئے تھے۔اس آزاد وطن میں آزادی سے سانس لینے کے باوجودخود کار مسائل کا رونا روتے رہنے کوتنقید کا نشانہ بھی بنا یا گیا تھاتو کہیں ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے والوں کے لئے تعریف کے الفاظ چنے گئے تھے۔

سیاستدانوں کے رویوں میں بھی تبدیلی واضح تھی ۔ مٹھاس بھری اس تبدیلی سے عوام کو ایسے خاص
مواقعو ں پر ذہنی سکون خوب میسر آتا ہے۔لہجوں میں تلخی کا اتار چڑھاؤ نہ ہونے کے برابر جو ہوتا ہے۔بات ہوتی ہے تو صرف موقع کی مناسبت سے ۔ ایک اچھا پیغام عوام کے نام کیا جاتا ہے۔ ان بیانات میں ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر ملکی و قومی مفاد کی خوشبو کیا ہی بھلی محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ جب کرسی کی کھینچا تانی کو بھلا کر صرف ملک کی خوشحالی کی بات ہر لب پر ہوتی ہے۔الزام تراشیوں سے مبرا یہ ماحول ہی عوام کی آرزوہے اور یہی رویہ سیا سی امن کی بحالی میں اہم پہلو ثابت ہو سکتا ہے۔

دوستی،میزبانی،محبت اور خلوص کے احساسات ہمارے دل میں کہیں زندہ ہیں۔بس ہم ان کو خاص موقعوں پر جاگنے کی اجازت دیتے ہیں۔ان کے اظہار میں دیر کر دیتے ہیں۔اس کا الزام ہم اپنی مصروفیت بھری زندگی کو دیتے ہیں یادوسرے کا ہمارے لئے وقت نہ نکالنے پر۔پھر ان سوئے ہوئے جذبات کو خاص مواقع آکر جھنجھلاتے ہیں ،ہم ایک جھر جھری سی محسوس کرتے ہیں اور پھر پوری خوش دلی سے یہ جذبے ہمارے اندر اپنے پر پھڑپھڑاتے ہوئے جاگ اٹھتے ہیں۔یہ جاگ بہت مسحور کن ہوتی ہے۔دوسرے پر اس کا اثر کسی جادو سے کم نہیں ہوتا۔سامنے والے کو یہ بدلاؤ بہت خوشگوار لگتا ہے اور اس کے ذہن سے پچھلی ساری تلخیاں نکال پھینکتا ہے۔''ایئر پورٹ انتظامیہ نے پاکستان کی جشن آزادی کے موقع پر بچوں میں چاکلیٹس تقسیم کیں''۔ان کے اس چھوٹے سے عمل نے بڑوں اور بچوں کے دلوں پر اپنا راج کر لیا۔مسافروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں اور اچھائی کے اس جذبے کو اس خاص موقع پر زندہ کر کے ایک اچھی مثال قائم کی۔ اسی دن کے موقع پر ٹریفک پولیس نے آگاہی مہم کا آغاز کیا۔آنے جانے والوں میں پمفلٹس تقسیم کئے اور ان کے ہاتھوں میں سر سبز ہلالی پرچم تھما کر ان کو خوبصورت تحفہ دیا۔گھر بیٹھ کر اپنے ٹی وی اسکرینز پر دیکھنے والوں کویہ منظر کیا خوب لگا۔نیوز چینلز پر خبروں کے دوران اوپر اور نیچے ملکی ترقی ،خوشحالی،امن کی بحالی اور روشن مستقبل کے لئے دعائیں ہاتھ پھیلائے بیٹھی تھیں۔ تمام اہم سیاسی و سماجی شخصیت نے دل موہ لینے والے پیغامات ارسا ل کئے تھے جو ناظرین کے دلوں پر خوشی سے محو رقص تھے۔خواہ چاروں اطراف منظم و مہذب ماحول کا پہرا تھا۔

خیال آتا ہے کہ ان خاص قومی و مذہبی تہواروں میں کیا زبردست بات ہوتی ہے جو آپ کا اردگرد منور کر دیتی ہے۔یہ گھٹے اور تاریک ماحول کوطمانیت کا احساس بخشتے ہیں۔بچھڑے ہوؤں کو ملاتے ہیں۔رابطوں میں روانی لاتے ہیں۔فرصت سر اٹھا کر مصروفیت کو پیچھے دھکیلتی ہے ۔اچانک سے موصول ہونے والے پیغامات دیکھ کر کئی دل خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔وقت نکالنا آسان ہو جاتا ہے۔فیملی کے ساتھ بیٹھنے ، بات چیت کرنے اور گھومنے پھرنے کے قیمتی لمحات آپ کے در پر آبیٹھتے ہیں۔

بے شک اس ملک میں ۷۰ سالوں کے دوران بہتری آئی ہے مگرناقص پلان کی وجہ سے ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دے دینا ہی کافی نہیں۔اس کے پہلو میں چھپے راز وں کو جان کر ان پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔ان ممالک نے اپنی سمت کا تعین کیا اور اس طرف بڑھتے ہی چلے گئے۔ایسے مگن ہوئے کہ پھر منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا۔اور وہاں دم لیتے ہی نہیں رہ گئے بلکہ منزل پر پہنچ کر اس سے حاصل ہونے والی مراعات کا استعمال بھی بڑے دھیان سے کیا اور پھر دنیامیں ایک باعزت حیثیت پا کر اپنا نام مثال کے طور پر ترقی پذیر ممالک کے سامنے رکھ دیا۔ارداہ ،محنت ،کوشش اور نیک نیتی کے اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہوئے قدموں کو خوب جما لیا۔ دوسرے ممالک کے لئے ترقی کے زینے پر سفر کا آغاز کرنے اور پھر منزل تک پہنچنے کے تمام تر رازوں سے بغیر کوئی قیمت لئے پردہ اٹھا دیا۔لیکن ہم سب صرف ذاتی خواہشات کی پوجا میں لگے ہیں۔اس سوچ میں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔کسی کو قطعاکوئی حق حاصل نہیں کہ وہ تکلیف و بیمار خلق خدا کودربدر چھوڑ کراپنے مفادات کے حصول کے لئے بے لگام احتجاج کی ایسی روش اپنائے کہ انسانیت کو شرمندہ کر دے۔یہ طریقہ بھی ٹھیک نہیں گندگی کے بے پناہ ڈھیر اپنے گلی اور محلوں میں خود سے لگا کرپھر انتظامیہ کو رویا جائے۔کوڑا دانوں میں کوڑا پھینکنے کی بجائے اس کے اردگرد انبار لگا کر ماحول کو آلودہ کیا جائے۔کرپٹ افسران کی طرف انگلی کر کے چار گالیاں دینے کو اپنا فرض سمجھ کر خود کی سستی و لاپروائی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کو بالکل نظر انداز کر دیں۔

سو چ میں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔طریقے اور انداز میں بدلاؤ ضروری ہے۔عہد میں'' کہنے'' کے نہیں'' کرنے ''کے الفاظ کی ادائیگی ہوتی ہے۔سنو!''عمل'' کے پر مت کترو۔اس کو پرواز بھرنے دو۔نظم و ضبط کی راہ پر گامزن ہو جاؤ۔اس ملک کی سر زمین پر اپنے اپنے حصے کی سچی لگن و خدمت سے ایسے بیج بوؤکہ جو مستقبل میں ایک تناور درخت بن کر اگلی نسلوں کو محنت ،خلوص، ایمانداری اور احساس ذمہ داری کے پھل دے ۔

اﷲ ہمارے اس سر سبز ہلالی پرچم کو سدا سر بلند،باوقار،روشن اور مسکراتا رکھے،آمین۔۔!

shaistabid
About the Author: shaistabid Read More Articles by shaistabid: 30 Articles with 22757 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.