این آرٹ آف سائیکلنگ(سائیکل اندازی)

سائیکل اندازی

سائیکل چلانا کسی آرٹ سے کم نہیں ہے‘‘،،،یہ ہم نہیں ہم جیسا ہر فرد کہتا ہے‘‘،،،بس ذرا سا فرق یوں پیدا ہو ‘‘
گیا ہے‘‘،،جب ہم سائیکل سیکھ رہےتھے‘‘،،،تو اس کے نتائج یعنی رزلٹ کو سائیکل اندازی جیسے کہ تیراندازی‘‘،،
کہا جا سکتا ہے‘‘،،،اگر ہم اس بات کو یوں شروع کریں کہ ہم سلیبرٹی کیسے بن پائے‘‘،،،تو یقیناَ اس میں ہماری‘‘،،
سائیکل اندازی کا ہزار فیصد ہینڈل ہے‘‘،،،کبھی کبھی ٹائر بھی اس کو نامور بنانے میں شامل رہے ہیں‘‘،،،
پہلے دن جب اپنی گلی میں سائیکل سیکھنا شروع کر رہاتھا‘‘،،،تو کسی نے نوٹس نہ لیا‘‘،،،مگر اس کے بعد کوئی‘‘،
بھی دن قیامت سے کیا کم ہوگا‘‘،،،آپ سوچ بھی نہیں سکتے‘‘،،،کہ ہم پل بھر میں پورے علاقے کے ہرسو‘‘،،
زبان زد عام شخصیت بن چکے تھے‘‘،،،جیسے بچے کے پاؤں پالنے میں ہی نظرآجاتے ہیں‘‘،،،اسی طرح جب ہم‘‘،،،
جھولے میں تھے‘‘،،،تو ہرکسی کو یقین ہو چلا تھاکہ ہم اس صدی کی سب سے ناکام‘‘،،،بے کار،،،اور فضول‘‘،،
شخصیت ہوں گے‘‘،،،اس ٹائٹل کو کوئی ہم سے چھین نہ لے‘‘،،،ہم نے ایڑی چوٹی کا زور لگاکر دن رات ایک یا ڈیڑھ‘‘
کرکے اس تصور کو قائم رکھا‘‘،،،لوگوں کی رائے کا احترام ہم سب پر فرض بلکہ قرض ہے‘‘،،،
خیر جب ہم نے سائیکل اندازی کے لیے پرتولنا شروع کیا‘‘،،،تواگلے ہی دن ہر کوئی ایسے گھر سے نکلتاتھا‘‘،،
کہ جیسے ہم سائیکل پر نہیں‘‘،،،جنگلی جہاز یا جنگلی ٹینک پرگھوم رہے ہوں‘‘،،،ہم جب سکول چلے جاتے‘‘،،،
تو پورے محلے میں شادیانے سے بج اٹھتے تھے‘‘،،،کنوار ے‘‘،،بانکے چھیبے‘‘،،اور کنواریاں چکنی چنبیلی بن کے‘‘،،
باہر نکلتے تھے‘‘،،،مگر وہ ایسا گرمی کا ٹائم ہوتا تھا کہ سب کے سب انسان کم اور روٹی پکانے والے توے ذیادہ‘‘،،
لگنے لگے‘‘،،،کوئی درجن بھر سالوں پر محیط منگنیاں ٹوٹ گئیں‘‘،،،
سب لوگ ہماری غیر حاضری کا فائدہ اٹھانے کے لیے‘‘،،،سبزی دیکھنے‘‘،،،گوشت لینے جانے لگے تھے‘‘،،،کیونکہ‘‘
اب گوشت خریدنا آسان نہیں رہا‘‘،،،بہرحال‘‘،،سب گھروں سے باہر آجاتے تھے‘‘،،،سب کے سب آگے یا سامنے ‘‘،
کم ہی دیکھا کرتے تھے‘‘،،،بس مڑ مڑ کہ پیچھے دیکھتے جاتے‘‘،،،کہ کہیں ہم گھرسے سائیکل سمیت برآمدنہ‘‘،،
ہوجائیں‘‘،،،جیسے ہی ہم سکول سے گھر واپس آتے‘‘،،،اور سائیکل لے کر جوں ہی باہر آتے‘‘،،،محلے بھر میں کرفیو‘‘
سا لگ جاتا‘‘،،،جن اور انسان یوں غائب ہوجاتے جیسے محترم جناب عزتِ مآب کھوتا صاحب کے سرسے ‘‘
سینگ غائب ہوتے ہیں‘‘،،،ہر سو شور مچ جاتا‘‘،،،ہم سائیکل سمیت تشریف لگارہے ہیں‘‘،،،
جب کہ لوگ پلین‘‘،،ٹرین‘‘،،بس‘‘،،ٹرک ماردیتے ہیں‘‘،،،گرا دیتے ہیں‘‘،،اور اسکی وجہ سے بہت سے لوگ گھر کا‘‘،
ٹکٹ لے کر اللہ کے پاس چلےجاتے ہیں‘‘،،،ان کو کوئی کچھ نہیں کہتا‘‘،،،ہم نے کوئی بارہ سو(١٢٠٠) بندہ ‘‘،،،
سائیکل کے ہینڈل سے مِس ہینڈل کردیا‘‘،،،تو ہرسو بدنامی‘‘،،،کوئی ایک سو تیئس(١٢٣) بندے ٹائر کے‘‘،،
نیچے کیا آگئے‘‘،،،کہ جیسے سائیکل کا نہیں‘‘،،،ٹریکٹر کا ٹائر ہو‘‘،،،
مگر جناب کرفیو ہو یا واویلا فضول کا‘‘،،،ہم سائیکل اندازی سے باز نہیں آئے‘‘،،،نہ ہی آرٹ آف بینگ سائیکلنگ‘‘
سے کم پر راضی ہوئے‘‘،،،
آپ لوگ کیاکہتے ہو میری سائیڈ ہو یا نہیں‘‘،،،سائیڈ ہو تو ٹھیک ہے‘‘،،،اگر جواب نہ میں ہے تو اب سائیکل‘‘
کارخ آپ کی گلی۔۔۔۔۔
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1194451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.