قندیل ۔سامعہ۔گلالئی۔ماریہ

اگرچہ اس موضوع پر رقم طراز ہوتے ہوئے مجھے اپنی قوم کے تعفن ذدہ لاشے کی گھِن آتی ہے مگر حلقہِ احباب کے خواتین و حضرات بار بار پُوچھ اور اکسا رہے ہیں کہ مفصل رائے پیش کریں تو بادلِ نخواستہ معروض ہوں کہ کیا یہ خارج از امکان ہے کہ کل کو،پہلے میں اپنی بات کرتا ہوں کہ میری، یا آپ احباب میں سے کسی کی بیٹی قومی اسمبلی کی ممبر بنتی ہے ۔قومی دھارے میں کسی معروف پارٹی میں اپنی ہمت،کارکردگی اور جرآت کی بنیاد پر صف اول میں پہنچتی ہے اور ایک ایسے مسلمہ معاشرے میں جہاں عورت کے حوالے سے منافقانہ طرز عمل و فکر اپنی اوج پر ہو،سیاسی سفر کو ساری و جاری رکھتی ہے؟
بارِ دگر پوچھتا ہوں کہ کیا یہ خارج از امکان ہے؟

ہر گز نہیں۔بلکہ عین قرین قیاس ہے۔تو ایسے میں میرے گھٹیا معاشرے کے دو رنگے فلاسفہ ،اور اندھی تقلید کے لا علاج مریض کیا یہ ارشاد فرمانا پسند فرمائیں گے کہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس سے لیکر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، اور گلی محلے سے لیکر اعلیٰ سطحی (نام نہاد) قیادت تک نے اس معاملے پر جو طرز عمل اور موئقف اختیار کیا ہے، کیا وہ قرین انصاف ہے؟ کیا میری یا آپکی بیٹی اس جرآت آہن کا مظاہرہ کرتی (ازراہِ اطلاع عرض کروں کہ میں خواتین کی مکمل خود اختیاری اور معروضی حالات میں ہمہ جہت معاشرتی کردار کا پرزور داعی ہوں) تو کیا ہم اس سے ثبوت مانگتے؟ کیا ہم اسکی بہن کی سکرٹ میں اپنی خجالت کے عزر تلاشتے؟ کیا ہم اسکی عزت کی چار دانگ عالم پر بآیں طرز دھجیاں اُڑاتے؟ ارے صاھب! زرا ٹھہریئے۔ زرا سانس لے لیجیئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سانس چلتی بنے اور خجالت،ملک عدم کیلیئے آپکی ہمسفر ہو لے۔
آپ اگر یہ نتیجہ اخذ کیئے بیٹھے ہیں کہ میں گلالئی کا حامی ہوں تو آپ غلطی پر ہیں۔زرا سنیئے گا کہ میں کہاں کھڑا ہوں؟
میرا مقدمہ معاشرے کی صنفی بنیاد پر خطرناک تقسیم کا ہے۔
بالخصوص خواتین سے میری درخواست ہے کہ کچھ وقت کیلئے سوچیں کہ کیا کوئی بھی عورت (تا آنکہ خود بربادی کا فیصلہ کر لے ، کہ اثتثنیات ہمیشہ رہتی ہیں)کیا کبھی خود کو یوں سربازار ،پا بہ جولاں نہتا کیئے دینے کو کوئی آپشن سمجھے گی؟ نہیں ناں؟ تو جناب یک زبان ہوئیے گا۔ اور یہ کہیئے گا کہ ہمیں ایسا معاشرہ درکار ہے کہ جہاں دو رنگی نہ ہو۔ جہاں مرد اور عورت کو ایک ہی انسانی فعل پر دو الگ عینکوں سے نہ دیکھا جائے (الا کہ حدود اﷲ کا حکم لاگو ہو)

میں خواتین اور حالیہ معروف بیانیئے کے متحرک حامیان سے سوال کرتا ہوں کہ کیا قندیل اپنی موت آپ مری؟ ارے سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی جی ہی نہیں پائی۔ وہ مجسم نحوستیں جو خود کو مرد کہلاتے تھے اور گھر میں اسکی ـ ــ"جائز" کمائی پر عیش اڑاتے تھے وہ کون ہوئے؟ کیا یہ امر سوچنے کے لائق نہیں کہ قندیل کو کونسے معاشرتی عوامل اس حد تک بے لگام ہونے دیئے؟ کیا یہ امر سچ نہیں کہ اگر عدل کا اتمام ہو تو قندیل کو قتل کرنے والے اور اسکا موجب بننے والے ملا سے لیکر میڈیا تک سب کے سب رنگین راتوں کے رتجگوں کی مکمل داستانیں ہوں گی؟ حیف ہے نفاق کے اس عالم پر۔

سامعہ شاہد کو کیوں مارا؟ کیا ایک خاوند کو چھوڑ کر دوسرے سے شادی کرنے کا حق آقائے نامدار محمد ﷺ نے اپنے امتیوں کو نہیں دیا؟ اور سوال تو یہ ہے کہ اگر کوئی خدا اور رسول خدا کو نہیں بھی مانتا تو کیا اسے قتل کر دیا جائے گا؟ کیا عدالت اور قاضی کا کوئی کردار نہیں؟ کیا ہر کوئی خود قاضی القضاء ہے؟کیا یہ تھا رحمت للعالمین کا قانون؟ ہرگز نہیں۔ یہ تم ایسوں کی نفسیاتی محرومیوں اور الجھنوں کی اختراع سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

بس کیجئے اندھی تقلید اور عالمانہ جہالت کے اس عفریت کو۔ مان لیجئے کہ یہ دھجیاں عائشہ گلالئی اور عائشہ احد کی عزت کی نہیں بلکہ میری اور آپکی بیٹیوں کی اڑ رہی ہیں۔ میں کسی ایک کی بات نہیں کرتا۔ کثرت شراب سے نشان عبرت بننے والی انسان نما مخلوق الطاف حسین نے جو تاریخ زوہیب حسن کی بہن نازیہ حسن سے شروع کی وہ جاتی امراء (رائیونڈ) کے (نام نہاد) شریف نے(مبینہ طور پر) نعیم بخاری کی سابقہ اہلیہ اور ملکہ پکھراج کی بیٹی طاہرہ سید کو بے گھر کر کہ جاری و ساری رکھی(جبھی تو یار لوگ کہتے ہیں کہ بخاری نے آج حساب سود سمیت چکا دیا)۔لال حویلی کہ شیخ چلی کی کہانیاں تو ظہیرالدین بابر کی (پابندی شدہ) کتاب "پارلیمنٹ سے بازار حسن تک "میں کالج دور میں ہی مفصل پڑھ رکھی ہیں۔ آپ کیا سمجھے کہ میں ٹییریان کو بھول گیا؟ نہیں نہیں ۔ میں اسکو بھولا سو اپنی بیٹی کو بھولا۔سچ جو بھی ہے اس پرمیں فیصل نہیں، بس یہ جانتا ہوں کہ جو ہے وہ ہو اور جو نہیں وہ ثابت۔حال ہی میں معلوم پڑتا ہے کہ قصور میں لیگی MNAحنیف سلمان نے اپنے ہی ڈرائیور کی بیوی کو نشانہ بنایا۔ کیا نئے نئے انصافی لیڈر غلام مصطفی کھر کو بھول لیئے کہ ہم اپنے لڑکپن اور چڑہتی جوانی کے دور میں سنا کرتے تھے کہ پنجاب کی ہر خوبصوت لڑکی پر گویا سب سے پہلا حق کھر کا ہی ہے۔ کتنا سنیں گے؟ کلیجہ منہ کو آئے گا یا دل پھٹ پڑے گا۔

گھٹیہ معاشرے کے متعفن فلاسفروں سے میرا سوال ہے کہ کیا گلالئی سے بدلہ لینے کا واحد ذریعہ اس کی اس بہن کو نشانہ بنانا تھا کہ جو دنیا بھر میں سکواش کھیل کر بنانہ ریپبلک کا نام خواہ مخواہ روشن کیئے دیتی ہے؟ کہا ماریہ کی سکرٹ کا چرچہ "کسی"کی مبینہ بدبودار شخصیت پر پردہ ثابت ہو سکے گا؟کیا یہ طرز عمل مجھ ایسے باغی کو قائل کر پائے گا کہ کل کو میں اپنی بیٹی کو ملک کی سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے کا کہوں؟

میری تحریر سے اگر آپ یہ فیصلہ صادر فرمانے والے ہیں کہ میں ملائیت کا پٹھو ہوں تو جان رکھیئے کہ آج کا "ملا"میرے نزدیک مندرجہ بالا تمام میں سے سب بڑا مجرم ہیں۔ میرا تعلق خاطر میرے دوست (اﷲ) سے ہے اور میری نسبت اسی دوست کے معشوق کے پاؤں کی دھول بلال حبشی سے ہے اور بس۔

آخر میں بس یہ عرض کروں کہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کا خواہی ہوں جہاں عورتوں اور مردوں کو کم از کم انسانی حقوق برابری کی بنیاد پر ملیں۔ اگر معاشرہ انکو گھر سے نکلنے پر مجبور کرتا ہے تو پھر عزت بھی دے۔مقام بھی دے اور ماحول بھی دے۔ محض ساخت کی بنیاد پر فرعونیت ہم مردوں کا ویسے بھی پسندیدہ مگر مکروہ مشغلہ ہے۔ کاش کوئی ڈاکٹر ابرار عمر کو بلائے کہ وہ ایسے مردوں کو شیشہ دکھائیں اور کاش کہ آج کوئی منشی پریم چند ہے نہ منٹو،چغتائی ہے مفتی۔
پیر مشرق نے جس کرب سے کہا، آج سمجھ میں آتا ہے کہ
۔
کہتا ہوں وہی بات،سمجھتا ہوں جسے حق
نے!ابلہِ" مسجد "ہوں ،نہ "تہذیب"کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
 

Muhammad Bilal Azfar Abbasi
About the Author: Muhammad Bilal Azfar Abbasi Read More Articles by Muhammad Bilal Azfar Abbasi: 4 Articles with 3328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.