فروعی مسائل میں زندگی کھپانا بڑی محرومی ہے ۔۔۔!!!

حکایت ہے کہ ایک چوکیدار کسی شاہ کے پاس اس ذمہ داری پر مامور تھا کہ تمام ملازمین پر نظر رکھے تاکہ محل سے وہ کوئی چیز چوری کرکے نہ لے جاسکیں۔ ایک روز اس نے تلاشی کے دوران ایک نئے ملازم کے ہاتھ میں چھوٹا سا صندوق دیکھا تو کرختگی سے پوچھا کہ "کیا ہے اس صندوق میں؟" ملازم نے منمنا کر کہا کہ اس میں محل کے بچے ہوئے کچھ باسی چاول ہیں۔ چوکیدار نے بدستور کرخت لہجے میں کہا کہ "کھول اس صندوق کو اور تلاشی دے" چنانچہ ملازم نے صندوق کھول کر دیکھایا۔ اس میں واقعی باسی چاول تھے۔ اگلے روز پھر قطار میں صندوق پکڑے کھڑا تھا۔ چوکیدار نے پھر تلاشی لی تو وہی باسی چاول برامد ہوئے۔ تیسرے، چوتھے، پانچویں روز بھی یہی ہوا۔ چوکیدار کے دل میں بدستور شک تھا کہ کچھ تو غلط ہے چھٹے روز چوکیدار نے بہت ہی باریکی سے تلاشی لی۔ صندوق کی لکڑی بھی کریدی، ٹھوک پٹخ کر بھی دیکھا مگر کیا نکلنا تھا ؟ نکلے تو صرف وہی باسی چاول۔
۔
ساتویں دن حسب معمول ملازم صندوق کیساتھ کھڑا تھا۔ اس نے ملازم کو کونے میں بلایا اور نہایت بیچارگی سے مخاطب ہوا کہ "دیکھو مجھے تجربے کی بنیاد پر یقین ہے کہ تم کچھ چراتے ہو مگر میں کوشش کے باوجود نہیں معلوم کرپایا کہ وہ ہے کیا؟ میں تمہیں زبان دیتا ہوں کہ تمہیں نہ گرفتار کروں گا نہ کسی سے شکایت لگاؤں گا۔ بس مجھے اتنا بتا دو کہ تم آخر چراتے کیا ہو؟؟" ملازم نے مسکرا کر چوکیدار کے کان میں سرگوشی کی۔
۔
"صاحب میں ۔۔۔ میں محل کے صندوق چراتا ہوں !"
۔
قارئین آپ اسے حکایت کہیں، کہانی کہیں یا پھر لطیفہ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم سب بھی اکثر معاملات کو ازخود پیچیدہ بنادیتے ہیں۔ سامنے کی بڑی اور واضح حقیقت کو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کرکے غیرضروری تفصیل میں الجھ جاتے ہیں۔ یہی معاملہ ہم اپنے دین کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ بنیادی عقائد، ذمہ داریاں اور فرائض جو دین کی اثاث ہیں اور ہر کسی کے سامنے موجود ہیں۔ ان میں روز و شب لگانے کی بجائے ان فروعی معاملات میں زندگی کھپادیتے ہیں۔ جن کا حاصل کچھ بھی نہیں۔
(عظیم نامہ)

YOU MAY ALSO LIKE: