یہاں علم و دانش کی گہرائیاں تھیں

لیجئے صاحب ---- ہمارے احباب کو خبر ہو کہ ہفتہ گذشتہ ، ہماری ملاقات ایک فرد باکمال سے ہوئی - جن کا ہنر --- ہنر ہنر لاجواب اور فن ---- فن بے مثال تھا -
ان کا نام تھا آصف الیاس - اور ان کی ہنر مندی کا نام تھا --- صدا کاری
ملاقات کا مکان تھا -- فاران آڈیٹوریم اور زمان تھا 29 جولائی 2017 - جہاں محترمہ راحت عائشہ کی بچوں کے لئے لکھی ہوئی کتاب 'پیڑ کا بھوت ' کی ' خاندان ہم سخن ' کی جانب سے ُپذیرائی ہورہی تھی - ہم سوچ رہے تھے کہ اس زمانے میں جب کتابیں پڑھنے کا شوق زوال پذیر ہے - کتابوں کی جگہ جوتوں کی دکانیں کھل رہی ہیں - پیزہ برگر کھانے کھلانے کے کاروبار کتب بینی کے شوق کو ٹڈی دل کی طرح کھائے جارہے ہیں اس خاتون اور 'خاندان ہم سخن' کے ساتھیوں پر آفرین ہے کہ کتب بینی کی راہ میں حائل خار زار کو گلزار بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں - بچے شاداں و فرحاں ' رنگ برنگ کپڑوں میں پھر رہے تھے - تازگی مسکرا رہی تھی -زندگی گنگنا رہی تھی - طرح طرح کے بینر لگے ہوئے حسن میں مزید اضافہ کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ ہی والدین کے لئے پند و نصائح کا سبب بن رہے تھے -
اندر تقاریر ہو رہی تھیں - ان تقاریر سے تو ہماری جان جاتی ہے کہ وہی گھسی پٹی باتیں - وہی حکومت سے لاپرواہی کی شکا ئتیں - لیکن یہاں ایسا معاملہ نہیں تھا - یہاں علم و دانش کی گہرائیاں بھی تھیں اور سیکھنے سکھلانے کے مواقع بھی
عقیل عباس جعفری نے اپنی تقریر میں اپنے بچپن کو کیا یاد کیا - وہ بچپن کی پڑھی ہوئی کتابوں کو دھیان میں لائے - اس زمانے کے رسالوں کا تذکرہ کیا خاص طور پر کھلونا دہلی - ان کی تقریر کا کمال تھا کہ وہ ہم سب کو بھی اپنے بچپن کے ماحول میں لے گئے جب ہم سب کھلونا دہلی ، کھلونا لاہور اور کھلونا کراچی کے شیدائی تھے - غنچہ کراچی سے ہمیں اتنا لگاؤ تھا کہ جس روز اس کی آمد ہوتی تھی اس روز اس روز اسکول کا کام وقت سے پہلے کر لیتے تھے -
کھلونا دہلی ہمیں ایک مرتبہ پسند نہیں آیا تھا - یہ چین بھارت کی جنگ کے دوران یا فوراً بعد چھپا تھا - اس میں چین کے بارے میں پروپیگنڈہ کر نے کی کوشش کی گئی تھی -ایک تصویر چھپی تھی جس میں ایک چینی بچہ روتا ہوا دکھایا گیا تھا - نیچے لکھا تھا کہ چین کے بچے ہمیشہ روتے ہی رہتے ہیں - اس وقت ہم گیارہ بارہ برس کے تھے لیکن ذہن نے یہ بات قبول کر نے سے انکار کر دیا تھا - تقریباً ایسی ہی بات عقیل عباس جعفری صاحب نے کہی - انہوں نے کہا کہ بچوں کی کتابیں لکھنا آسان کام نہیں - اس کے لئے ادیب کو خود بھی بچہ بننا پڑتا ہے -

پھر احمد صفی صاحب کو بلایا گیا - ہماری ایک کمزوری ہے کہ جب بھی انہیں دیکھتے ہیں تو زقند بھر کر اس ماحول میں پہنچ جاتے ہیں جسے لڑکپن کہتے ہیں اور اپنے آپ کو ابن صفی کی کتب میں گھرا پاتے ہیں - وہ ناول یاد آجاتے ہیں جنہیں عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کہا جاتا تھا اور پھر انکے کردار یاد آجاتے ہیں - عمران ، جوزف ، صفدر ، جولیا ، روشی ، سنگ ہی اور پھر دریچے کھلتے ہی جاتے ہیں - اس بار بھی ایسا ہونے لگا تھا لیکن ہم نے شروع سے ہی تہیہ کر لیا تھا کہ ایسی کیفیت نہیں طاری ہونے دینی سو ایک عدد زور کی چونٹی اپنے کو کاٹی - پھر دوبارہ کاٹی - دل میں زور سے صدا لگائی اے عمران اے جوزف اے جولیا روشی تم لوگ -ذرا سا خیالات کی دنیا سے سرک جاؤ اور مجھے تمہارے تخلیق کار ابن صفی کے صاحبزادے کی باتیں سننے دو - نہ جانے یہ ہماری چونٹی کا اثر تھا یا درد ناک صدا کا - یہ سب کردار سامنے سے ہٹ گئے - اب ہم احمد صفی کی باتیں سن سکتے تھے - وہ کہہ رہے تھے ' پیڑ کا بھوت ' کی کہانیاں بچوں کی عمر کے مختلف حصوں یعنی ایج گروپ کے حساب سے تخلیق کی گئی ہیں اور اسی لحاظ سے تین الگ الگ کتابوں میں جگہ پاتیں تو مناسب ہوتا - ہمارے پاس ترازو ہوتا اور ہم ان کی باتوں کو تولتے تو یقیناً ان باتوں میں وزن پاتے لیکن وہ لیکر نہیں گئے تھے - ہاں البتہ ہمارا ذہن ان باتوں سے متفق ہو رہا تھا - احمد صفی صاحب نے بر ما سے متعلق کہانی کے بارے میں بھی کہا کہ برما میں مسلمانوں پر جو ستم ہو رہے ہیں ان سے نظر نہیں چرا سکتے لیکن یہ مسائل بچوں کی سمجھ سے بالا ہیں یہ مضمون بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا - ہمارا اپنا خیال ہے کہ وجہ وہی ہے جو پچھلے پیرے میں چین بھارت جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم نے بیان کی -
احمد صفی صاحب کے ہاتھ میں یہی کتاب تھی - آڈیٹوریم میں روشنی نہایت عمدہ تھی - کتاب پر بھی خوب روشنی پڑ رہی تھی - احمد صفی نے اپنے ذہن رساء کی مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب بچوں کو معاشرے کے کئی ایسے پہلؤں سے بھی روشناس کراتی ہے جس پر عام افراد کی نظر نہیں پہنچتی - کئی ایسے افعال ہیں جو عام افراد غلط سمجھتے ہیں جبکہ وہ ایک اچھے ماحول کو تشکیل دینے میں معاون ثابت ہو رہے ہوتے ہیں - - مثلاً کسی جگہ گٹربند ہونے کے سبب پانی سڑک پر پھیلا ہوا ہے وہاں ریت یا مٹی سے منڈیر بنانا یا اینٹین رکھ کر جگہ بنا دینا ایک اچھا کام ہے اسے گندا نہیں سمجھنا چاہیئے -

مبشر علی زیدی صاحب ( سو لفظی کہانی کی سب سے پہلی بنیاد رکھنے والے تخلیق کار ) نے اپنے بچپں کے زمانے اور آج کے بچوں کے زمانے کا موازنہ کیا اور اس موازنے سے ہمیں سوچنے کے لئے ایک موضوع دے دیا - مجھے اس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ ہم ان کی یہ بات سنی ان سنی کر دیں گے - ادیب نے اپنا فرض پورا کیا - انہوں نے کہا کہ میں جب چھوٹا تھا تو جن پریوں کی کہانیاں پڑھا کرتا تھا - سڑک پر چلتا تو پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا رہتا تھا کہ کوئی جن پری تو پیچھے نہیں آرہی -اور آج کا بچہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے کہ کوئی موبائیل چھیننے تو نہیں آرہا -

تقریب کی صدارت جاپان کے معروف سفارت کار محمد عظمت آتا کا کر رہے تھے - بچوں سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا سو اپنے دور میں بچوں کے لئے طرح طرح کے تقاریب کروایا کرتے تھے جن کے سبب بچوں میں مسابقت کا جذبہ پیدا ہوتا اور انکی مخفی چھپی ہوئی صلاحیتیں اخفا ہوتیں تھیں - بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور یہیں کی ایک خاتوں جو کہ پروفیسر ابوالخیر کشفی کی بھانجی تھیں سے شادی کر لی - حکومت جاپان کی جانب سے ان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے پاکستان جاپان تعلقات میں بہتری لانے کا خصوصی نشان دیا گیا ہے - انہوں نے ایک بات نہایت کام کی کہی کہ پاکستان کے مختلف علاقوں کے بارے میں کہانیاں کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یگانگت اور محبت پیدا ہو -


بچوں کے لئے تقریب ہو اور اس میں بچوں کی دلچسپی کا سامان نہ ہو یہ کیسے ممکن تھا - ‘خاندان ہم سخن ' کے منتظمیں نے اس کا خوب انتظام کیا تھا - بچوں کو پیڑ کا بھوت کی کہانی مکالماتی انداز میں سنائی گئی -
مکالمات کی ادائیگی کر رہے تھے آصف الیاس اور ان کی بہن بشریٰ الیاس - آپ ایف ایم ریڈیو سے بچوں کو کہانیاں سناتے ہیں - انہوں نے محفل کا سماں ہی بدل دیا - پورے آڈیٹوریم میں سکوت طاری تھا -بس انہی کی آواز گونج رہی تھی - آواز کی کاریگری اپنے پورے عروج پر تھی - کہا جاتا ہے کہ باڈی لینگویج یعنی جسم کی حرکاتی کیفیت سے ذہنی حالت کا پتہ چل جاتا ہے لیکن ریڈیو جہاں سامع صرف سن سکتا ہو اور نظر کچھ نہ آرہا ہو یہ صدا کار کی مہارت اور صناعی ہی ہوتی ہے کہ اس منظر کی تصویر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے -
یہ ان کی آواز کی اونچ نیچ اور زیر و بم ہی ہوتا ہے جو آن کی آن میں ماحول کا رنگ ہی بدل دیتا ہے -

اور یہاں یہی ہو رہا تھا - -

جب انہوں نے سرگوشی کے انداز میں مکالمہ کہا تو ایسے لگا کہ کوئی کان میں آکر چپکے سے ہمیں ہی کچھ کہہ رہا ہے جسے صرف ہم ہی سن سکتے ہیں - جب وہ بھوت کے ہرکارے کی خطرناک سی آواز نکال رہے تھے تو ماحول ہی بدل گیا - بچے سہمے تو نہیں لیکن ہلکی سی آمیزش بچوں میں محسوس ہوئی - ابو کی آواز نکالی تو ابو کی خیالی تصویر آنکھوں کے سامنے آگئی - لگتا تھا دونوں بھائی بہن صدا کار نہیں بلکہ مصور ہیں جو خیالی تصویریں بنا بنا کر پیش کرتے جارہے ہیں -

ہمارا ارادہ تھا کہ کہ اس کالم کا آغاز صدا کار آصف الیاس کی ملاقات سے کریں اور اختتام ان کے فن کے اسرار و رموز کی بات چیت پر پر کریں لیکن نہیں -ایک پیغام دینا ضروری ہے جو کہ جناب عقیل عباس جعفری صاحب نے اپنی تقریر میں دیا تھا - سو اسی پیغام سے کالم کا اختتام کرتے ہیں - سیدھا سادا پیغام جس میں کوئی الفاظ کی موشگافیان اور پیچیدگیاں نہیں ہیں -
-------------------- “ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو کتابیں لا کر دیں کیوں کہ بچے (آج کل کے ماحول میں ) دور مارکیٹ یا بازار نہیں جا سکتے “ -----------------
 

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 332680 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More