’دھوکہ دینے کا یہ ہنر کیسا ہے؟‘

یہ بات تو سچ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں اگر سیکولرازم نام کی کوئی چیز بچی ہے تو یقیناً لالو جی ہیں اور وہ آج بھی سیکولرازم کے واحد امام ہیں۔ ان کے گھوٹالے کو الگ رکھا جائے گھوٹالوں سے سیکولر ازم پر آنچ نہیں آتی ہےلیکن ان کی شبیہ اب بھی ایک سیکولر چہرے کی شبیہ ہے ۔ تو اب تمام سیکولر پارٹیوںکو چاہئے کہ ان کی قیادت میں وہ مستقبل کا ہندوستان طے کریں اپنے نجی معاملات کو دور رکھتے ہوئے ایک ایسا مہا گٹھ بندھن تیار کریں جوملک کی سلامتی کا ضامن ہو۔ جو بی جے پی کے عزائم کو خاک میں ملانے کا جذبہ رکھتا ہو، جو فرقہ پرستی کو گنگا میں ڈبو کر اسے حقیقی معنوں میں پاک کردے۔

سیاست اتنی داغدار اور گندی ہوچکی ہے کہ عام آدمی کا اس پر سے اعتبار اُٹھ چکا ہے۔۔۔عوام اپنے چہیتے نیتا کو اس لیے ایوان میں پہنچاتے ہیں کہ وہ ان کے لیے ترقی ووکاس کی راہیں ہموار کرکے انہیںپچھڑے پن سے نجات دلائیں گے لیکن جب وہی لیڈران ذاتی مفادات کی خاطر ان کے ارمانوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں تو عوام خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ پہلے زمینی لیڈران ہوا کرتے تھے تو گھر گھر جاکر ان کے حال احوال دریافت کرکے ان کی مشکلوں کا سد باب کیا کرتے تھے لیکن اب ہوائی لیڈران ہیں اور انہیں صرف عوام کے ووٹوں سے مطلب ہوتا ہے نہ کہ ان کی ترقی ووکاس سے اور نہ ہی ان کی مشکلوں سے۔ آج بہار کے عوام جنہوں نے مہا گٹھ بندھن کو صرف اور صرف اس لیے ووٹ دیا تھا کہ وہ بی جے پی کو بہار میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ کرنے سے روک سکیں اور انہوں نے اپنے رائے دہی کا استعمال کرکے روک بھی دیا تھا لیکن صرف بیس ماہ بعد وہ چہرہ جو بہار کی ترقی کا چہرہ سمجھا جاتا تھا آج دھوکہ کے چہرے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ عوام بے چارے خود کو دھوکہ کھائے ہوئے تصور کررہے ہیں، ان کے سارے ارمان ملیا میٹ ہوچکے ہیں۔ نتیش کمار نے بہار کے عوام کے ساتھ بدترین دھوکہ بازی کی ہے ۔ ان کے وہ جملے آج بھی ذہنوں میں گونج رہے ہیں جب انہوں نے کہاتھا کہ ’مٹی میں مل جائوں گا لیکن بی جے پی سے کبھی نہیں ملوں گا‘ آج شاید انہیں اپنا یہ بیان یاد نہیں رہا اسی لیے بی جے پی سے مل گئے۔ نتیش کے اس ذاتی فیصلے نے ان کی پارٹی میں بھی بغاوت کے بیج بو دئیے ہیں ۔عوام تو نالاں ہیں ہی لیکن ان کی پارٹی کے شرد یادو اورانور علی بھی ناراض پائے جارہے ہیں۔ خیر یہ تو سیاست ہے اور جس طرح جنگ اورمحبت میں سب کچھ جائز ہے اسی طرح اب سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہے ۔ ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے لیکن انسان کی فطرت نہیں بدل سکتی ۔۔۔اور ایسا ہی کچھ بہار کی سیاست میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔۔۔نتیش کمار کا استعفے اور پھر آنافانا دوبارہ حلف اٹھا لینا یہ سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ کسی کو کچھ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ ۔۔نتیش کمار کا کہنا ہے کہ ان کی شبیہ خراب ہورہی تھی کیونکہ ان کے نائب وزیر اعلی تیجسوی یادو پر گھوٹالے کا کیس دائر ہوگیا تھا، یہ بہت عجیب و غریب بات ہے کہ صرف کیس دائر ہونے کی بنا پر ان کی شبیہ خراب ہورہی تھی ۔۔۔تو کیا ۔۔؟ اب جس کے ساتھ (سشیل کمار مودی) انہوں نے حکومت بنائی ہے وہ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ۔۔؟ سیاست میں لیڈران گناہ گار ہوتے ہوئے بھی گناہ گار نہیں ہوتا ہے۔ مدھیہ پردیش کا ویاپم گھوٹالہ ۔۔۔؟ لیکن آج بھی وہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے اور یہ ویاپم گھوٹالہ ایسا ہے جس میں اب تک کئی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ اسی طرح راجستھان میں للت مودی کو لیکر ہوئے معاملہ میں بھی کسی کو کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور اب ان حضرات کے ساتھ جناب نتیش جی کا اٹھنا بیٹھنا ہوگا تو ان کی شبیہ میں اور نکھار پیدا ہوجائے گا ۔۔۔اور شایدنتیش کمار کا چہرہ مزید سیکولرہوجائے گا۔ بقول تیجسوی یادو کے نتیش کمار نے کبھی بھی براہ راست مجھے استعفے دینے کیلئے نہیں کہااگر نتیش کمار کو اتنی فکر تھی تو وہ براہ راست میڈیا سے گفتگو کرتے اور کہتے کہ ہم استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن استعفے نہیں دیا جارہا ہے پھر یقیناً عوام کی ہمدردی آپ کے ساتھ ہوتی لیکن آپ نے تو پرشاد کھانے کے بجائے اپنا بھگوان ہی بدل لیا ہے ۔ رام کا نعرہ لگاتے ہوئے جے شری رام تک آگئے۔
 
نتیش کمار کو عوام نے بھروسہ پر وزیر اعلی بنایا تھا اور اب یہ بھروسہ ٹوٹ چکا ہے، نتیش کمار کی شبیہ بگڑ چکی ہے اور انہیں اس بات کا اندازہ شاید ابھی نہیں ہوگا، کیونکہ بی جے پی بہت زیادہ دنوں تک کسی علاقائی پارٹی کے زیر اثر نہیں رہنے والی ہے بہت ممکن ہے کہ 2019کے الیکشن میں ہی بی جے پی اپنے دم پر الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہوجائے اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیش کمار کا سیاسی ستارہ گنگا میں ڈوب جائے گا، 2015میں ہوئے الیکشن سے یہ بات تو عیاں ہے کہ آج بھی بہار میں لالو کا ووٹ بینک بہت مضبوط ہے، نتیش اپنے بل بوتے پر بہار فتح نہیں کرسکتے ہیں، ہندوتوا کے چہیتے کسی بھی صورت میں نتیش کو نہیں اپنا سکتے ہیں ۔ رہا سیکولر طبقہ تو انہوں نے نتیش کمار کا اصلی چہرہ دیکھ لیا ہے، زیادہ سے زیادہ نتیش کو اپنے قبیلے کرمی کا ووٹ مل سکتا ہے جو اتنا نہیں ہے کہ نتیش کمار کا سیاسی کیریئر بچا سکے، بی جے پی کیلئے 2019 بہت اہم ہے اور اسے جیتنے کیلئے وہ ہر حربہ استعمال کر رہی ہے لیکن اس کے بعد اسے نتیش کمار کی بالکل بھی ضرورت نہیں رہے گی ۔ بہار سیاست میں بھونچال اور اس کے اثرات تو اسی وقت سے ملنے لگے تھے جب مودی جی نے اچانک ہندوستان میں نوٹ بندی کردی تھی ، لوگ اے ٹی ایم کی لائنوں میں مر رہے تھے، بچے بغیر دوا کے اسپتال میں دم توڑ رہے تھے پورے ملک میں ایک ہاہا کار مچ گیا تھا ایسے میں جب اپوزیشن نے مودی حکومت کو گھیرنے کی تیاری کی تو نتیش جی نے ساتھ چھوڑ دیا اور بالکل الگ ہوکر مودی جی کی حمایت کر بیٹھے، اس کے بعد صدارتی انتخاب میں تو نتیش کمار نے بالکل واضح انداز میں بی جے پی کا دامن تھام لیا اور پھر کچھ دنوں بعد ہی بی جے پی کی گود میں جا بیٹھے۔ نتیش کمار کے دھوکے سے ملک کا سیاسی مستقبل واضح ہوتا نظر آرہا ہے کہ 2019کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی۔ بی جے پی جس طرح آئے دن ریاستوں کو ہڑپتے جارہی ہے اس سے تو یہی اندازہ لگ رہا ہے کہ وہ عنقریب ہی ممتا، کیجری وال سے بھی حکومت چھین کر پورے ملک میں بی جے پی کا بھگوا جھنڈا گاڑے گی۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ملک کے لیے خطرناک ہوگا کیوں کہ ملک ابھی فرقہ پرستی کے دہانے پر ہے اور مودی کی حکومت آئندہ لوک سبھا میں بھی اکثریت سے آگئی تو پھر ہوسکتا ہے ملک تقسیم ہوجائے۔ کیوں کہ ابھی جہاں جہاں بھی بی جے پی حکومت ہے وہاں اقلیتوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے ۔ تو ضرورت اب اس بات کی ہے کہ سیکولر ازم کو کس طرح بچایاجائے؟ ملک کو فرقہ پرستی سے کس طرح پاک کیا جائے۔ بی جے پی کے بڑھتے قدم کو کس طرح روکا جائے۔؟ یہ بات تو سچ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں اگر سیکولرازم نام کی کوئی چیز بچی ہے تو یقیناً لالو جی ہیں اور وہ آج بھی سیکولرازم کے واحد امام ہیں۔ ان کے گھوٹالے کو الگ رکھا جائے گھوٹالوں سے سیکولر ازم پر آنچ نہیں آتی ہےلیکن ان کی شبیہ اب بھی ایک سیکولر چہرے کی شبیہ ہے ۔ تو اب تمام سیکولر پارٹیوںکو چاہئے کہ ان کی قیادت میں وہ مستقبل کا ہندوستان طے کریں اپنے نجی معاملات کو دور رکھتے ہوئے ایک ایسا مہا گٹھ بندھن تیار کریں جوملک کی سلامتی کا ضامن ہو۔ جو بی جے پی کے عزائم کو خاک میں ملانے کا جذبہ رکھتا ہو، جو فرقہ پرستی کو گنگا میں ڈبو کر اسے حقیقی معنوں میں پاک کردے۔ہندوستان میں اگر اب کچھ ایسا رہ گیا ہے جسے بچایا جاسکے تو وہ صرف سیکولرازم ہے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت کے تقاضہ کو سمجھا جائے اور آپسی اختلاف سے قطع نظر سیکولر ازم کی بقا کیلئے ایک ساتھ کھڑے ہوجائیں۔

NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69052 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.