انقلابی عمل سے ہی فرسودہ نظاموں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔۔۔۔۔

کائنات ہمہ وقت حرکت میں ہے، یہی حرکت اس میں زندگی کی روح کو رواں دواں رکھتی ہے، فلک و افلاک کی دنیاوں سے لے کر مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے میں بھی حرکت پنہاں ہے۔اسی طرح انسانی معاشرے بھی اسی حرکت و تبدیلی کے عمل سے روز اول سے گذر رہے ہیں،اور اپنے وجود میں آنے سے پہلے ہی سے پتہ نہیں کن کن مراحل سے گذرے ہیں،جانداروں کی ہر نوع اسی حرکت اور تبدیلی کے عمل سے گذر رہی ہے،حضرت انسان جو کہ عقل و دانش میں دیگر مخلوق سے زیادہ بہتر گردانا گیا ہے، یہ بھی حرکت اور تبدیلی کا محتاج ہے،اس کا تعلق اس کے جسم سے ہو یا اس کی سوچ و فکر اور تخلیقی صلاحیتوں سے ہے،ایک تبدیلی کا مسلسل عمل اس کے ہم رکاب ہے۔کائنات کی اس ہمہ گیر حرکت اور تبدیلی کی وجہ اسے زندگی سے بھر پور رکھنا ہے، اگر اس حرکت یا تبدیلی کے عمل کو کسی بھی سطح پہ روک دیا جائے تو کائنات پہ موت طاری ہو جائے گی۔کائنات میں حرکت کے یہ مظاہر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ زندگی کو اگر قائم رکھنا ہے تو مسلسل وقت کے بدلتے ہوئے تیوروں کے ساتھ ساتھ تبدیلی کے عمل کو جاری وساری رکھو۔اگر کسی بھی سطح پہ تبدیلی کا یہ فطری عمل رک جائے گا تو ترقی کا عمل رک جائے گا اس کا نتیجہ سوائے جمود اور پھر خاتمے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔اگر ہم اسی حرکت اور تبدیلی کے عمل کے تناظر میں انسانی معاشرے کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت سمجھ میں آتی ہے کہ جو معاشرے حرکت اور تبدیلی کی اس حکمت کو سمجھتے ہیں اور وقت کے تقاضوں اور حالات کے مطابق تبدیلی کی جدو جہد کرتے ہیں وہ تو ترقی اور کامیابی سمیٹتے ہیں لیکن جو معاشرے تبدیلی کی اس فطری روش سے انحراف کرتے ہیں جمود ان کے سد راہ ہوتا ہے اور پھر وہ معاشرے انسانی ارتقائی عمل سے کٹ کر اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔حرکت یا تبدیلی کے مخالف جمود یا رجعت پسندی ہے۔۔۔جب انسانی معاشرے کا تجزیہ کریں تو فطری حرکت اور تبدیلی کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ قوتیں بنتی ہیں جو اپنے فرسودہ دستوروں اور وقتی مفادات کی پیرو کار ہوتی ہیں، وہ قوتیں انسانی معاشروں پہ اپنے مادی طاقت کے بل بوتے پہ قابض ہو کر اپنے استحصال کو دوام بخشتی ہیں، وہ کسی بھی صورت میں اپنے وقتی مفادات پہ سمجھوتہ نہیں کرتیں،لہذا ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کرتی ہین جن سے ان کی استبدادیت مضبوط ہوتی ہو۔وہ انسانی معاشرے کو فکری انتشار میں مبتلا کرکے ان کی عقل و فکر پہ قدغنیں لگاتی ہیں،عقل و فکر جس کا سر چشمہ علم ہے کو معاشرے کے اندر ناپید کر دیتی ہیں۔انسانوں کو عصر حاضر کے علم سے دوری،تحقیق و تخلیق کے عمل سے نابلد بنانے میں یہ بالا دست استبدادی قوتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن وقت کا کوڑا ہمیشہ دیر سے لیکن برستا ضرور ہے،کیونکہ جب ایسی استبدادیت معاشروں کو یر غمال بناتی ہے تو کہیں نہ کہیں اسی انسانی معاشرے میں فطری حرکت اور تبدیلی کا عمل بھی قلیل ہی سہی لیکن رواں دواں ہوتا ہے،فطرت اپنی جگہ خود بناتی ہے،اسی معاشرے میں بہت کم لیکن ایسے دماغ ضرور پیدا کرتی ہے جو اس فرسودہ نظام اور استبدادیت سے چھٹکارا چاہتے ہیں، ایسے دماغ فطرت کی آغوش سے تبدیلی کی ایک نئی کرن لے کر نمودار ہوتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ تبدیلی اور انقلاب کی یہ فکر اس فرسودہ فکر کے مد مقابل آتی ہے اور ایک بڑا تصادم ہوتا ہے،یہ تصادم دراصل فرسودہ اور تازہ دم افکار میں ہوتا ہے، یہ تصادم استبدادیت اور عدل کی علمبردار قوتوں میں ہوتا ہے، یہ تصاد م ظلم و جبر پہ مبنی حکومتوں اور مظلوموں کے درمیان ہوتا ہے۔۔۔ایک طرف نئے دور سے ہم آہنگ عدل و انصاف پہ مبنی نظریات ہوتے ہیں اور دوسری طرف ظلم و بے انصافی پہ مبنی دقیانوسی اور استحصالی سوچ و فکر ہوتی ہے،لیکن تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمیشہ فتح اس کو ہوئی ہے جو فطرت کی عطا کی ہوئی تبدیلی کی روش کو مد نظر رکھتے ہیں۔۔۔۔۔تبدیلی اور حرکت کے یہ علمبردار انقلابی کہلاتے ہیں۔۔۔۔ان کے دماغ صحت مند اور جاندار نظریات کا مسکن ہوتے ہیں۔۔۔اور ان کا عمل ان نظریات کا آئنہ ہوتا ہے۔۔تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کس طرح انقلابیوں نے ہر دور میں فرسودہ دستوروں اور ظلم و جور کو انسانی معاشروں سے ختم کیا اور انسانی دنیا کو ترقی و ارتقاء کے سفر کو آگے بڑھایا۔۔۔۔شاہ ولی اللہ ایک جگہ لکھتے ہیں: کہ جب انسانی معاشرے میں انقلاب ناگزیر ہو جاتا ہے،تو خالق کائنات اسی معاشرے کے اندر سے ایسے افراد پیدا کرتا ہے،انہیں انقلاب کا الہام کرتا ہے اور وہ آگے بڑھ کر ایک بڑی تبدیلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔۔ایسے دماغ خا لق کے منتخب کردہ ہوتے ہیں جو انسانی معاشرے میں یہ عظیم کام سر انجام دیتے ہیں“““انقلاب کی سوچ اور فکر دراصل اس فطری کائناتی حرکت اور تبدیلی کی غماز ہوتی ہے۔۔۔۔ایسے دماغ جن کے اندر تبدیلی اور آگے بڑھنے کی سوچ موجود نہ ہو وہ دماغ مردہ کہلاتے ہیں۔۔۔۔ہمیشہ کامیابی ان ہی کا مقدر ہوتی ہے جن کے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ موجود ہو۔۔۔۔ایک انقلابی کبھی ظلم اور جبر ۔۔۔۔۔ کی سیاہ راتوں کو برداشت نہیں کرتا۔۔وہ اپنا حال اپنی قوم کے مستقبل کے لئے قربان کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔۔۔وہ عقل دشمن اور انسان دشمن اور ترقی دشمن قوتوں سے نبرد آزما ہونا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے۔۔۔۔وہ ایک صحت مند اجتماعی تبدیلی ایک انسانی فریضہ سمجھ کے ادا کرتا ہے۔۔۔۔وہ اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ ارتقاء کا دروازہ کھولنے کے لئے فرسودہ دستوروں کو مٹانا ہو گا۔۔۔۔۔وہ نئے اور جاندار تمدن کا نمائندہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔وہ نئی اور جاندار تہذیب کا مبلغ ہوتا ہے۔۔۔۔ایک انقلابی انسانوں سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ وہ ان کے مستقبل کے لئے اپنی عزیز سے عزیز متاع قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔انسانی تاریخ میں برپا ہونے والے انقلابات کی تاریخ کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔۔۔ان انقلابی مفکرین،فلسفیوں اور قائدین کے کردار کا مطالعہ بہت ضروری ہے جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں اپنی اقوام کے لئے ان تھک جدو جہد کی۔۔۔۔۔اپنے انقلابی افکار کے ذریعے معاشروں کے اندر زندگی اور امید کی نئی روح پھونکی۔۔۔۔ظلم و جبر کے خلاف شعور عام کیا۔۔۔۔۔۔مظلوموں اور کمزوروں کو اپنے پاوں پہ کھڑا کیا اور ظالموں اور جابروں کے تختے الٹا دئیے۔۔تاریخ نے یہ نظارے بارہا دیکھے اور آئندہ بھی دیکھے گی۔۔۔جب کبھی انسانی معاشرے میں ترقی دشمن قوت غلبہ پائے گی اس کے خلاف جدو جہد ضرور ہو گی۔۔۔لیکن یہ جدو جہد فرشتے نہیں کرتے بلکہ انسانوں ہی میں سے ایسے افراد جن کے دل انسانیت کے لئے دھڑکتے ہیں۔۔۔جو علم وشعور کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔۔۔۔جو اپنی قوم اور ملک کو ترقی کی اگلی منازل سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں، وہ انقلاب کی جدو جہد میں کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔یہی وہ افراد ہوتے ہیں جو حقیقت میں اقوام کی تقدیر بدلتے ہیں۔۔۔۔۔آج ہمارا معاشرہ اسی طرح کی پل صراط سے گذر رہا ہے جہاں استبدادی قوتوں نے سرمایہ کے ذریعے استحصا ل کا ایک ایسا کھیل رچا رکھا ہے جس نے پورے انسانی معاشرے کو جمود اور ذلت کا شکار کر کے رکھ دیا۔۔۔۔گو کہ اکیسویں صدی میں زندہ رہ رہے ہیں لیکن کئی صدیوں پہلے کے فرسودہ نظام اور عقلی پسماندگی کے اندر مبتلا کر دیا گیا ہے۔۔۔۔۔استحصالی طبقات اپنے فطری ارتقا ء کے بدلے میں انسانوں کے جم غفیر کو قربان کر رہے ہیں،نہ تعلیم، نہ صحت، نہ عدل و انصاف اور نہ عزت نفس، ہر طرف ایک مافیا گروہوں میں گھرے انسان کسی مسیحا کی آمد کے منظر ہیں۔۔۔۔ہر آنے والا دن خوش فہمیوں اور مایوسیوں میں گذرتا ہے۔۔۔نئے دستور۔۔۔عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیم، صحت، سیاست، معیشت سب ایک خواب بن کے رہ گیا ہے۔۔۔یہ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک فطرت کے اس قانون کے مطابق معاشرے میں جوہری تبدیلی کے لئے جدو جہد نہیں ہو گی۔۔۔انقلابی عمل سے ہی فرسودہ نظاموں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔۔۔

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 134568 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More