سپریم کورٹ آف پا کستان کی خطرناک مجرم قرار د ئیے جانے کی بابت تشریح

پاکستانی معاشرئے میں ایک طرف تو ہم جمہوری ملک کہلوائے جانے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف حکومت اور عدالتیں سٹیٹس کو کو طول دیتی ہیں۔

جب بھی ہارڈینڈ یا ڈینجرس کریمنل کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو یہ طے شدہ امر ہے کہ ایسا مجرم جو کہ اتنا خطرناک ہے کہ وہ انسانیت کے لیے شدید خطرہ ہے اور وہ عام انسانوں کے ساتھ نہیں رہ سکتاہے ۔ ایسے مجرموں کے حوالے سے قانون کو سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں کیونکہ اس طرح کے مجرم معاشرئے کی سماجی، عمرانی، اخلاقی، معاشی اور مذہبی اقدار کے لیے ہر دم شدید خطرئے کا باعث بنے رہتے ہیں۔ ایسا شخص جو کہ ایسے کسی کیس میں ملزم نہ ہو جو کہ ناقابل ضمانت ہو اگر اُس شخص کو بغیر وارنٹ گر فتار کیا گیا ہو یا کسی پولیس آفیسر نے جو کہ تھانہ کا انچارج ہو،نے گرفتار کیا ہو ایسے شخص کو ضمانت پر رہا کیا جاسکتا ہے۔ ایسا ملزم جس پر قتل کا الزام ہو اور اُس جرم کی سزا موت ہو اور اُس کو گرفتار ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہو اور اُسکا ٹرائل ابھی تک مکمل نہ ہو ا ہو ۔ ایسا شخص جس کو سزائے موت کی سزا ہوئی ہو اور اور وہ ملزم مسلسل دو سال سے زائد عرصہ تک جیل میں ہو اور ابھی تک اُسکے کیس کا ٹرائل مکمل نہ ہوا ہو۔ تو اُس کو بھی ضمانت پر رہا کر دیا جائے گا۔ اگر ملزم کے کیس کی تفتیش کسی بھی سطع پر اور کوئی بھی و جہ نہ ہو کہ یقین کیا نہ کیا جائے سکے کہ ملزم سے ایسا جرم سرذد ہوا ہے جو کہ نا قابل ضمانت ہو یا ابھی تک ٹرائل مکمل نہ ہوا ہو یا کیس کی مزید تفتیش ہونا باقی ہو۔ تو اُس کی ضمانت ہو سکتی ہے ۔اگر کسی وقت بھی کسی ملزم کا ٹرائل ناقابل ضمانت کیس میں ہوا ہو اور ابھی تک فیصلہ نہ آیا ہو اور یہ بات قرینِ قیاس ہو کہ ملزم قصوروار ثابت نہیں ہوس کے گا تو اُس ملزم کی ضمانت لے لی جائے گی ۔ جگت رام بنام ریاست 1997SCMR 36 کے مطابق آرڈر4 آف 1979 کے تحت مذکورہ کیس میں ملزم پہلے سے کسی بھی مقدمے میں ملوث نہ ہے اور نہ کسی جرم کی سرگرمی میں پہلے سے ملوث رہا ہے اس لیے یہ خطرناک مجرم کی صف میں نہیں گردانا جاسکتا ۔ اس حوالے سے صرف فیکٹ یہ ہے کہ ملزم سے ہیروین برآمد ہوئی ہے جو کہ مبینہ طور پر وہ گدھا گاڑی پر لے جارہا تھا اس بنا ء پر ملزم کو سخت گیر یا خطرناک ملزم نہیں گردانا جاسکتا جو مبینہ جرم ہوا ہے اُس کے سزا عمر قید ہے ابھی ٹرائل مکمل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ٹرائل مکمل ہوتا نظر آرہا ہے ملزم کو قید میں ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے ۔ اپیل کی اجازت کی پٹیشن کو اپیل میں بدل دیا جاتا ہے جس کی اجازت دی جاچکی تھی اور ملزم کی ضمانت بھی لی جاتی ہے B(P.636 ( مذکورہ مقدمہ کی سماعت 8 اگست 1995 کو ہوئی جج صاحبان سلیم اختر صاحب اور سعیدالزمان صدیقی صاحب اس کیس میں تھے۔ سعیدالزمان صدیقی صاحب نے اس کیس کا فیصلہ لکھتے ہو ئے کہا کہ پٹیشنر نے سندھ ہائی کورٹ کے 2-05-1995 کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت مانگی ہے جس فیصلے میں ملزم کی ضمانت 3 پرویزو سیکشن 497 سب سیکشن(1) .pc Cr کے تحت نہیں دی گئی کہ ملزم خطرناک مجرموں کی صف میں شامل ہے۔ ہم نے اس کیس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو 1-8-1995 کو نوٹس جاری کیے اور پٹیشنر اور سرکار کے وکیل صاحبان کا موقف سننے کے بعد اس پٹیشن کو اپیل میں بدل دیا اور اس کو ڈسپوزآف کردیا۔ پٹیشنر 9-9-1993 کو حدووا ٓرڈر کے آرٹیکل کے تحت مبینہ طور پر پچیس کلو گرام ہیروین کو گدھا گاڑی پر لے جانے کے جرم میں گرفتار ہوا۔ پٹیشنر نے ٹرائل کورٹ میں ضمانت کی درخواست اس بناء پر دائر کی کہ پٹیشنر ایک سال سے زائد عرصہ سے جیل میں ہے اور ابھی تک کیس کا فیصلہ نہ ہو پایا ہے۔ جو کے ٹرا ئل کورٹ نے 22-9-1994 کو مسترد کردی۔ بعدازاں پٹیشنر نے ہائی کورٹ میں رسائی حا صل کی لیکن وہاں بھی اس کی درخواست ضمانت رد کردی گئی۔ ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحب نے تھرڈ پرویزو سب سیکشن 1) ( آف سیکشن , 497 سی آر پی سی, کے تحت اس بنا پر درخواست ضمانت رد کی کہ ملزم نے دن کے وقت ہیروین کو لے جا کر خود کو خطرناک اور سخت گیر کریمنل ثابت کیا ہے۔ اس لیے اُس کی ضمانت نہیں لی گئی ۔ فاضل ہائی کورٹ کے جج صاحب نے اس بات کو بھی فیصلے کے دوران مدِنظر رکھا کہ ہیروین لے جانے کے جرم کی سزا ملزم کی قید کے دوران بڑھا دی گئی ہے اور اب ایک ترمیم کے تحت جو کہ 7-8-1994 کو ہوئی ہے اُسے اب سزائے موت کردیا گیا ہے۔ درخواست گزار کے فاضل وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کبھی بھی کسی مجرمانہ کاروائی میں ملوث نہیں رہا ہے اور ریکارڈ یہ بات ظاہر کرتاہے کہ نہ ہی درخواست گزار کے خلاف کوئی بھی کریمنل کیس زیرِسماعت ہے۔ درخواست گزار کے وکیل نے مزید یہ کہا کہ کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اُس نے اس انداز میں ایکٹ کیا ہے جس سے وہ ہارڈینڈ کریمنل یا خطرناک کریمنل گردانا جاسکتا ہے۔ آخر میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار 9-9-1993 کو گرفتار ہوا تھا اور چند دنوں کے بعد اُس کو گرفتار کیے جانے کا عرصہ دو سال ہو جائے گا اور گیارہ گواہان میں سے صرف دو گواہان کی گواہی عدالت نے ابھی تک لی ہے۔ ملزم کی طرف سے ضمانت پر رہائی اُسکا اس بناء پر حق ہے کہ کیس کا فیصلہ ہونے میں تا خیر ہے ضمانت پر رہائی کی مخالفت صرف اِس بناء پر کی جاسکتی ہے کہ کیس کے ٹرائل کے فیصلے میں کسی طرح ملزم یا اُس کی ایماء پر کو ئی او شخص حائل ہے۔ اس بناء پر بھی ملزم کی ضمانت پر رہائی نہیں دی جا سکتی بیشک دو سال میں ٹرائل مکمل نہ بھی ہوا ہو اگر ملزم پہلے سے ایسے مقدمے میں سزا یافتہ ہو جس کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہو یا عدالت کی رائے میں ملزم کو ہارڈنڈ کریمنل، خطرناک کریمنل یا دہشت گردی میں ملوث پایا گیا ہو۔ اس سے صاف ظا ہر ہوتا ہے کہ 497 (1) سی آر پی سی کے تحت ضمانت اُس وقت منسوخ کی جاسکتی ہے جب مقدمے کا ٹرائل مقررہ دو سال میں مکمل نہ ہو ہو یا پہلے سے عدالت کی طرف سے اُسے ایسے مقدمے میں گناہ گار قرار دیا گیا ہو جس جُرم کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہو یا عدالت یہ سمجھتی ہے کہ ملزم ہارڈنڈ کریمنل، خطرناک کریمنل یا دہشت گردی میں ملوث پایا گیاہو۔محمد حنیف بنام سرکار پی ایل ڈی1986 کراچی 437 کے مطابق ملزم کو ہارڈنڈ کریمنل، خطرناک کریمنل یا دہشت گردی میں ملوث پایا جانا قرار دیا عدالت کی طرف سے اِن شواہد کی بناء پرجا تا ہے جو کہ Bail Application کی صورت میں عدالت کے سامنے Findings آئی ہیں۔ یا دیگر طریقوں سے عدالت کے علم میں ایسی Findings آتی ہیں اِس کیس میں ملزم کو Pending مقدمات میں ہارڈنڈ کریمنل یا خطرناک کریمنل قرار دیا جارہا ہے اور ساتھ یہ بھی ہے کہ ملزم نے اپنی سگی بہن کی بیٹی کو ریپ کیا ہے اس بناء پر فورتھ پروزو آف سیکشن 97 (1) سی آر پی سی کے تحت عدالت نے اس کی ضمانت کو declined کیا ہے۔ جلال بنام اﷲ یا ر کیس (1993 SCMR 525) کے مطابق اِس عدالت نے Leave گرانٹ کردی تھی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایسا کیا تھا اُس کیس میں عدالت نے ملزم کو ہارڈنڈ اور خطرناک کریمنل قرار دیا تھا۔ حالانکہ ملزم نے دو افراد کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے قتل کیا تھا۔ اِس عدالت نے آخر کار اپیل ڈسمس کردی تھی اور ہائی کورٹ کے ضمانت لیے جانے کے فیصلے 3 پروزو سیکشن(1) 497 سی آر پی سی کو برقرار رکھا تھا کیونکہ مقدمے کے شواہد یہ ثابت نہیں کرتے تھے کہ ملزم ہارڈنڈ کریمنل یا خطرناک کریمنل ہے اگرچہ ملزم نے دو افراد کو قتل کیا تھا لیکن ملزم سے ایسا صرف ایک گولی چلنے سے ہوا FIR سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ ملزم کریمنل فطرت کا مالک ہے اور وہ کسی اور جرم میں بھی پہلے سے شریک ہے۔ اِس وقت جو کیس ہمارے سامنے ہے اس سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ ملزم پہلے سے سزا یافتہ نہ ہے نہ ہی اسکے خلاف کسی کیس میں کہیں پروسیکیوشن ہوئی۔ صرف یہ کہ ملزم پر یہ الزام ہے کہ ملزم دن کی روشنی میں گدھا گاڑی پر ہیروین لے جارہا تھا اس سے یہ نہیں قرار دیا جاسکتا کہ ملزم ہارڈینڈ کریمنل یا خطرناک کریمنل ہے۔ ایسا کوئی مواد بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ملزم ہارڈینڈ کریمنل یا خطرناک ملزم کی صف میں شامل ہے۔ جس جرم میں ملزم جیل میں ہے اُس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے اور ملزم ایک سال سے زائد عرصے سے قید میں ہے اور مستقبل قریب میں ٹرائل مکمل ہونے کا امکان بھی نہیں اور FIR کے مطابق 11 گواہان میں سے صر ف دو کی گواہی عدالت میں ہوئی ہے۔ ہم درخواست منظور کرتے ہوئے درخوست گزار کا ٹرائل مکمل نہ ہونے کی بناء پر ضمانت منظور کرتے ہیں۔ درخواست ضمانت دو لاکھ کی شورٹی پر گرانٹ کی جاتی ہے۔ اس مقدمہ میں عدالت عظمیٰ نے ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم فرما دیا۔وجہ اس میں یہ بیان کی گئی کہ یہ درست ہے ملزم کو ہارڈند کریمنل کہا جارہا ہے لیکن ایسا ثا بت نہیں ہو پایا اور مقدمے کا ٹر ا ئل بھی نہیں مکمل ہوا ا ور ملزم کو ابھی اس مقدمے میں سزا بھی نہیں ہوئی۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 381912 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More