کامیابی کا زینہ

تحریر: دیا خان بلوچ،لاہور
راحم بہت ہی ملنسار اور سمجھدار بچہ ہے ۔وہ پانچویں جماعت کا طالبعلم ہے ۔آج راحم بہت خوش تھا کیوں کہ چند دن بعد اس کی ننا جان اس کے ساتھ رہنے آنے والی تھیں۔ جب سے اسے پتہ چلا تھا ،تب سے وہ ان کے لئے کمرہ سجانے میں مصروف تھا۔اسی طرح چند دن گزرے اور وہ دن بھی آگیا جب ننا جان اس کے گھر آگئیں۔انہوں نے راحم کو ڈھیروں پیار کیا۔نناجان اس کے لئے بہت سے تحائف لائی تھیں۔لیکن ایک تحفہ انہو ں نے چھپا کر رکھ دیا اور کہا کہ یہ صحیح وقت آنے پہ دوں گی۔جب سے راحم نے یہ سنا تھاکہ وہ بہت قیمتی تحفہ ہے اور وقت آنے پہ دیا جائے گا تب سے وہ اس سوچ میں گم تھا کہ نجانے اس میں کیا ہوگا؟ننا جان نے سب کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور اس کے بعد آرام کرنے کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
اگلی صبح ننا جان لان میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھیں۔راحم بھی ان کے پاس سلام کر کے بیٹھ گیا۔اس نے دیکھا تو کتاب کا عنوان اسے بے حد دلچسپ لگا۔عنوان تھا ’ ننھا ادیب‘۔اس نے ننا جان سے پوچھا کہ اس کتاب میں کیا ہے، تو انہوں نے کتاب بند کر کے ایک طرف رکھ دی۔پھر بولیں:
راحم بیٹا!یہ تمہاری عمر کے بچوں کے لئے بہت ہی دلچسپ کتاب ہے،اس میں بچوں کی رنگ برنگی شرارتیں ہیں۔ہر موڑ پہ ایک نئی شرارت ہوتی ہے۔اب آپ تو کتابیں پڑھتے نہیں تو میں کیا بتاؤں آپ کو۔ننا جان نے افسردگی سے کہا۔
ارے نہیں ننا جان!بس میری اسکول کی کتابیں ہی اتنی ڈھیر ساری ہیں کہ میں ان کہانیوں کو پڑھ ہی نہیں سکا جو آپ نے مجھے پچھلے برس دی تھیں۔لیکن نناجان!مجھے علم نا تھا کہ یہ اتنی دلچسپ کتابیں ہیں کہ آپ باقی سب بھول جاتے ہیں۔جیسے کہ آپ اتنی محو ہو کر پڑھ رہی ہیں کہ ہماری خبر ہی نہیں۔
نہیں بیٹا،مجھے سب کی خبر ہے لیکن تم ان گیمز میں مصروف تھے۔اس لئے میں باہر لان میں آگئی۔نناجان نے مسکرا کر جواب دیا۔
اچھا ایک بات بتائیں نناجان!جب آپ چھوٹی تھیں تو آپ کس طرح کے کھیل کھیلنا پسند کرتی تھیں۔راحم نے تجسس سے پوچھا۔
سوال بہت اچھا ہے آپ کا،مجھے اپنا بچپن بہت یاد آتا ہے۔ہم نے بہت مزے کیے ہیں ۔مجھے کتابیں پڑھنا بہت اچھا لگتا تھا کہ یہ مجھے نئی دنیا کی،نئے ادب کی سیر کرواتی تھیں۔ہمارے استاد بھی بہت اچھے تھے۔وہ ہماری ہر طرح سے رہنمائی کیا کرتے تھے۔جیسا کہ میں نے بتایا کہ مجھے کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔اس لئے مجھے میرے استاد کہانیوں کی کتابیں دیا کرتے تھے۔ ان دنوں ہر ہفتے ایک پروگرام ہوا کرتا تھا جس کا نام بزم اطفال تھا۔میرے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے اس محفل میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔میں بہت خوش بھی تھی کہ ننھے بچوں کے لئے مزے مزے کی کہانیاں لکھنے والے ادیبوں سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔نناجان سانس لینے کو رکیں۔
پھر کیا ہوا؟راحم نے بے چینی سے پوچھا۔نناجان مسکرائیں۔ جب میں وہاں گئی تو دیکھا کہ میری طرح اور بھی بہت سے بچے وہاں موجود ہیں۔پھر پروگرام کے میزبان سے بھی ملاقات ہوئی ،اور ادیبوں سے بھی۔سب بہت محبت سے ملے،پھر ہمیں ایک مزے کی کہانی سنائی گئی۔اس کہانی میں ایک اخلاقی سبق چھپا تھا۔میزبان نے کہا جو اس اخلاقی سبق کی سب سے پہلے نشاندہی کرے گا اسے کتب تحفتاً دی جائیں گی۔اتفاق ایسا ہوا کہ میں نے سب سے پہلے جواب دیا اور مجھے انعام کے طور پہ کتب دی گئیں۔وہ کتابیں میرے پاس آج بھی موجود ہیں۔یہ سب بتاتے ہوئے نناجان کچھ کھو سی گئیں تھیں،جیسے وہی دن ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہوں۔
ان کتابوں کی بدولت ہی اپنے اساتذہ کی اہمیت کو جان پائے ہیں،ان کا ادب کرنے کی تربیت ہمیں ان کتابوں سے ملی ہے۔نہ کبھی ان سے اونچی آواز سے بات کی اور نہ ہی کبھی ان کو تنگ کیا۔بہت اچھا وقت تھا،بہت کچھ سیکھا اور اب بھی سیکھ رہے ہیں۔جو باتیں بچپن سے ذہن میں بیٹھ گئی ہیں،وہ بھولتی نہیں۔اب تو ہم دیکھتے ہیں کہ استاد بچوں سے نالاں ہیں ،اور بچے استاد کو بہت زچ کرتے ہیں۔ایسا کیوں ہورہا ہے؟یہ سوال کوئی نہیں سوچ رہا،اس کی روک تھام کے لئے کیا کرنا چاہیئے،کوئی نہیں جاننا چاہتا۔
تو نناجان کیا کیا جائے؟؟؟اس نے پوچھا۔ اگر بچوں کو شروع سے اچھی کتب کے مطالعے کی عادت ہوگئی تو وہ کبھی بھی اپنی منزل سے نہیں بھٹکیں گے۔انہیں پتہ ہوگا کہ ہمیں اپنے بڑوں سے کس طرح بات کرنی ہے۔تربیت بھی ساتھ ساتھ ہو جاتی ہے۔تبھی راحم بولا: نناجان!میں تو اسکول کی کتابیں پڑھ کر تھک جاتا ہوں اور دوسری کتابیں کیسے پڑھوں؟راحم نے اہم نقطہ اٹھایا۔
میں مانتی ہوں کہ آپ تھک جاتے ہوں گے،لیکن اگر آپ یہ کتابیں پڑھیں گے تو نہ صرف آپ کی معلومات میں اضافہ ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ بہت سے مقامات کی سیر بھی کر لیں گے۔آپ کی لغت میں اضافہ ہوگااور بھی بہت سے ان گنت فائدے ہیں۔
جب آپ ایسے کھیل کھیلتے ہو جن سے آپ کی ذہنی نشوونما نہیں ہوتی بلکہ ان کی وجہ سے ذہن پر اور بھی بوجھ پڑتا ہے اور سر درد کرنے لگتا ہے۔ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ نناجان آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔راحم بولا۔کیا آپ مجھے کوئی اچھی سی کتاب دیں گی کہ میں اس کو پڑھوں ۔
جی ہاں!بالکل،یہ کہتے ہی نناجان نے ’ بہادر بچے ‘ کتاب راحم کی بڑھا دی۔راحم نے شکریے کے ساتھ کتا ب لی،اور تھوڑی دیر بعد اپنے کمرے میں چلا گیا۔ راحم نے جب کتاب پڑھنا شروع کی تو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا،کتاب بہت دلچسپ تھی،اس میں اتنی معلومات تھی اور بہادر بچوں کے مختلف کارناموں سے بھری ہوئی تھی۔راحم کا دل چاہا کہ وہ بھی ان کی طرح اچھے اچھے کام کرے اورسب کی مدد کرے۔اسے نیند کب آئی پتہ ہی نہ چلا،جب آنکھ کھلی تو فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں۔آج بہت عرصے بعد سکون کی نیند آئی تھی۔یہ اس اچھے ادب کو پڑھنے سے ہوا تھا ۔راحم اٹھا اور وضو کرنے چلا گیا۔نماز فجر کی ادائیگی اور تلاوت کے بعد وہ پھر سے کتاب اٹھا چکا تھا،آج وہ ذہنی طور پر بہت پر سکون تھا۔
نناجان بھی بہت خوش تھیں اور راحم بھی۔اب تو یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا،راحم اب اپنا فارغ وقت ان کتابوں کے ساتھ گزارا کرتا تھا۔وہ اب اپنے وقت کو ان فضول گیمز میں ضائع نہیں کرتا تھا۔انہیں دنوں اس کے اسکول میں تقریری مقابلے ہوئے تو راحم نے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اب کی بار اس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تھا اور نت نئی معلومات بھی۔لب و لہجہ بھی اس کا نکھر گیا تھا۔جب مقابلہ ہوا تو اس نے پورے اسکول میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی وہ بہت خوش تھا۔اس نے گھر آکر نناجان کو اپنی کامیابی کی خبر دی،تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں۔انہوں نے آج اسے وہ خاص تحفہ دیا تھا جونناجان نے سنبھال کر رکھا تھا۔راحم نے ان سے وعدہ کیا اب وہ کتابوں سے اپنی دوستی کبھی ختم نہیں کرے گا۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1021200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.