استعماری حملوں کے سد باب کیلئے مسلمانانِ عالم کا عالمی یوم درود منانا اسلامی شوکت وشان کا مظہر

روحانی سبق کی تجدید-درود پاک کا وِرد امت مسلمہ کی زندگی کی علامت- لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

نقوشِ فکر: بچپن سے ہی ہمارے معاشرے میں یہ ذہن سازی کروائی جاتی ہے کہ درود شریف سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔ اﷲ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ اﷲ کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوش نودی حاصل ہوتی ہے۔ درود پاک کا وِرد دل کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ ایمان کی تازگی، فکر کی تطہیر، خیالات کی تعمیر کا سبب ہے۔ درود پاک سے دل نرم ہوتا ہے۔ برکتوں کا ظہور، اکرام کا نزول ہوتا ہے۔ شہر میں برکت، ملک میں امن و امان قائم ہوتا ہے۔ رزق میں کشادگی، محلے میں رونق، گھر میں خیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے۔اﷲ ہمارے بزرگوں کوسلامت رکھے۔ جو رخصت ہو گئے ان کی قبروں کو نور نور فرمائے کہ انھوں نے ہمیں درود شریف سے قریب کیا۔ درود شریف نے اﷲ کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم سے، اور محبوب پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے رب سے ملایا ؂
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد ﷺ

استعمارِ مغرب کے حملے: صدیوں سے اسلام کے سیلِ رواں کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ مغرب کی وادیاں اسلام کی اذانِ سحر سے گونجتی رہیں۔ افریقہ کے علاقے فتح ہوتے رہے۔ برصغیر میں اسلام کی کرنیں پہنچ کر دلوں کی تسخیر کرتی رہیں۔ جتنی کوششیں اسلام کے خلاف ہوئیں اتنے ہی دل فتح ہوتے گئے۔ توحید و رسالت کے نغمے فضائے بوجھل کو خوش گوار بناتے رہے۔ صدیوں کی نامرادی کے بعد صہیونیت نے یہود و نصاریٰ کے اشتراک سے تازہ منصوبوں کے ساتھ حملہ کیا۔ ان کا رخ ناموسِ رسالت کی طرف تھا۔ انھیں یہ گمان تھا کہ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے رشتوں کی بنیادیں ڈھے جائیں گی۔ منصوبہ دلوں سے محبت رسول نکالنے کا تھا، اقبالؔ نے استعماری فکر کی عکاسی میں یہ مصرعے کہے تھے ؂
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

حملوں کا زیادہ رُخ ناموسِ رسالت پر رہا، گزری کئی صدیوں میں اس کے نتائج ظاہر ہوئے۔ قادیانیت کا وجود، دھریت کا فروغ، فرقوں کا ظہور اسی سمت کوششیں تھیں۔ ان کا دوسرا رُخ افسانوی رنگ میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر حملہ تھا، جس کے لیے تسلیمہ نسرین و رشدی جیسے افراد تیار کیے گئے۔ یہ معاملات کوئی یہودی یا انگریز یا مشرک کرتا تو مسلم امہ اسے مسترد کر دیتی۔ لیکن کوئی بنام مسلم کرے تو اس کی فکر بعض دلوں میں رچ بس جاتی ہے۔ یہی ہوا کہ شیطانی فکر والوں نے انھیں قبول کیا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی توہین کی ایک فضا تشکیل پائی۔ فرضی خاکے بنائے گئے۔ کردار کشی کی گئی۔ کتابیں شائع ہوئیں۔ جرأت یہاں تک کی گئی کہ مسلسل توہین کو سراہا گیا۔ آزادیِ اظہار کے نام پرگستاخی کو تحفظ دیا گیا۔ پاکستان میں ناموسِ رسالت کے قانون کی توہین کرنے والے سلمان تاثیر کو بے لگام و آزاد رکھا گیا۔ جس کا نتیجہ غازی ممتاز جیسے مردِ جری کی شکل میں دنیا نے دیکھا؛ جس نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے جاں نثاری کی تاریخ مرتب کی اور درود پاک سے عشق نے اسے فدا کاری کی منزل دکھائی، بقول رضاؔ ؂
جان دے دو وعدۂ دیدار پر
نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا

ناموسِ رسالت پر حملوں کا ایک مثبت جواب ہے اُمت کو درود شریف سے قریب کر دینا۔ ہر زباں درود پاک کے نغمے گنگنائے۔ استعماری سازشیں مضمحل ہوں گی کہ مسلمان اپنے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمتوں کے ترانے لبوں پر سجاتا ہے۔ درودوں کی سوغات بھیج کر اﷲ کے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم سے اظہارِ محبت کرتا ہے۔ 15جولائی کو ایسے وقت میں یوم درود کے طور پر منایا گیا جب کہ درجنوں یوم فحاشی و مغربی تمدن کی آبیاری کے لیے منعقد کیے جا رہے ہیں تا کہ مسلمان اسلامی روایات فراموش کر کے صہیونی عیاشیوں میں کھو جائے۔

اسلاف کی راہ میں کامیابی: ہمارا ماضی روشن تھا۔ ظاہری ترقی کے امکانات نہیں تھے۔ باطن اجلے تھے۔ اﷲ کا خوف تھا۔ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم سے عقیدتوں کا رشتہ تھا۔ لب پر ذکر اﷲ اور ذکر حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم۔ اسلاف نے محبت سکھائی۔ عقیدتوں کو درست راہ دی۔ ہر زباں درود سے تر؛ ہر بچے کو -ہر درد کی دوا ہے صل علیٰ محمد- کا نغمہ یاد کرایا جاتا تھا۔ زباں گانوں سے پاک تھی۔ فلمی گیت دلوں میں نہیں سماتے تھے۔ خیالات کی وادیاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یاد سے شاداب تھیں۔اسی وجہ سے ایمان تازہ تھے۔ مسلماں طوفانوں سے لڑ جاتے۔ جس زمیں پر جاتے اسلامی شوکت کے علَم نصب کر دیتے۔ دلوں پر حکومت کرتے۔ دیانت عام کرتے۔ انصاف کا بول بالا ہوتا۔ کرپشن کا نشاں ختم ہو جاتا۔دہشت گردی مٹ جاتی۔ انسانیت سنور جاتی۔ حقوق کی پاس داری ہوتی۔ آج معاملہ برعکس ہے۔ درود سوغات ہے روشن ماضی سے جڑنے کی۔ درود تزکیۂ روح کا وسیلہ ہے۔ درود اسلامی معاشرے کی شوکت کا ساماں ہے۔درود عزمِ محکم کے لیے قوت کا نام ہے۔

ہم سلام کرتے ہیں ان قائدین کو، ان خانقاہی بزرگوں کو جنھوں نے درود پاک کے پاکیزہ نغموں کی بازگشت کے لیے ایک دن منایا۔ شب بھی روشن؛ دن بھی تاباں۔ اسلام دشمن قوتیں پوری توانائی صرف کر کے مسلمانوں کی روح ختم کرنا چاہتی ہیں۔ پوری پوری حکومتیں سرپرستی کر رہی ہیں اسلام کے خلاف۔ ایسے ماحول میں بغیر کسی اقتدار کی سرپرستی کے کروڑوں مسلمانوں کا درود پاک کی بزم سجانا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اٹوٹ رشتۂ غلامی کا والہانہ اظہار ہے۔ اسلامی فطرت کی طرف رجوع کی علامت ہے جو ہماری اسلامی زندگی اور ماضی کی شوکت کا زریں باب کہلائے گا ؂
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اُجالا کردے

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 254380 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.