ایک اور واقعہ

جانے اس کا قصور کیا تھا، کم سن ہونا، کم زور ہونا، غریب ہونا یا ملازم ہونا۔ شاید معاملہ قصور یا خطا کا نہیں، مسئلہ اندھی طاقت کا ہے، المیہ قانون کی بے بسی، بے حسی، بے کسی اور بے چارگی کا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے دیس میں زورآور کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ کم زور کے ساتھ جو چاہے سلوک کرجائے۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والا تیرہ سالہ اخترعلی اپنی بہن عطیہ کے ساتھ مسلم لیگ ن کی پنجاب اسمبلی کی ایک رکن کی بیٹی کے لاہور میں واقع گھر میں ملازم تھا۔ ان بہن بھائی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس گھر میں ان بچوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ ایسے ہی تشدد کے نتیجے میں اخترعلی کی زندگی کا چراغ گُل ہوگیا۔ اس کم سن گھریلو ملازم کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ثابت ہوگیا ہے کہ اس پر تشدد کیا گیا۔ مقتول کے جسم کے سولہ مقامات پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔ اس حوالے سے شایع ہونے والی خبر کا یہ جملہ میری آنکھیں نم کرگیا کہ مقتول بچے کا معدہ خالی تھا۔

ہلاک ہونے والے تیرہ سالہ اختر علی کے والد محمد اسلم نے اکبری گیٹ پولیس کو بتایا کہ ان کا بیٹا اختر اور بیٹی عطیہ اندرون اکبری گیٹ کی رہائشی فوزیہ بی بی کے گھر پر گذشتہ تین چار سال سے ملازم تھے۔ محمد اسلم کے مطابق اختر علی گذشتہ کچھ عرصے سے اپنے ساتھ فوزیہ بی بی کے ناروا رویے اور مبینہ تشدد کی شکایت کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے پولیس کو بتایا کہ انھیں منگل کو اختر علی کی طبیعت خراب ہونے کی اطلاع ملی جس پر وہ اس کی خیریت دریافت کرنے لاہور آئے۔ محمد اسلم کے مطابق ان کی بیٹی عطیہ نے انھیں بتایا کہ دو روز قبل فوزیہ نے مبینہ طور پر لوہے کی سلاخ اور چمچ کے ساتھ اختر علی کو زدوکوب کیا تھا جس سے وہ زخمی ہو گئے تھے۔ اکبری گیٹ تھانے میں درج رپورٹ کے مطابق محمد اسلم نے الزام لگایا ہے کہ فوزیہ بی بی کے مبینہ تشدد سے آنے والے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ان کا بیٹا اختر علی ہلاک ہوا۔
گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، ایسے واقعات تواتر کے ساتھ سامنے آتے رہے ہیں۔ کبھی کوئی بچی ستم کا نشانہ بنی تو کبھی کوئی بچہ ظلم کا شکار ہوا۔ اخترعلی، عطیہ اور ایسے ہی دیگر بچوں کی کہانی ہمارے ملک میں پھیلے غربت وافلاس کی کہانی سی جُڑی ہے، دوسری طرف ہمارے یہاں طاقت وروں کی من مانی کے خوف ناک چلن کی داستانیں بھری ہوئی ہیں۔

اگرچہ ہم دشمن کے بچوں کے پڑھانے کا عزم رکھتے اور اس کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ غربت میں زندگی کرتے ہمارے اپنے بچے تعلیم، عزت نفس اور تحفظ سے محروم ہیں۔ یہ بچے شہروں اور دیہات میں آباد افلاس زدہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ جنگل کے اندھیرے کی طرح مسلط بھیانک افلاس کے ساتھ بے روزگاری، بیماری اور دیگر مسائل ان گھرانوں کی قسمت بنے رہتے ہیں۔ ان حالات کا شکار والدین کے لیے جینے کا واحد راستہ یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے محنت مزدوری کروائیں۔ چناں چہ ماں باپ کی یہ مجبوری کہیں کسی ورکشاپ پر کام کرتے اور سیاہی میں لتھڑے ’’چھوٹے‘‘ کی صورت میں نظر آتی ہے تو کہیں کسی ہوٹل پر چائے اور کھانا لاتے اور برتن دھوتے کم عمر بچے کی شکل میں دکھائی دیتی ہے، کبھی یہ اینٹوں کے کسی بھٹے پر مشقت کرتے بچوں کی صورت میں دکھائی دیتی ہے تو کبھی کسی قالین بنانے کے کارخانے میں محنت کرتے ننھے مُنے ہاتھوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ غربت کی یہ فصل دولت مندوں کے لیے بڑی سودمند ثابت ہوتی ہے، اس کی وجہ سے مال دار افراد کو نہ صرف نہایت سستے مزدور بچوں کی صورت میں ہاتھ آتے ہیں بل کہ انھیں گھریلو ملازم کے طور پر بھی بہت کم معاوضے پر پورے پورے دن کے لیے اور ہر کام کے لیے بچے میسر آجاتے ہیں۔ یوں سمجھے کہ شدید غربت کا شکار والدین بچے نہیں طبقۂ امراء کے لیے غلام پیدا کر رہے ہیں۔

غریب والدین یہ سوچ کر اپنے بچوں کو امیر گھرانوں کے یہاں گھریلو ملازم کے طور پر بھیج دیتے ہیں کہ کسی ورک شاپ، ہوٹل، کارخانے یا بھٹے پر کام کرنے کی بہ نسبت کسی گھر میں جھاڑوپونچھا دینا، کھانا پکانا، برتن دھونا اور دیگر کام کرنا آسان ہوتا ہے، انھیں کیا معلوم کے ان کے معصوم بچے اونچے اونچے محلوں کی چار دیواری میں کیا کچھ سہتے ہیں، کیا کچھ برداشت کرتے ہیں، جہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ دولت اور طاقت کے غرور میں مدہوش لوگ ان بچوں کو زرخرید غلام سمجھتے ہوئے ذراذرا سی بات پر انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں، لیکن معصوم بچوں پر ظلم ڈھانے والے اور ان کی جان لینے والے دولت کا سہارا لے کر بچ جاتے ہیں۔

اخترعلی کی ہلاکت کا واقعہ ان گھریلو ملازم بچوں کے حالات کی کہانی سُنا رہا ہے، کوئی ہے جو یہ کہانی سُنے اور اس ظلم کے شکار بچوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے کچھ کرے؟

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 279341 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.