علامہ اقبالؒ ٬ سکھ کا قبولِ اسلام اور انسان کی پناہ

علامہ اقبالؒ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد چونیاں میں سب جج کے عہدے پر مامور تھے۔ وہاں ایک گیانی سکھ تھا۔ جس کی تقریر کی بڑی دھوم تھی، بڑا جادو بیان تھا۔ شیخ صاحب بھی اس کی تقریر سننے کے شوق میں گاہے بگاہے سکھوں کے گوردوارے جایا کرتے تھے۔

بیدی خاندان کا یہ گرنتھی انارکلی گوردوارہ میں بھی رہ چکا تھا اور بڑے کھلے دل سے گفتگو کرتا تھا۔ ایک دن وہ شیخ صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ : ”میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ مجھے ڈاکٹر اقبال کی خدمت میں لے چلیے۔“

موسم گرما کی تعطیلات ختم ہوتے ہی شیخ اعجاز احمد اس سکھ مقرر کو اپنے ہمراہ لے کر لاہور آئے اور علامہ اقبال کی خدمت حاضر ہوئے۔ سکھ نے پہلے اپنے مشرف بہ اسلام ہونے کا ارادہ ظاہر کیا.... پھر بولا کہ ”میرے بہت سے بال بچے ہیں، خرچ زیادہ، آمدنی کم ہے کیا اچھا ہو کہ مسلمان ہونے کے بعد میری مالی امداد کی بھی کوئی صورت نکل آئے۔“

علامہ اقبال اس گیانی سکھ کی زبان سے مالی امداد کا ذکر سن کر متاثر بلکہ متاسف ہوئے، انہوں نے فرمایا.... ”اول تو مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے، جہاں سے نومسلموں اور ضرورت مندوں کی مالی امداد کی جاتی ہو، دوسرے مسلمان ہونے کیلئے مالی امداد کی شرط.... یہ بات کسی طرح پسندیدہ نہیں۔“

اس کے بعد علامہ اقبال نے ایک واقعہ سنایا کہ میرے والد ضلع گوجرانوالہ میں ایک بزرگ سے ملنے گئے۔ یہ بزرگ گاﺅں سے باہر چار پائی پر بیٹھے چند صاحبوں سے باتیں کررہے تھے۔ اتنے میں ایک جنگلی خرگوش جس کے پیچھے کتے لگے ہوئے تھے بھاگتا ہوا ادھر آیا اور چارپائی کے نیچے بیٹھ گیا، اس خرگوش کا جو کتے تعاقب کررہے تھے وہ چار پائی پر آدمیوں کو بیٹھا دیکھ کر ٹھہر گئے، بلکہ یوں کہیے ٹھٹھک کر رہ گئے۔ وہ بزرگ یہ منظر دیکھ رہے تھے، انہوں نے خرگوش کو مخاطب کرکے فرمایا: ”اے عقلمند! پناہ بھی لی تو انسان کی!“

علامہ اقبال یہ واقعہ سنا رہے تھے اور ان کا چہرہ تمتاتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ ان پر رقت طاری ہوگئی۔ انہوں نے صوفے پر اپنی ٹھوڑی رکھ دی اور زاروقطار رونے لگے۔ ان کی آنکھوں کے آنسو جو ابھی تک چھلک رہے تھے، اب موتیوں کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔ گیانی حکیم نے اس حکیمانہ مثال کو کچھ سمجھا، کچھ نہ سمجھا خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔

YOU MAY ALSO LIKE: