یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں

بارش کی سب سے بڑی خوبی اور خامی یہ ہے کہ یہ ہر چیز کی حقیقت کھول دیتی ہے۔ پشاور میں بارشیں شاذونادر ہی ہوتی ہیں لیکن جب گھٹا ٹوٹ کے برستی ھے تو لگتا ہے کہ جیسے کسی نے میلے بچے کا منہ دھویا ہو۔ اس رات بھی طوفانی بارش اور ہولناک آندھی کا مقابلہ کرتے ہوۓ کئی کمزور درخت تھک کر گِر پڑے تھے اور جدائی کے غم سے نڈھال پتے سڑکوں پر بین کر رہے تھے۔ایسا ہی ایک درخت عرفی چچا بھی تھےجو آندھی کے خوف سے فٹ پاتھ سے جڑی دیوار میں منہ چھپا کر سوۓتو خستہ دیوار کی سخت اینٹیں کسی مجرم کی طرح انکے وجود پر برستی رہیں اور صبح تک جسم کا ہر ایک پرزہ کسی مسلے ہوۓخشک پتے کی طرح بین کر کے خاموش ہو گیا تھا۔ صبح کی روشنی نے رات کی دہشت کو بے نقاب کر دیا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے سرد جھنکے سڑک پر پڑے زرد پتوں کو چھیڑتے تو وہ گھبرا کر دور بھاگ جاتے۔ کہتے ہیں موسم اچھا ہو تو منظر بھی حسین ہو جاتا ہے۔ تبھی تو یونیورسٹی جانے کا وہ رستہ جسے ہسپتال، تھانے، مسجد، لوگوں اور گاڑیوں کے جمِ غفیر نے پُرخطر اور بدصُورت بنا دیا تھاوہ انتہائ نکھرا ہوا خوبصورت دکھائ دے رہا تھا۔ وہ فٹ پاتھ کہ جہاں ٹھیلے والے موسموں کی شدتوں سے بے نیاز لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوششوں میں اپنی فلک گیر آوازوں سے میرے کان چیرتے تھے، آج وہاں بھی ویرانی اور خاموشی تھی۔ اور تو اور، فٹ پاتھ کے آخری کنارے پر مکئی کے دانے بھونتا عرفی چچا کا ٹھیلا بھی ندارد تھا۔ مجھے حیرت ضرور ہوئی اور چار سالوں میں پہلی دفعہ اس جگہ کو خالی دیکھ کر بے چینی کا احساس بھی لیکن کام کی جلدی میں نظر انداز کر گئی۔ اگلے دن دیکھا کہ تقریباََ چودہ سالہ لڑکا عرفی چچا کے ٹھیلے کے پاس دانے بھونتا ہواکوئلوں کو ہاتھ کے پنکھے سے ہوا دے رہا تھا۔ میری فطری رقابت جاگ اٹھی اور سپاٹ لہجے میں استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ کل رات کی بارش میں دیوار گرنے سے عرفی چچا کی موت ہو گئ اور یہ لڑکا انکا پوتا احمد ہے۔ میرے حواس سُن ہو گئے اور دماغ کے پردے پر پچھلے چار سال کسی فلم کی طرح چلنے لگے۔ عرفی چچا کا نرم لہجہ اور میرے دادا سے شباہت مجھے ہمیشہ انکے پاس دو پل ٹھہرنے اور دو چار باتیں کرنے پر مجبور کرتی تھی کہ کسطرح جوان بیٹے کی موت کے بعد اکلوتے بیٹے احمد کی تعلیم و تربیت کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ کسطرح وہ دور دراز گاؤں میں اپنے خاندان کی نجی و معاشی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے لوگوں کی منتیں اور احسانات لیتے تھے، کسطرح انہوں نے احمد کے لاڈ، تعلیم و تربیت کے صدقے اپنی عیدیں، شب برأتیں قربان کر دی تھی اور آج وہی پوتا آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں لیے اپنے گھر والوں کی کفالت کا ذمہ اٹھائے کھڑا ہے اور فکرِ معاش نے اسے دادا کی موت کا غم منانے کا وقت بھی نہیں دیا۔
اُسکی آنکھوں میں قیامت کے سبھی منظر تھے
میں نے فٹ پاتھ پہ روتا ہوا بچہ دیکھا

دُکھ، کرب اور تکلیف سے میری ٹانگیں لڑکھڑانے لگی ااور میں نے درشت لہجے میں پاس کھڑے ٹھیلے والوں کو مخاطب کرکے پوچھا کیوں موسم کی اداؤں پر اپنی جانیں لُٹا رہے ہو؟

فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر سورج کیساتھ لڑنے سے نہ صرف قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہو بلکہ ساتھ میں تھانہ، ہسپتال، مسجد اور درسگاہوں کی طرف جانے والوں کا راستہ بھی کاٹ رہے ہو۔ آج ایک چچا مرے کل اور بھی مر سکتے ہیں۔ خدارا اپنی جانوں پہ جاری یہ ظلم بند کر دو اور معاش کے چکر میں زندگی کا سودا کرنے کی بجاۓ کسی محفوظ ٹھکانے کا بندوبست کرو۔ میرے لفظوں کے تیر انکے زخمی وجود سے ٹکرائے تو یاس و حسرت کا ایک زہریلا مادہ، درد و بیچارگی کی کیفیت لیے یوں گویا ہوا کہ باجی خدا کی قسم! ہمارا بھی بڑا دل کرتا ہے کہ کسی محفوظ چھت کی نیچے لگے نرم و نازک بستر میں کوئی مہربان رات کسی ماں کی طرح ہمارے تھکے وجود کو اپنی گود میں لے لے لیکن کیا کہیں کہ گھر اور ماں دونوں ہی بہت دور ہیں، پاس ہی کے ہسپتال میں سونے کا حق مریضوں کا ہے، تھانہ مجرموں کی جگہ ہے، یونیورسٹی میں علم کے طالب ہیں اور مسجد عابدوں کا گھر، دکانیں تاجروں کی ملکیت اور ہوٹل و ریستوران امیروں کے چونچلے۔ ہمارے لیے تو بس زمین ہی بستر اور آسمان چھت ہے۔ موسم کی شدت میں ان فصیلوں سے بہتر جائے پناہ بھلا کیا ہو گی جو کبھی دیوارِ مہربانی بن کر ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتی ہے اور اگر خستہ ہو جائیں تو ہمیں بے آسرا ہونے سے بچانے کے لیے ہماری سانسیں بھی روک لیتی ہےں۔ کبھی تو ہمارا دِل کرتا ہے کہ کاش ہم کوئی مجرم یا مریض ہی ہوتے تو آس رہتی کہ سر چھپانے کو چھت تو ملے گی۔ آپ قانون کی بات کرتی ہیں تو کاش حکومت ہمیں بھی ان مریضوں، مجرموں، عابدوں اور طالبعلموں کی طرح کوئی قانونی رہائش دیتی تو ہم کبھی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ذلیل و خوار نہ ہو رہے ہوتے۔ لیکن افسوس کہ ہم اسوقت یہی کَہ سکتے ہیں کہ ہر ایک فیصلہ محفوظ کرنے والے بینو! جھکے ترازو شبِ ظالم کی اساس ہوئے۔ وہ کہتے جا رہے تھے اور میری پلکوں کے نرم گوشے آنسوؤں سے بھیگ رہے تھے۔ مجھے وہ شعر یاد آگیا:
کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ پر چلو اتنا
یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں

اور خواب بھی کونسے؟ فقط ایک جائے پناہ اور رہائش کا خواب۔ آہ! غریب لوگوں کے خواب بھی کتنے غریب ہوتے ہیں جنکی تعبیریں ائیرکنڈیشنڈ گھروں اور گاڑیوں میں بیٹھے لوگ بتا ہی نہیں سکتے کہ درد کا احساس بھی تو ہمیشہ چوٹ لگنے والے کو ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہمارا معاشرہ اور حکمران اپنی گاڑیوں کے شیشوں سے روز دیکھتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کبھی کوئی بھٹو، ضیاء اور شریف انکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر خبروں کی زینت بنتا ہے لیکن مقصد زخموں کا مداوا نہیں مقبولیت کا شوق ہوتا ہے۔ یہ حال صرف پشاور کا نہیں پورے پاکستان کا ہے۔ لاہور کراچی ، کوئٹہ، ملتان غرض ہر جگہ آپکو ایسے فٹ پاتھس دھوپ سے لڑتے ٹھیلے والوں سے بھرے نظر آتے ہیں۔ کے پی کے حکومت کمالِ مستعدی سے عوام کے مسائل حل کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔ صحت، تعلیم، تجارت، قانون سب بہتر ہو رہا ہے۔ حالیہ بجٹ نے کافی حد تک عام آدمی کے دکھوں کا مداوا کیا ہے۔ مزدور کو بھی آٹھ گھنٹوں کی محنت پر ۱۴ہزار ماہانہ اُجرت، بچوں کی کفالت اور اولڈ ایج بینیفٹ ملتا ہے۔ اور تو اور خواجہ سراؤں تک کے حقوق محفوظ کر دیے گئے ہیں لیکن ایک طبقہ ہے جو ابھی تک سہولیات و مراعات سے عاری ہے جنہیں اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی معاوضے کے لیے قسمت سے لڑنا پڑتا ہے۔ جو اگر بیمار ہو جائیں تو گھر کاچولھا اور ہر فرد بیمار ہو جاتا ہے۔ جنکے نام پر بنے "Poverty Alleviation Fund" میں سالانہ لاکھوں روپے کا فنڈ انکے کسی کام نہیں آتا اور پھر یہی بے بس لوگ کہ جنہیں معاشرہ اور حکومت نظر انداز کر دیتی ہے جب کل کو غم کی بھٹی میں سلگ جاتے ہیں تو اپنی طاقت سے پورے معا شرے کو سیاہ کر دیتے ہیں جسے دھونے کے لیے بارش کی بجائے خون کی ضرورت ہوتی ہے۔

میری حکومت اور با اختیار طبقے سے گزارش ہے کہ یہ مسٔلہ جو بظاہر معمولی اور غیر اہم لگتاہے در حقیقت بہت بڑا اور اہم ہے جسے پوری حکمتِ عملی کے ساتھ فوری طور ر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام ٹھیلے/ ریڑھیاں لگانے والوں کے لیے سڑکوں کے قریب ترین کوئی جگہ متعین کر کے پناہ گاہیں بنائی جائیں تا کہ وہ سہولت سے اپنا رزق تلاش کر سکیں۔ وارڈز، کوارٹرز یا ہاسٹلز کی طرز پر کوئی عمارت بنائی جائی کہ جہاں یہ بےخوف ہو کر آرام کر سکیں۔ کوئی ایسا ادارہ ہو جو انکا ڈیٹا بیسس بنائے اور مختلف مواقعوں پر انکی ٹریننگ کا اہتمام کرے تا کہ انہیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگی ہو جو انہیں آسان اقساط پر کاروبار شروع کرنے کے لیے پیشگیِ رقم دے تا کہ یہ محنت کی عظمت کے ساتھ روپے پیسے کا سکھ بھی حاصل کر سکیں اور ہو سکے تو باقاعدہ نگرانی کے تحت ماہانہ اُجرت بھی مقرر کی جائے تا کہ اگر خدا نخواستہ کوئی بیمار ہو جائے تو جراثیم اہلِ خانہ تک نہ پہنچیں اور گھر کا چولھا جلتا رہے اور اگر مر جائیں تو باقی مزدوروں اور فیکٹری ورکرز کی طرح انکے بچوں کو بھی وظائف ملیں تا کہ کوئی احمد خاندان کی کفالت کے لیے اپنی تعلیم و مستقبل کی قربانی نہ دے ورنہ یقین مانیں ہر قدرتی آفت اسی طرح کوئی نہ کوئی لاش دبائے روشن صبح تلاش کرتی رہے گی اور ہزاروں احمد اپنی تعلیم و مستقبل کو ٹھیلوں پر بیچتے دکھائی دیں گے۔ اور آخر میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گی شعبہ شماریات کے پروفیسر ڈاکٹر سریر بادشاہ جنہوں نے اپنی سوچ سے میرے الفاظ کو جلا بخشی اور میری توجہ اس ناگزیر مسٔلے کی طرف مبذول کروا کے قیمتی اصلاحات سے نوازا۔
Sidra Subhan
About the Author: Sidra Subhan Read More Articles by Sidra Subhan: 18 Articles with 18796 views *Hafiz-E-Quraan

*Columnist at Daily Mashriq (نگار زیست)

*PhD scholar in Chemistry
School of Chemistry and Chemical Engineering,
Key Laborator
.. View More