غربت نہیں لالچ

میری یہ تحریر ہم سب کی بے حسی کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا محض چند سو روپے کے پٹرول کی لالچ میں اپنی جان گنوا دینا عقلمندی کی نشانی ہے۔

لالچ کا انجام بدتر

پاکستان میں آئے روز حادثے ہوتے رہتے ہیں مگر کسی بھی ذمہ دار کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاتا ہے،ابھی یہی دیکھ لیں کہ بہاولپورمیں احمد پورشرقیہ کے قریب آئل ٹینکرموڑکاٹتے ہوئے الٹ گیا، جس کے بعد متعدد لوگ آئل ٹینکر سے پیٹرول اکٹھا کرنے کے لیے جمع ہوگئے تاہم اسی دوران آئل ٹینکرمیں دھماکہ ہوا، جس کے بعد وہاں موجود متعدد لوگوں بری طرح جھلس گئے۔اب حکومت کے پاس اگر اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ طبی امداد قریب ترین ہسپتالوں میں دی جا سکے تو بتائیں آخری ہمارے حکمران کہاں قوم کا پیسہ خرچ کر رہےہیں۔جب عوام کو ہی فائدہ نہ ہو اور محض چند ہزار یا لاکھوں افراد کی خاطر سڑکیں تعمیر کر ا دی جائیں یا میٹرو سروس شروع کر دی جائے تو یہ کسی بھی طور اچھی طرز حکمرانی نہیں بے۔

دوسری طرف ستم ظریفی یہ دیکھیں کہ اگر عوام کو سہولیات اور وافر مقدار میں اتنے وسائل دیئے جاتے کہ وہ اپنی زندگی خوشحالی سے جی سکتی تو وہ اس پیٹرول کو جس کی وجہ سے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کو کبھی مفت کا مال سمجھ کر لوٹنے کے چکروں میں حادثے کا شکار نہ ہوتے،یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ حادثات ہوتے رہتے ہیں مگر ہم اُن سے سبق نہیں حاصل کرتے ہیں،اس حوالے سے عوام میں شعور بیداری کی فہم چلائی جانی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات میں جان کی حفاظت کی جائے تاکہ یوں سانحے رونما نہ ہو سکیں۔

بچوں کو تو سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے مگر جہاں غربت کا شکار والدین ہی بچوں کے ہمراہ لالچ میں پٹرول جمع کرنے لگ جائیں تو پھر ایسے مناظر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہم سب کو اس حوالے سے خصوصی طور پر اسکولوں میں تعلیم دینی چاہیے تاکہ کل کو ایسے مناظر پھر دیکھنے کو نہ ملیں۔

من حیث القوم ہم سب ہی کسی نہ کسی طرح سے معاشرے کی بدحالی کے ذمہ دار ہیں،اگر ہم اپنے ووٹ اچھے اور ایماندار افراد کو دے رہے ہوتے تو ہمارے حالات سدھر سکتے تھے،مگر جہاں لوگوں کو پیسہ دے کر ووٹ لیا جاتا ہو،نوکریاں فراہم کی جاتی ہو،بدمعاشی کے زور پر ناجائز کام کروائے جاتے ہوں،وہاں غربت مٹانے کا کوئی نہیں سوچتا ہے،جہاں دو وقت کی روٹی کےلئے پٹرول مفت کا مال سمجھ کر لوٹنے والے ایسے اقدامات کریں تو انکی جاہلیت کا ماتم کرنے سے زیادہ ایسے حکمرانوں کی بے حسی اورعدم توجہی پر شورمچانا چاہیے جس کی وجہ سے ایسے حادثات رونما ہو رہے ہیں۔

جہاں سفارشی افراد کو بھرتی کر دیا گیا ہو،جہاں بھرپور وسائل کو یہاں وہاں ضائع کر کے کاغذات سے فائل کا پیٹ بھر دیا جاتا ہو،تب نا اہل افراد کی اہلیت ظاہر ہو جاتی ہے۔چونکہ میں اس علاقے سے بخوبی واقف ہوں تو وہاں اداروں کے پاس وسائل اور افرادی قوت ہی نہیں تھی کہ وہ لوگوں کو روک سکتے،محض چند افراد ہزاروں کو سنبھال نہیں سکتے ہیں، ایسا ہوتا تو فوری ردعمل کے طور پر علاقے کو گھیرے میں لیا جاتا اور نقصان سے بچنے کی تدابیر کی جاتی،کئی افراد کی کامیاب مہم جوئی کے بعد ہی مزید افراد حصہ لینے گئے ہونگے تب ہی ایسا واقعہ رونما ہوا،سوچنے کی بات ہے کہ پولیس سے بھی عوام نہیں رکی،یہ ایک اہم نقطہ ہے کہ ہمارے ادارے سفارشی لوگوں کی وجہ سے تباہی کی جانب گامزن ہیں۔

کنوئیں میں چھلانگ لگانے والا اپنے نقصان کو ذمہ دار خود ہے، اللہ نے انسان کو عقل استعمال کرنے کے لئے دی ہوئی ہے مگر لالچ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے کہ سمجھو کہ کنوئیں سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی نکل آئے گا۔آج ایک ڈاکٹر بننے کا شوق رکھتا ہے تو دوسرا بھی اسی کی آرزو کرتا ہے اپنی صلاحیتوں اوررجحان کو جانچتا نہیں ہے،جب کچھ حاصل نہ ہو تو دوسری طرف جاتا ہے، یہی حال سب جگہوں پر ہو رہا ہے کہ ہم کرتے پہلے ہیں سوچتے بعد میں ہیں کہ کیا ہو گیا تھا کہ ایسا کرلیا ہے؟؟ اس حادثے کے حوالے سے طرح طرح کی باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ لوگوں کو بچانے کے لئے جانے والے بھی ہلاک ہوئے ہیں، اس کے ذمہ دار کون ہیں اس پر مذکورہ بالا بات کے علاوہ اوراب کیا کہا جا سکتا ہے کہ ہم خود ہی ذمہ دار ہیں کہ غلطی کرلی جو آگ کے پاس گئے اور اپنا نقصان کرالیا۔

افراد کی تربیت ہی ایسی کرنی چاہیے کہ وہ آگ کی طرف جائیں ہی نا تاکہ نقصان نہ ہو،مگر انسانیت کا تقاضا ہے کہ انسانی جان بچائی جائے مگر اندھے بن کر اور یہ سوچے بنا کہ یوں ہمیں بھی نقصان ہو سکتا ہے کوشش کرنا جاہلیت ہی ہے کہ آپ آگ پر پائوں رکھ کر سوچیں کہ آپ بچ سکتے ہیں، تمام دنیا میں ایسے کاموں کےلئے بھی حفاظتی تدابیر کی جاتی ہں،مگر یہاں تو پڑھے لکھے افراد بھی مال غینمت میں شامل ہوئے اپنی گاڑیوں کے لئے پٹرول جمع کرنے والوں کے بارے میں کیا کہیں کہ ہم لالچی قوم ہیں ،ہماری دینی تعلیمات کیا یہی درس دیتی ہیں کہ یوں چوری کریں۔یہ واقعہ بہت کچھ سمجھا رہا ہے،تب ہی ہم سب کو اس حوالے سے شعور بیداری کی مہم چلانی چاہیے تاکہ ہر حوالےسے کام ہو سکے۔

یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ جہاں بھی کوئی فائدہ ملنے کی امید رکھتا ہے وہاں جاتا ہے،یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا کم لوگ ہی سوچتے ہیں،جو ایسا سوچتے ہیں وہ نقصان سے بچ جاتے ہیں،اپنوں کی پروا کرنی چاہیے مگر اس کے لئے پھر کہوں گا کہ موقع محل بھی دیکھنا چاہیے، جہاں ایک فرد کی قربانی بچ سکتی ہو تو بچانی چاہیے یہ نہیں کہ سب تو ڈوبے ہیں وہ ایک بھی ڈوب جائے یہ عقلمندی نہیں کہی جا سکتی ہے،وہاں جو بھی ہوا فطری لالچ کا تقآضا اپنی جگہ تھا مگر وہی اپنے جو خود چوری کے لئے بچے تک ساتھ لے گئے،ان کو سوچنا چاہیے تھا کہ نقصان بھی ہو سکتا ہے مگر یہ سب تعلیم کی کمی اور غربت کی وجہ سے بھی ہے اور لالچ میں مبتلا ہونا بھی ایک وجہ ہے،جب عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے تو ہر نقصان کی پروا کیے بنا کچھ کام کئے جاتے ہیں یہاں بھی ایسے ہوا اپنے پیاروں کو ساتھ لوٹ مار کے لئے لے گئے اور پھر انہی کی جان بچانے میں کچھ جان سے گئے۔

عوام کو سمجھانے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے اور عوام کو نقصان سے بچانے کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر ہے کہ وہ ایسے واقعات میں انکے تحفظ کے لئے خاطر خواہ اقدامات کریں۔عوام کی شعور بیداری کی مہم بھی کسی حد تک حکومت پر ہے تاکہ وسیع پیمانے پر اقدامات کئے جا سکیں۔ایسے واقعات تب ہی دوبارہ نہیں ہونگے جب ہم ان سے سیکھ لیں گے کہ پھر سے وہی غلطیاں نہیں کرنی ہیں۔
 
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 479593 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More