خوش ہوں میں بہت مگر ۔۔۔

ICCچیمپئن ٹیم کی واپسی پر عصمت صدیقی کے تاثرات

دیکھو ،ابھی چند دن پہلے برطانیہ میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی چل رہی تھی اور دنیائے کرکٹ کے سبھی ہر اک میچ کو پورے جوش و خروش کے ساتھ دیکھ رہے تھے ، ٹورنامنٹ میں شامل ٹیموں کی عوام میں ہر ملک کے عوام کی یہ شدید خواہش تھی کہ ان کا ملک اس ٹرافی کو جیت جائے اور اس طرح سے ان کی واپسی اپنے وطن میں ہو کہ ان ہاتھوں میں ٹرافی اور گلوں میں میڈل ہوں ۔ ان کے ہم وطن ان کا ائرپورٹ پر استقبال کریں اور انہیں جلوس کی صورت میں انکے گھروں تک پہنچائیں ۔ خود کو عالمی کرکٹ کا ٹھیکیدار سمجھنے والا بھارت یہ سمجھ رہا تھا کہ یہ ٹورنامنٹ وہ اسی انداز میں جیت جائیگا جس انداز میں وہ اپنے ملک کے اندر کرکٹ کے میدان سجا کر دیگر ملکوں کے کھلاڑیوں کو ان میں شامل کروا کر مقابلے منعقد کراتا ہے اور ہر میچ میں رنگ برنگ جشن دیکھا کر خود ہی اسے جیت جاتا ہے۔

دیکھو ، وہ ٹرافی کا سلسلہ ختم ہوا اور پاکستان کی ٹیم وہ ٹرافی جیت کر چیمپئن ٹرافی کی چیمپئن ٹیم بن گئی ۔ اﷲ کے فضل کرم سے اور صرف اسی ہی کی رضا کے باعث اس کی برکتوں اور رحمتوں کی وجہ سے ہماری ٹیم جیت تو گئی ، اس جیت کی خوشی میں ٹیم نے میدان میں سجدہ شکر ادا کیا اور اور پاکستان زندہ باد کے نعرے میدان اوویل میں ہی نہیں پورے پاکستان میں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر پوری دنیا کے 100سے زائد ملکوں میں لگائے گئے ۔ سب نے اور سبھی نے اپنے اپنے انداز میں جیت کو پرجوش طریقے سے منایا اور تاحال منایا جارہا ہے ۔ صدر و زیر اعظم ، چیف جسٹس ، سپہ سالار افواج ، سابق کپتان کہ جس نے آج سے 25برس قبل پاکستان کو عالمی کرکٹ کپ جتوایا تھا وہ عمران خان اور ان سمیت سارے کے سارے سیاستدان قومی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہیں اور اپنی جانب سے انعام و اکرام سے نوازنے کا اعلان بھی کرتے ہیں ۔ کوئی انہیں عمرہ کرانے کا اعلان کرتا ہے تو کوئی ان کے گھروں پر جاکر ان کے والدین کو مبارکباد دیتا ہے ۔ غرض سبھی اپنے اپنے انداز میں اپنی اپنائیت کا اظہار کرتے چلے جاتے ہیں ۔

دیکھو ، پھر وہ وقت بھی آتا ہے کہ جب یہ سب کھلاڑی وطن واپس آتے ہیں کوئی پشاور میں اترتا ہے تو کوئی راولپنڈی ،اسلام آباد میں اور کوئی شہر قائد کراچی میں ، جو جہاں بھی اتراہے اس روز وہاں اس ائرپورٹ پر اک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائیگا ۔ کھلاڑیوں پر پھولوں کی بارش کر دی جاتی ہے اور ائرپورٹ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے حتی کے شہر قائد میں کپتان خود پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا چلا جاتا ہے ۔ بس کیا کہوں کیا بتاؤں کہ میں بتاتے بتاتے تھک جاؤنگی مگر کامیابی کی یہ داستان ختم ہوکر نہیں دیگی ۔

دیکھو ، ہم جیت گئے ایک طویل عرصے کے بعد پوری قوم کو اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو خوشی کے چند لمحے اﷲ نے عطا کئے اس پر تو میں اﷲ کا شکر ادا کرنا بھی چاہوں تو نہیں کر سکتی لیکن میں پھر بھی یہی کہونگی کہ یا اﷲ تیرا شکر ہے اور بس تیرا ہی شکر ہے ۔ تو نے ہی اس کرکٹ ٹیم کو یہ ٹرافی جیتوائی بس یہ تیری ہی رحمتیں اور برکتیں ہیں ۔ ائے اﷲ ، بس اس جیت پر ہی نہیں میں تو تیرا ہر حال میں شکر اداکرتی ہوں اور کرتی رہی رہونگی اور دعائیں بھی تجھے سے کرتی رہی ہونگی۔ ائے اﷲ ، میں تجھ سے دنیا میں مظلوم مسلمانوں کی مظالم سے نجات کی دعا ئیں کرتی ہوں ، میں تجھ سے کشمیر کے مسلمانوں ، افغانستان، شام ، مصر ، عراق سمیت جہاں کہیں بھی مسلمان پریشان حال ہیں میں تجھ سے ان کی مدد کی دعائیں کرتی ہوں اور کرتی رہونگی ۔ 50سے زائد اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو ان کا کردار ادا کرنے کی دعائیں بھی میں تجھ سے کرتی ہوں ۔ ان میں ملکوں میں میرا پاکستان بھی ہے جو اس وقت ایک ایٹمی قوت ہے اور جو صرف تیرے نام پر تیرے دین کے نام پر قائم ہوا ، میں تجھ سے اﷲ اس ملک کے حکمرانوں کو ہوش میں آنے کی دعائیں کرتی ہوں ۔ انہیں ان کے کئے گئے وعدے یاد آجائیں اور ان کو پورا کرنے کی جانب وہ آگے بڑھ جائیں اور میری بیٹی ، اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو برسوں سے امریکی قید میں ہے اسی کو جلد رہائی مل جائے یہ دعائیں کرتی ہوں ، اس بیٹی کی رہائی کے لئے اس نواز شریف نے اور اس صدر نے جو وعدے کئے تھے ان کے پورا ہونے کی تجھ سے دعائیں کرتی ہوں ۔

دیکھو ، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بات جب چل پڑتی ہے تو پھر بڑھتی چلی جاتی ہے اور اب جب کہ میں نے آج پاکستان کے آئی سی سی چیمپئن ٹرافی جیتنے پر اتنی ساری باتیں کردیں اور میں نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کردیا تو اب یہ ضروری ہے کہ اس موقع پر میں اس جیت کی خوشی کے موقع پر اور بھی قابل توجہ باتیں کروں ہی نہیں بلکہ یاد دلاؤں ۔

دیکھو ، میں آج یاد دلانی چاہتی ہوں اقوام متحدہ کو کہ اس نے آج تلک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کیا ، گذشتہ صدی سے کشمیری مظلوم ہیں اور بھارتی 7لاکھ سے زائد فوجی ان پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دئے ۔ نہ صرف اقوام متحدہ کو بلکہ اسلامی ممالک کی تنظیم جو ہر وقت سوئی ہوئی ہوتی ہے جس کا نام بھی مسلم ممالک کے عوام کو یاد نہیں ہوگا ، اس او آئی سی کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلانا چاہتی ہوں ۔ وہ اٹھے اور خواب غفلت سے بیدار ہوکر مسلم ممالک کے ساتھ ہونے والے مظالم پر ان کا ساتھ دے ، وہ ایسا کریں گے تو دیگر حکمرانوں کو بھی پتہ چلے گا کہ وہ جو کر رہے ہیں غلط کررہے ہیں ۔ او آئی سی جاگے گی تو میں سمجھتی ہوں کہ شاید اس طرح سے قوم کی بیٹی کا مسئلہ حل ہونے میں کچھ معاونت مل پائے گی۔ اور یہی نہیں کشمیر ، فلسطین ، عراق ، افغانستان سمیت جہاں بھی مسلم ممالک میں مسائل ہیں انہیں حل کرنے میں ہی نہیں بالکل ختم کرنے میں مدد ملے گی ۔

دیکھو ، تم نے اس سال مارچ میں متعدد تحریریں لکھیں اور ازخود یہ طے کیا تھا کہ چونکہ مارچ قوم کی بیٹی کی پیدائش کا مہینہ ہے لہذا کوشش کی جائے کہ قوم کی بیٹی اس سال اسی مارچ میں اپنی سالگرہ کا کیک اپنے وطن ، اپنے گھر میں اپنے والدہ اور اپنے بچوں کے ساتھ کاٹے۔ تم نے کوشش کی اﷲ دیکھ رہا ہے اور انسان کا کام کوشش ہی کرنا ہے ۔ کوشش تو لکی مروت کے ان چند نوجوانوں نے بھی اسی ماہ میں بہت کی ۔ انہوں نے لکی مروت سے پشاور تک پیدل سفر کیا اور پھر وہاں پر اپنے سفر کو ختم نہیں کیا بلکہ اعلان کیا وہ قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے اب اسلام آباد تک جائیں گے ۔ وہ سینکڑوں میلوں کا سفرپیدل کر کے صرف قوم کی بیٹی کو رہا کرانا چاہتے تھے ۔ یہ بھی اﷲ نے دیکھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی کاوشیں ہی ایک روز ضرور کامیاب ہونگی ، میری نہیں میری ہی نہیں بلکہ اس پوری قوم کی اور اس امت کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی اک روز ضرور باعزت رہائی پاکر واپس آئیں گی ۔ ان شاء اﷲ
 
دیکھو ، اور دیکھنا پھر اس روز شہر قائد کی 2کڑور سے زائد عوام اور پوری پاکستانی قوم اس کا استقبال کیسے کریگی ؟ اسے دیکھنے کیلئے اس کی ہمت کو سلام کرنے کیلئے عوام کس طرح اپنے جذبات کا اظہار کریں گے ۔ مجھے یقین ہے وہ دن بھی آئیگا اور جلد آئیگا ۔ عافیہ آئیگی اور ضرور آئیگی ۔نظریں اس لمحے آسمان کی جانب اور آنکھیں نمی سے تر تھیں اس قوم کی بیٹی کی ماں عصمت صدیقی صاحبہ کی اور میں کچھ کہنے کا متحمل نہیں ہوپارہا تھا ۔ یہ ماں ، عظیم ماں ، عظیم بیٹی کی عظیم ترین ماں جو اپنے بڑھاپے میں اک آس لئے ایک تمنا اجاگر کئے ہر روز دروازے کو دیکھتی ہیں ۔ ہر روز اخبار کو پڑھتی اور ٹی وی چینل کودیکھتی ہیں ۔ ہر روز عافیہ موومنٹ کے سرگرم کارکنوں کا حوصلہ بڑھاتی ہیں ۔ انہیں یہ ماں مایوس نہیں ہونے دیتی اور یہی نہیں وہ تو اپنی بیٹی ڈاکٹر فوزیہ صدیقی تک کو عزائم بلند رکھنے کی تلقین کرتی ہیں ، وہ جنہوں نے اپنی زندگی اس مقصد کیلئے مختص کردی ہے کہ وہ قوم کی بیٹی کو باعزت انداز میں رہائی دلوائیں گی ۔ ان کے بچے اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچے احمد و مریم بھی روز انہیں دیکھتے ہیں اور نئی لگن کے ساتھ زندگی کے شب و روز گذارتے ہیں ۔ انہیں بھی اس بات کا یقین ہے کہ وہ وقت آئیگا کہ جب قوم کی بیٹی باعزت انداز میں آئیگی اور پوری قوم ان کا اس انداز میں استقبال کریگی جس طرح انہوں نے حالیہ کرکٹ ٹرافی جیت کر واپس آنے والی ٹیم کا کیا ۔ جہاں نعرہ صرف ایک تھا اور وہ نعرہ تھا پاکستان زندہ باد کا ۔ لہذا جب عافیہ واپس آئیگی تو اس رو ز بھی یہی نعرہ لگے گا پاکستان زندہ باد ۔

دیکھیں ، نانی اماں ، آپ ہم سے زیادہ جانتی ہیں اور ہم سے زیادہ آپ کا ایمان ہے ۔ خاصی دیر کی خاموشی کے بعد میں عصمت صدیقی صاحبہ سے مخاطب ہوا تو انہوں نے میری جانب نم آنکھوں سے دیکھا ۔ میں فورَا گویا ۔ نانی اماں اﷲ ہے نا اور جس طرح اﷲ نے اس کرکٹ ٹیم کو یہ ٹورنامنٹ جیتوایا اسی طرح مجھے بھی اس بات کا یقین ہے کہ بہت جلد وہی اﷲ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو باعزت رہائی دلوائیگا ۔ ان شاء اﷲ ۔ آپ یقین رکھیں اور اپنی امیدوں کے چراغ کوذرا بھی کم نہ ہونے دیں ۔ آپ تو ہماری ہمت بندھاتی ہیں ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہیں لہذا آج میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ جس طرح آپ میرے سامنے بیٹھی ہیں اس بات کا مجھے یقین ہے کہ یہ آپ ہی ہیں جو کچھ دیر قبل ڈھیر ساری باتیں کر رہی تھیں ، بالکل مجھے اس بات کا یونہی یقین ہے کہ آپ کی اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی وطن واپس آئینگی اور بہت جلد آئینگی۔

دیکھیں ، نانی اماں کشمیریوں کی آپ نے بات کی ، آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حافظ سعید وہ رہنما ہیں کہ جنہوں نے اس سال کے آغاز پر یہ کہا تھا کہ یہ سال کشمیریوں کاسال ہے یعنی اس سال کشمیریوں کو آزادی مل جائیگی۔ انہوں نے تو کشمیری قوم کی ہمت کو بڑھانے کیلئے یہ باتیں کی تھیں ، بھارت کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنے والے مجاہدین کی ہمت و حوصلے کو بڑھانے کیلئے یہ بات کی تھی لیکن ہماری حکومت نے انہیں پابند سلاسل کر دیا ، آج انہیں اپنے ہی گھر میں قید ہوئے چار ماہ سے زیاد ہ کی مدت ہوچکی ہے لیکن آپ دیکھیں کہ نہ تو ان کی ہمت کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی مجاہدین کی ، اب تو حالت یہ ہے کہ کشمیر کی مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں تک میدان عمل میں آگئیں ہیں ۔ سبھی کی بس ایک جدوجہد ہے اور وہ بھارت سے آزادی کی جدوجہد ہے ۔ پاکستان کے ٹرافی جیتنے کی خوشی میں جس طرح پاکستان میں خوشی کا مظا ہرہ کیا گیا عین اسی طرح وہاں بھی چراغاں کئے گئے ، نعرے لگائے گئے ۔جتنی خوشی آپ کو ہوئی اسی طرح کوشی انہیں بھی ہوئی ۔ لہذا آپ یقین رکھیں کہ بہت جلد وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ جب یہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا اور پوری قوم اس خوشی میں اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرے گی جس طرح حالیہ ٹرافی جیتنے کی خوشی میں کئے گئے ۔ وہ مسکرائیں اور ایک بار پھر آسمان کی جانب دیکھا دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا ئیں کرنے لگیں ، کشمیر کیلئے ، قوم کی بیٹی کیلئے اور پاکستان کیلئے ۔۔۔۔۔

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 162723 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More