غریب کی عزت نفس اور ’’فوٹو سیشن‘‘

ماہ رمضان میں رفاعی اداروں اور مخیر حضرات کی طرف سے غریب ،نادار و مستحق خواتین و حضرات میں ’’رمضان پیکج‘‘ کے نام سے اشیائے ضروریہ کی تقسیم کا سلسلہ عروج پر پہنچ جاتا ہے ،کچھ لوگ زکوۃٰ کی مد میں لوگوں کی امداد کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی نیک کمائی سے پس انداز کرکے لوگوں کی خدمت کا یہ سلسلہ صرف اور صرف اﷲ کی رضا کے لیے شروع کر رکھا ہے ۔بعض لوگ رمضان کے علاوہ بھی سارا سال غریبوں کی امداد کرتے رہتے ہیں لیکن ’’فوٹو سیشن ‘‘کے بغیر نیکی کا تصور انہیں چین نہیں لینے دیتا ۔ بیشک! اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی عنایات میں سے غریبوں کی مددایک بہت بڑی نیکی ہے ،بعض مقامات پر سحر و افطار کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے ۔دستر خوان سجائے جاتے ہیں اور مخیّر حضرات اور رفاعی اداروں کے بڑے بڑے بینر آویزاں کرکے اپنی انّا کی تسکین کی جاتی ہے ۔ اس عمل کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداران ، رفاعی تنظیموں سے وابستہ افراد اورتاجروں کے نمائندے بھی اس نیکی کی تشہیر کو ’’خدمت انسانیہ‘‘ کا اہم جزو تصور کرتے ہیں اور لوگوں کو امداد دیتے وقت باقاعدہ ’’فوٹو سیشن ‘‘ کروایا جاتا ہے اور اس کی تشہیر کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں ۔میڈیا کو ان خدمات کا بھاری عوضانہ بھی الگ سے ادا کیا جاتا ہے ۔ امداد لینے والے مستحقین خصوصاً خواتین کو آٹا وغیر ہ دیتے ہوئے تصاویر بناناایک رواج بن چکا ہے، ان تصاویر کی اشاعت سے ان غریبوں کی کس قدر عزت نفس مجروح ہوتی ہے اس کا ادراک کوئی نہیں کرتا ۔انسان کا یہ عمل سراسر خسارے کاسودا ہے کیونکہ ایسی نیکی اﷲ کے دربار میں قبولیت نہیں پا سکتی۔

اسلام نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ’’ غریب انسان کی مدد اس طرح سے کی جائے کہ اگر دائیں ہاتھ سے مدد کی جائے توبائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے‘‘ لیکن یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف صاحب ہوں یا کوئی صوبائی وزیر ، کوئی انتظامی آفیسر ہو یا رکن قومی و صوبائی اسمبلی ہی کیوں نہ ہو ، بڑے ہی اہتمام سے رمضان پیکج کے ایک’’ آٹے کے تھیلے‘‘ کی امداد دینے کی بھی تصویر بنوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اوربعدازاں ذاتی نمود و نمائش کے لیے اُسے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع کرایاجاتا ہے ۔’’ امدادی پیکجز ‘‘کی تقسیم کے حوالے سے’’ فوٹو سیشن‘‘ کروانے والے اپنے اس فعل کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ہمارا مقصد لوگوں میں خدمت انسانیہ بارے شعور بیدار کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ۔ایک سیاسی لیڈر کی طرف سے امداد کی تشہیر کا مقصد اپنے ووٹر کو یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ وہ کس قدر غریب پرور ،ہمدرد اور انسان دوست شخصیت کا مالک ہے ،چاہئے موصوف کا پڑوسی اور اُس کے بچے گذشتہ کئی روز سے بھوکے ہی کیوں نہ سو رہے ہوں ۔جبکہ ان خدائی خدمت گاروں کو اپنے پڑوسی کی خبر گیری کی توفیق نہیں ہوتی۔ المیہ یہ ہے کہ اکیسوی صدی کے یہ ’’ حاتم طائی‘‘ امداد پر خرچ کی جانے والی رقم سے زیادہ اُس کی میڈیا کے ذریعے تشہہیر پر پیسے لٹا دیتے ہیں کیونکہ ان خدمت گاروں کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں اُس کا مخالف اپنے اثر و رسوخ یا پیسے کی بدولت اُس سے زیادہ کوریج حاصل نہ کر لے ۔

موجودہ نفسانفسی کے اس دور میں قیامت کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ ہم نیکی کر دریا میں ڈال۔۔۔ کی بجائے’’ نیکی کر میڈیا پر بتا ‘‘کے اصول پر گامزن ہیں ۔جبکہ اپنی جگہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایسے لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے کہ جو غریب و مستحق لوگوں کی سالانہ کروڑوں روپے کی امداد کرتے ہیں ، غریب گھرانوں کی بچیوں کی شادی ، مستحق بچوں کی تعلیم اورصحت عامہ سمیت اور بہت سے کاموں میں دامے ، درمے ، سخنے حصہ لیتے ہیں ۔ بیواؤں پر دست شفقت رکھتے ہیں ، غریب بچوں کی کفالت کرتے ہیں ، لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے ۔واقعی ایسے لوگ پرستش کے قابل ہیں کہ جن کی درپردہ امداد سے لوگوں کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں ، غریب بچیوں کے ہاتھ پیلے ہوتے ہیں ، اور شاہد انہی نیک لوگوں کے اعمال ِ صالحہ کے صدقے اﷲ رب العزت اپنے دیگر بہت سے بندوں پر رحمتوں کے سائے قائم رکھتا ہے ۔ نیکی تو بہر حال نیکی ہی ہے ،اس کا اجر تو صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہی دے سکتی ہے ۔ انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتا ۔لیکن ہماری ان نمائشی و دنیا دار خدمت گاروں سے دست بستہ گذارش ہے کہ وہ خدمت انسانیہ کے سلسلے میں امدادی کاموں کی ’’فوٹو سیشن‘‘کے ذریعے پرنٹ و الیکٹرانک پر تشہیر سے اجتناب برتیں ۔اس حوالے سے حکومتی عہدیداران کو پہل کرنا ہو گی ،انہیں عہد کرنا ہوگا کہ وہ ہر سال اپنے رمضان پیکج کے آغاز میں آٹا ، گھی ، چینی یا دیگر اشیائے ضروریہ کی تقسیم کے وقت کسی قسم کا ’’فوٹو سیشن ‘‘نہیں کرائیں گے ۔ میڈیا سے وابستہ افراد سے بھی ہماری گذارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں ایک پالیسی بنائیں کہ غریبوں کی امداد کے حوالے سے کسی قسم کی فوٹوشائع نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس حوالے سے تصویری خبرنامہ میڈیا پر چلایا جائے گا تویقیناً یہ اُن کی ایک بہت بڑی نیکی ہو گی ۔خدمت انسانیہ کے نام پر ’’رمضان پیکج ‘‘ کی تقسیم فی زمانہ ایک کاروبار بن چکا ہے ،جو مسلسل وسعت پا رہا ہے ۔بعض رفاعی ادارے امداد کی آڑ میں اس دھندے میں لوگوں سے ہی لیے گئے ہزاروں روپے خرچ کرکے لاکھوں کما رہے ہیں ۔اس سارے کام میں غریب کی عزت نفس بُری طرح مجروح ہو رہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اﷲ کے دربار میں اپنی نیکی کو مقبول بنانے کے لیے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہی حاصل کی جائے اور اُن پر عمل کیا جائے ،ورنہ دلوں کے بھیدتو ربّ کائنات اچھی طرح جانتا ہے کہ کون ربّ کی رضا کے لیے اپنی دولت غریبوں پر نچھاور کر رہا ہے اور کون دنیا کو دکھانے کے لیے اپنے گھر یا دکان کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگا کر امداد بانٹ رہا ہے ۔ نیکی وہی ہے جو رب کائنات کے دربار میں مقبول و منظور ہو ،اس کے لیے ہمیں خود کو تبدیل کرنا ہو گا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 115381 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.