لوڈشیڈنگ ،روزہ اور عبادت

بیس رمضان المبارک کی صبح سے ھی گھر میں گہما گہمی کا سماں بچوں نے باندھا ھوا تھا ..کیوں کہ میری بڑی بیٹی نے اعتکاف میں بیٹھنے کا مصمم ارادہ کیا ھوا تھا.....اور یہ گہما گہمی اسی سلسلے کی کڑی تھی.....جس کمرے میں اس نے معتکف ھونا تھا اسکی صفائی ستھرائی اور سیٹنگ کی تبدیلی میں ھی بچوں کو کتنا وقت لگ گیا.... بچے ایک سرشاری کے عالم میں کام کرتے رہے اور خوش ھوتے رھے....آخر عصر کی نماز کے بعد اعتکاف میں بیٹھنے کا وقت آن پہنچا...بڑوں سے دعائیں لے کر وہ اعتکاف میں بیٹھ گئی....مگر تھوڑی ھی گزری گذری تھی کہ واپڈا والوں کی مہربانیاں بام ِ عروج پر پہنچ گئیں......غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ تو پاکستان کا مقدر ھی ٹھہری...اور جس علاقے میں ھم جیسے عام لوگ رہتے ھیں وھاں تو یہ سلسلہ اٹھارہ گھنٹے پر محیط ھے..

مگر عوام کی شرافت اور سادگی یا پھر بے حسی کہہ لیں کوئی احتجاج تک کرنا پسند نہیں کرتا .اور اب تو معاملہ ھی دوسرا تھا....جی ھاں ٹرانسفارمر کی خرابی...یہ ایک ایسا گمبھیر مسئلہ ھے جسکے سدِ باب کے لئے اھلِ علاقہ کو اپنی جیب کو ھر بار زحمت دینا پڑتی ھے....تب بھی تین چار دن تک بجلی کی بحالی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی...پانچ سو ھزار روپے کی قربانی ھر غریب شخص بحالت ِ مجبوری دیتا ھے مگر پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ آیا ٹرانسفارمر صاحبکے مزاج درست رہیں گے بھی یا نہیں.....ھر بار بیس پچیس ھزار کا چندہ اکھٹا کرنا اہل ِ محلہ کے لئیویسے ھی وبال جان ہوتا ھے...کیوں کہ عوام اپنے اخراجات پورے کریں یا واپڈہ کی بھتہ خوری کو بھگتے حکومت کی ذمہ داریاں بھی بے چاری عوام کو اپنی جیب سے پوری کرنی پڑتی ھے.مگر حکومت جی بے حسی کا یہ عالم ھے کہ بجلی چوری کرنے کی روک تھام کی بجائے عوام کو مہنگی بجلی...بھاری بھرکم بلوں کی ادائیگی کے بعد ٹرانسفارمر کی درستگی کی مد میں بھی خود ھی اپنیجیب سے پیسے ادا کرنے پڑتے ھیں .....وہ پوری رات جس عزاب اور تکلیف میں ھم نے گزاری سو گزاری زیادہ دکھ بچی اور بچی کی طرح بہت ساری خواتین کا سوچ سوچ کر ہوتا رھا جو اعتکاف کے اجر و ثواب کے لیے گرمی کی مشقت برداشت کرنے پر مجبور تھیں....سحری کیوقت ٹارچ کے سہارے سحری تیار کی مگر کھائی نہیں گئی.بجلی کی بحالی کے لیے دعائیں اور نوافل.بھی ادا کییمگر اس نے نہیں آنا تھا نہ آئی.....دوسرا دن بھی جیسے تیسے گزرا رات اور گرمی کا عفریت پھر سر پر سوار ....اندھیرا ...شدید گرمی...پانی کی ٹنکی کا خالی ہونا ..برتنوں کا ڈھیر ....ایک گھمسان کارن پڑا ھواتھا گھر میں ..اوپر سے معتکف کی تکلیف دل کو بے چین کرنے کازریعہ بنی.....اذیت سے بھر پور راتوں کا اجر تو شاید ھم روزے داروں کو اﷲ کے ہاں مل جائے.مگر ھماری بے حس حکومت کو ایسی کسی بھی صورت حآل کا اندازی بھی نہی...اسوقت یہ سب لکھتے ہوے میرے پسینے کے قطرے جس تیزی سے میرے ان صفحات کو گیلا کر رھیں ھیں اگر حکمرانوں کا ایک دو قطرے بھی پسینہ بہے تو شائد وہ عوام کی تکلیف کو سمجھ سکیں....مگر ان کا پسینہ کیوں بہے گا ...اے سی گاڑیوں ..اے .سی کمروں میں رھنے والوں کو کیا پتا کہ غریب کس طرح اپنا خون پسینہ بہاتا ھے....حکمرانوں کو سہولیات فراھم کرنے کا زریعہ بھی عوام کی مین پاور ھی ھوتی ھے وی خود تو اپنے پر تعیش گھروں میں جو گھر سے زیادہ محلات ھیں...میں ھر طرح کی آرام دہ سہولتوں کا استعمال نہایت بے دردی سے کرتے ھیں اور عوام بے چارے بجلی پانی جیسی بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی آپس میں گتھم گتھا ہوتے نظر آتے ھیں آئے دن شہروں میں بد امنی کی وجہ یہی مسائل ھیں مگر سوچنے کی بات یہ ھے کے ہمارے حکمرانوں نے اپنے کان لپیٹ رکھے ھیں ...بس اپنا الو سیدھا کرنے کے لییعوام کو بے وقوف بنانے کے لیے خالی خولی دعوے اور نعرے ھی ہوتے انکے پاس........رمضان کی صبح دس بجے تک بھی ٹرانسفارمر کے ٹھیک ھونے کی کوئی امید نظر نہی آرھی....کیا واپڈہ کو یا حکمرانوں کے سینوں میں دل نہی ھے یا پھر وہ مسلمان نہی ھیں....جو ان سب مسائل کو حلکرنت کے بارے میں سوچیں..دنیا کا ھر ترقی پزیر ملک اپنی معاشی سماجی اور اقتصآدی ترقی کے باریمیں کوشاں ھے جبکہ پاکستان جو کہ ایک ایٹمی ملک ھے...بجلی کے بحران پر قابو پاناھہ نہی چاھتا....کیوں کے ہمارے حکمران عوام کو ایسے معاشرتی مسائل می الجھاکر اپنے زاتی مفاد کی جنگ کو ھر صورت جیتنا چاھتے ھیں ..کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں حکمران ھی کلمے کا پاس نہی رکھتے تو اور کسی سے کیا گلہ......

Nabeela Khan
About the Author: Nabeela Khan Read More Articles by Nabeela Khan: 12 Articles with 12484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.