محبت اک سلسلہ تشنگی(٨ آخری قسط)

اس نے اپنی ڈائری اٹھائی ،پنسل لی اور لکھنے لگی۔
اس دنیا میں لوگوں کی کوئی کمی نہیں
نظر ہے کہ اپنی کسی اور پر تھمی نہیں
کیسے کہیں کیا حال ہے اور کس قدر
نہیں پل ایسا انکھوں میں جب نمی نہیں
وہ دوبارہ بستر پر لیٹ گئی۔ ثریا دوبارہ کمرے میں آئی ،ان کا غصہ کچھ کم ہو چکا تھا۔ ان نے سبین کے بستر پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ تمہارے ساتھ کی ساری لڑکیوں کی شادیاں ہو گئیں ۔ مجھے تمہاری فکر ہے۔ بھول جاو شارب کو بیٹا ، بھول جاو۔
سبین نے ان کی طرف دیکھے بغیر ڈائری کے دوسرے ورق پر لکھنا شروع کیا۔
حیران ہوں میں اے زندگی
محبت اک سلسلہ تشنگی
میں نہیں جانتی زندگی کے رنگ
یہ سلسلہ جستجو،بندگی کے رنگ
اک جنون ہے جو ،میری جان کو ہے کھا رہا
میرا وجود مجھے ہر پل یہ ہے بتا رہا
ہجربہت سخت ہے مثل بندگی
محبت ہے کیا میری سلسلہ تشنگی
نہ سوتی ہوئی سکون سے نہ جاگتی ہوں میں
کچھ خبر نہیں کون سی سمت بھاگتی ہوں میں

ثریا اس کے منہ کی طرف دیکھ رہی تھی، جبکہ وہ اپنی ہی دنیا میں مگن تھی۔ کام کرنے والی نے کہا بی بی جی میں جا رہی ہوں تو ثریا باہر آ گئی ۔ ان کے چہرے کی اداسی دیکھ کر کام کرنے والی نے کہا۔ باجی مجھے تو لگتا ہے ،سبین باجی پر کسی نے جا دو کر دیا ہے۔ کسی ہنستی بولتی تھی اور اب پتہ نہیں کہاں گم رہتی ہے ۔ غزالہ نے مایوسی سے اس کی طرف دیکھا۔
…………………………………………………………………………
نازیہ کی شادی کے بعد وہ دبئی جا چکی تھی ۔ اسے بہت محبت کرنے والا شوہر ملا تھا۔ غزالہ نے ایک میل نرس کو ملازمت پر رکھ لیا تھا۔ جو صرف دو دن کی چھٹی کرتا تھا۔ باقی کے تمام دن ،چو بیس گھنٹے شارب کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ شارب نے اپنے ہاتھ میں ہلکی سی جنبش محسوس کی تو اس کی خوش کا ٹھکانا نہیں رہا۔ وہ اپنے ہاتھ کو ہلانے کی کوشش کرتا رہتا اور کئی کئی گھنٹے اسے دیکھتا رہتا۔ وہ دل ہی دل میں سوچتا۔ہم اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی انمول نعمتوں سے متعلق کبھی سوچتے ہی نہیں ۔ جب وہ ٹھیک تھا تو اس نے کبھی اپنے ہاتھ کو اس طرح غور سے نہیں دیکھا تھا۔ اسے کبھی یہ احساس نہیں ہواکہ خود اپنا آپ سنبھال لیتا کس قدر بڑی نعمت ہے۔
انسان کس قدر بے وقوف اور جلد باز ہے۔ اللہ نے سچ کہا ہے کہ انسان نا شکرہ ہے۔ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ۔ ۔ میں نے موت چاہی مجھے آدھی موت دے دی گئی۔ کاش میں زندگی چاہتا ۔ زندگی کی خوشیاں چاہتا۔ وہ سب کچھ چاہتا جو ۔۔۔۔۔۔۔اس کی انکھوں میں نمی آ گئی ۔ اس نے سوچنا چھوڑ دیا۔ اسے اپنی پڑھی ہوئی کتاب کی ایک اچھی بات یا د آئی۔
وہ کتاب کے الفاظ کو دہرا نے لگا۔ ۔آپ اگر کسی مسلہ کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے تو پھر سوچنے کا فائدہ اور اگر کچھ کر سکتے ہیں تو پھر سوچنے کا فائدہ ۔ یعنی اگر آپ کسی مسلہ سے متعلق کچھ نہیں کر سکتے تو اسے چھوڑ دیں ۔ اور اگر کسی مسلہ سے متعلق کچھ کر سکتے ہیں تو سوچنے کی بجائے عمل کو ترجیح دیں۔
عارف کو اپنے کمرے میں دیکھ کر شارب کو بہت حیرت ہوئی ۔ عارف تم اس نے اسے دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔ عارف شارب کے پاس آیا۔ وہ بہت آرام سے ٹھہر ٹھہر کر بولا۔ بھائی کبھی کبھی دوسروں کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک خود کو ٹھوکر نہ لگے ، میں آپ سے اپنے رویے کے بارے میں شرمندہ ہوں ۔ شارب نے اپنی ویل چیر اس کے پاس لاتے ہوئے ،کہا ۔ عارف کیا ہوا ۔ کوئی پریشانی ہے کیا۔
عارف تھوڑی دیر خا موشی سے کھڑا رہا پھر اس کی انکھوں سے آنسوگِر گئے ۔ شارب امی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شارب نے عارف کی طرف دیکھ کر ذور سے بولتے ہوئے پوچھا۔ کیا مسلہ ہے ۔ کیا امی۔۔۔۔بولتے کیوں نہیں۔عارف نے روتے ہوئے کہا۔ میں امی کے ساتھ تھا۔ وہ خریداری کر رہی تھیں ۔ پھر مجھ سے کہنے لگی۔ عارف تم شارب سے اچھا نہیں کر رہے بیٹا ، ایک تو وہ پہلے ہی اپنی غلطی کی سزا پا رہا ہے دوسرا جب اپنے اس طرح کا رویہ رکھتے ہیں تو بہت دُکھ ہوتا ہے بیٹا ۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ پھر بولیں ۔زبان اور رویے روح کو زخم کر دیتے ہیں ۔روح کے زخم صرف اپنے ہی دے سکتے ہیں ۔ میں حیران تھا وہ مجھ سے اس قسم کی باتیں کیوں کر رہی ہیں ۔ پھر واپس آتے ہوئے رکشہ میں وہ پیچھے کی طرف گِر گئیں ۔ ہماری ماں اب نہیں رہی ۔ بھائی ۔ ماما۔
شارب نے عارف کی طرف دیکھا اور چیخ کر کہا ۔نہیں یہ نہیں ہو سکتا ماما۔ وہ ویل چیرسے اُٹھ کر باہر کی طرف بھاگا ۔ ماما ۔ ماما۔
عارف نے باہر آ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ بھائی۔ شارب کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔ اسے خدا کے بعد جس ذات نے بغیر جمع تفریق کے قبول کیا تھا۔ وہ غزالہ ہی تو تھی۔ اس کی موت کی خبر نے اس کے پورے وجود پر ایسے اثر کیا کہ وہ کھڑا تھا۔ غزالہ کا جسم جب ہوسپٹل سے گھر لایا گیاتو گھر میں ہر طرف غم کی کیفیت طاری تھی۔ نازیہ کو جب خبر دی گئی تو اس پر بھی یہ خبر غم کا بادل بن کر چھا گئی ۔ غزالہ اپنے بچوں کے لیے سائبان کی طرح تھی۔ نازیہ گھر پہنچی تو اپنی ماں کے شفیق چہرے کو دیکھ کر اس کا جی چاہ کہ کاش وہ اُٹھ کر کھڑی ہو جائیں اور وہ ان سے لپٹ جائے۔موت کیسے زندگی کو اپنے اندر چھپا لیتی ہے۔ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا سچ موت ہے ہے جو زندگی کے جھوٹ کا گلاگھونٹ دیتا ہے۔ وہ اپنی ماں کے چہرے کو دیکھ دیکھ کر رو رہی تھی ۔ اس کی گود میں چار ماہ کی عمارہ نے بھوک سے رونا شروع کر دیا تو وہ اسے دودھ دینے کے لیے کمرے میں چلی گئی۔ اس کی ماں نے اس کے کمرے کو اس کے جانے کے بعد بھی کیسا صاف ستھرا رکھا ہوا تھا۔ وہ غزالہ کی شفقت کو سوچ سوچ کر رونے لگی۔ کاش ماما ،شارب کو اپنے پاوں پر کھڑ ادیکھ پاتیں ۔
غزالہ کی موت کےکچھ دن بعد ہی نازیہ واپس لوٹ گئی۔ شارب ،عارف اور حسن کے لیے گھر کے کاموں کوکر نا مشکل ہو گیا تھا۔ گھر میں عورت کا نہ ہونا کس قدر عذاب کا باعث ہے اس کا احساس سب سے ذیادہ حسن کو ہو رہا تھا۔ وہ اپنا ہر کام غزالہ سے کروانے کا عادی تھا۔ اب غیر ارادی طور پر جب وہ غزالہ کو آواز دیتا تو اپنی آواز کی بازگشت اسے بُری محسوس ہوتی۔ وہ دل ہی دل میں سوچتا۔ عورت بھی کسی بے ضرر سی مخلوق ہے۔ اپنا آپ دوسروں پر لُٹا کر چلتی بنتی ہے۔ اسے اپنے بہت سے رویے جو نامناسب تھے یاد آتے اور وہ اپنی عینک کے شیشے صاف کرنے لگتا۔ ۔انسان کا اپنے ماضی پر کوئی اختیار نہیں ۔ جو ہو چکا اس پر وہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ اللہ غزالہ کو اجر دے وہ دل ہی دل میں سوچ کر اپنے احساس جرم کو کم کرنے کی کوشش کرتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبین تم سمجھتی کیوں نہیں ہو ، ثریا نے پریشانی سے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ صرف شعر لکھنے سے اور وقت گزارنے سے زندگی نہیں گزرتی۔ سبین میری بیٹی ، مجھے سمجھو نا۔ اپنی زندگی کو بر باد نہ کرو ۔ سبین نے الجھتے ہوئے کہا۔ ماما شادی ہی سب کچھ نہیں ہوتی نا۔ بہت سے لوگ شادی نہیں کرتے زندگی میں ۔وہ مر تو نہیں جاتے۔ میں بھی جی لوں گی۔ کسی نہ کسی طرح جی ہی لوں گی۔ ثریا نے غصے سے کہا۔ کیا تم شارب سے اس حالت میں شادی کرنا چاہتی ہو۔ سبین نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کاش وہ مان جاتا۔
پھر وہ ہنسنے لگی۔کہنے لگی۔
یہ عشق نہیں آساں اتنا سمجھ لیجے ۔ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔
ثریا نے غصے سے کہا اگر سچ میں اس سے شادی ہو جائے تو چار دن میں تمہاری یہ محبت کا بھوت اُتر جائے۔ وہ بڑبڑھاتی ہوئیں کمرے سے باہر نکل گئیں۔سبین نے دل ہی دل میں کہا ایسا تو تب ہوتا کہ وہ مجھے مل جاتا ۔ مگر۔ ثریا واپس پلٹی اور افسردگی سے بولیں ، اگر ایسا ہی تھا تو اس وقت اسے کیوں نہیں اپنایا جب وہ بلکل ٹھیک تھا۔ سبین نے افسردگی سے کہا ۔ اس وقت مجھے اس سے محبت نہیں تھی۔
ثریا کمرے سے مایوس ہو کر جا چکیں تھیں ۔ سبین کے فون پر گھنٹی بجی ۔سبین نے جب آواز سنی تو وہ شارب تھا۔ اس نےاپنے دل کی دھڑکن کو تیز ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ شارب ، تم کہاں تھے۔ تمہیں اندازہ بھی نہیں کہ میں نے تمہیں کس قدر یاد کیا۔ شارب نے سنجیدگی سے کہا۔ ہم کہیں مل سکتے ہیں ۔ سبین نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔ ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ جہاں تم چاہو۔ شارب نے کچھ دیر کے توقف کے بعد پوچھا تمہاری شادی ہو گئی۔تم وہیں رہتی ہو جہاں پہلے رہتی تھی۔
سبین نے گلہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ شادی کیسے ہو سکتی ہے ۔ تم نے پھر رابطہ ہی نہیں کیا۔ ظاہر ہے وہیں ہوں جہاں تھی ۔ میری تو زندگی ہی رُک گئی۔ شارب کی اطمینان سے بھری ہوئی آواز اسے سنائی دی۔ اچھا تو میں تمہیں پک کر لیتا ہوں۔
میں ایک گھنٹے میں تمہارے گھر پہنچ جاوں گا۔ سبین کے لیے یہ ایک گھنٹہ ایک صدی کی طرح تھا۔ وہ پہلے پندرہ منٹ میں ہی تیار ہو کر بیٹھ گئی۔ وہ سوچ رہی تھی ،شارب ضرور ٹھیک ہو گیا ہو گا۔ اس نے بات ہی مذید نہیں کی۔ سبین نے فون کیا لیکن شارب نے میسج کیا کہ وہ انتظار کر اب مل کر ہی بات ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توقیر اور ارم الگ گھر میں رہتے تھے۔ توقیر ایک پیٹرول پمپ ہر کام کرنے لگا تھا۔ ارم بھی جاب کرتی تھی۔ دونوں میں اچھی گزرنے لگی تھی۔ توقیر اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کو شش کرتا تھا۔ آج اسے اپنی طبعیت کچھ خراب ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ کام سے جلدی گھر آ گیا۔ راستے میں سے اس نے آئس کریم لے لی ۔ آ ج ارم کام پر نہیں گئی تھی۔ ابھی ان کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کے ہاتھ میں آئس کریم دیکھ کر ایک انگریز بچہ نے لپکنے کی کوشش کی ۔اس کی ماں نے بچے کو منع کیا۔ توقیر کو مسکراتے ہوئے دیکھتی ہوئی اس کے سامنے سے نکل گئی۔ وہ بھی مسکرانے لگا۔ جب تک وہ دوکان سے نکل نہیں گئی، توقیر کی نظروں نے اس کا تعاقب کیا۔ اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ ہنسنے لگا ۔ ارے یار یہ ویک اینڈ نہیں ۔ اس نے خود سے کہا۔
وہ اکثر ویک اینڈ پر کسی انگریز عورت کے ساتھ وقت گزارتا ۔ اس کے ایک انڈین دوست نے جو مسلمان تھاایک دفعہ اسے منع کیا تو اس نے جواباً اس سے کہاتھا۔ یار میں اپنے پیسے خرچ کرتا ہوں ۔ یہ جائز ہے۔ منور نے کہا ۔ تم ایسے کیسے کہہ سکتے ہو ۔ زنا ہر حال میں زنا ہے۔ تو وہ ہنسنے لگا ۔ اس نے پورے یقین سے کہا۔ یہ زنا نہیں ہے۔ میں جو لطف حاصل کرتا ہوں اس کی قیمت دیتا ہوں ۔ اسلام میں لونڈی جائز ہے۔ پیسے دینے کے بعد وہ کچھ گھنٹے کے لیے کےلونڈی ہی تو ہوتی ہے۔ وہ اپنی بات کہنے کے بعد خود ہی ہنسنے لگا۔ارے یار مردوں کے لیے چھوٹے موٹے گناہ جائز ہوتے ہیں ۔بہت ذیادہ گناہ ثواب کے چکر میں نہیں پڑتے۔
اس کا گھر آ چکا تھا۔ اس نے گاڑی پارک کی ۔ اس نے چابی کے متبادل لاک کھولنے والا کارڈ نکالا ، دروازہ کھولااور گھر میں داخل ہو گیا۔ وہ بیڈ رومکے دروازے کے باہر پہنچا تو اس کے ہاتھ سے آئس کریم کا ڈبہ گِر گیا ۔ اس نے ارم اس کے دوست کی شرمناک باتیں سنی ، جس میں ارم اس سے کہہ رہی تھی۔ آئی لو یو ہنی۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو ارم نے غصے سے اسے باہر رہنے کا کہا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا کرئے اس نے لوہے کی راڈ اٹھائی دوبارہ کمرے میں داخل ہوا ۔ دونوں کو مارنے لگا۔ اس انگریز نے خود کو بچانے کے لیے توقیر کے ہاتھ سے راڈ کو کھینچ لیا۔ اسے مارنے لگا۔ ارم نے پولیس کو فون کر دیا۔ اپنے دوست کو وہاں سے جانے کے لیے کہا۔ پولیس نے توقیر کی کوئی بات نہ سنی ۔انہوں نے ارم کے جسم پر مار کٹائی کے نشان دیکھتے ہی تو قیر کو مجرم قرار دے دیا۔ توقیر جاتے ہوئے بے چارگی سے ارم کو مڑ مڑ کر دیکھ رہا تھا۔ وہ افسردگی سے کہہ رہا تھا۔ تم نے میری محبت کا یہ صلہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازیہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی۔ وہ سورت نور کی آیت کو پڑھنے کے بعد اس کا ترجمہ پڑھنے لگی۔
گندی عورتیں گندے لوگوں کے لائق ہوتی ہیں ۔اورگندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں ۔ اورستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق ہوتے ہیں ۔
اس نے طیب کو آتے ہوئے دیکھا۔ طیب نے مسکرا کر اس سے پوچھا۔ ہماری شیزادی سو گئی ہے کیا۔ نازیہ نے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جی ابھی سوئی ہے۔ طیب نے زمیں پر بیٹھتے ہوئے دیکھا۔ پھر قرآن مجید کی آیت پر نظر پڑی تو اس نے کہا۔ بے شک سچ ہے ۔ پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں اور پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ہوتے ہیں ۔ اس نے نازیہ کے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے ہاتھ پر رکھا۔ نازیہ نے طیب کی انکھوں میں دیکھا اور پھر قرآن مجید کوچوم کر اس کے اوپر کور چڑھانے لگی۔ نازیہ نے طیب کے لمس کو محسوس کرتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا۔ اے اللہ میرے گناہ کو معاف کرنا ۔ اور مجھے پاکیزگی عطا کرنا۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارم پولیس اسٹیشن میں کھڑی تھی۔ اس نے توقیر سے تنہا ملنے کی درخواست کی تھی۔ اس نے توقیر سے نرمی سے کہا۔ دیکھو توقیر ذیادہ ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں ۔ تھوڑا بہت چلتا ہے لائف میں ۔ اگر تم میری دوستیاں برداشت کر سکتے ہو تو ٹھیک ورنہ تم واپس پاکستان چلے جاو ۔ توقیرنے بے چارگی سے ارم کی طرف دیکھا۔ وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔ کچھ سال بے غیرت بن کر رہنے میں کیا بُرا ہے ۔ گرین کارڈ مل جانے پر ارم کو چھوڑ دوں گا۔ اس نے ارم سے اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کیا۔ ارم نے اسے وہاں سے نکال لیا اور گھر لے آئی۔
توقیر گھر آتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ کبھی کبھی زندگی میں سمجھوتے تو کرنے ہی پڑتے ہیں ۔ انکھوں دیکھی مکھی بھی لوگ نگل جاتے ہیں۔ اس نے نفرت سے ارم کی طرف دیکھا ۔ ارم نے اس کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شارب نے سبین کو اس کے گھر سے پک کیا۔ وہ سارے راستے خاموش تھے ۔ سبین اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔اس کے دل و دماغ میں عجیب سر شاری کی کیفیت تھی۔ وہ دل ہی دل میں جگر مراد آبادی۔غزل گنگنا رہی تھی۔
دل میں کسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں۔
کتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں۔
مجھ کو لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند۔
خود حسن کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں۔
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز۔
کانٹوں سے بھی نبھا کیے جا رہا ہوں میں۔
یوں زندگی گزار رہا ہوں تیرے بغیر۔
جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں۔
وہ اپنے پاپا کی گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔وہ ایک ریسٹوران کے پاس رُکے ۔ اس نے سبین سے کہا ۔تم اندر جاو میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں ۔ وہ بلیک سوٹ میں اور بھی ذیادہ سمارٹ لگ رہا تھا۔ سبین نے اس کے چہرے پر ضرورت سے ذیادہ سنجیدگی دیکھی۔ وہ پہلے کی طرح ہر بات پر مسکرانے والا نہیں لگ رہا تھا۔ شاہد زندگی کی تلخی وجود میں تحلیل ہو کر شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔
وہ آمنے سامنے بیٹھے تھے ۔ سبین نے شارب کی طرف دیکھا۔ پھر دھیرے سے کہا مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ۔۔۔۔شارب نے اس کی طرف دیکھا اور پھر سنجیدگی سے کہ۔ مجھے پرسوں عنابیہ مال میں ملی ۔ میں بھی شاپنگ کر نے گیا تھا ۔ اس نےتمہارے بارے میں بتایا کہ تم ابھی تک میرے انتظار میں کسی سے شادی نہیں کر رہی ۔ میں نے سوچا تم سے مل کر کچھ باتیں کر لی جائیں۔
سبین مسکرائی ۔ تم میری خاطر اتنا بڑا قدم اُٹھا سکتے ہو تو میں بھی۔ ۔۔۔۔۔شارب نے اس کی بات کاٹ دی ۔ میں نے تمہارے لیے کبھی کچھ نہیں کیا۔ انسان کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا ۔ وہ سب کچھ اپنے لیے کرتا ہے۔ خود کو سکون دینے کے لیے۔ اس کاہر عمل اپنے لیے ہی ہوتا ہے۔ بس وہ دوسروں کے نام کر دیتا ہے۔ میں نے ایموشنل ہو کر جو قدم اُٹھایا تھا۔ وہ اپنے جذبات کو سکون دینے کے لیے اُٹھایا تھا۔ سبین نے اس کی طرف مایوسی سے دیکھا۔ تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ محبت کچھ نہیں ہوتی۔
شارب کے چہرے پر سنجیدگی بدستور قائم تھی۔ اس نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد دھیرے سے کہا۔ محبت ایک خوبصورت تجربہ ہے ۔ لوگ اسے اپنے اپنے وجود کے حساب سے ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ بارش ہر جگہ ہوتی ہے ۔مگر بارش کے قطرے کہیں تو شبنم بنتے ہیں تو کہیں گندگی کی وجہ ۔ کہیں تو بنجر زمین ہریالی پاتی ہے اور کہیں غریب انسان افسردہ ہوتا ہے کہ اپنے کمرے کی چھت کو رونے سے کیسے روکے۔ کوئی دو انسان محبت کو ایک سا محسوس نہیں کر سکتے ۔ جو میں محبت کو سمجھتا اور محسوس کرتا ہوں ،تمہیں سمجھانا ممکن نہیں کیونکہ جب محبت تم کرو گی تو تمہیں یہ ویسی محسوس ہو گی ،جیسا کہ تمہارا وجود ہے۔ پتہ نہیں تم وہ بات سمجھی ہو جو میں کہنا چاہ رہا تھا۔ یا نہیں۔محبت میرے نزدیک بارش کے ان قطروں کی طرح ہی ہے۔ جو ہر وجود کے لیے مختلف ہے۔ کہیں خوبصورت ،کہیں بدصورت ،کہیں سراب کرتی ہے تو کہیں تشنگی کا باعث بنتی ہے۔
سبین نےمسکرانے کی کوشش کی اور کہنے لگی چھوڑو ۔ جو ہو چکا سو ہو چکا ۔ آگے چلتے ہیں ۔ شارب نے ہاں میں سر ہلایا ۔ میں اسی لیے تو تم سے ملنے آیا ہوں ۔ سبین تمہیں یاد ہے تم نے مجھے شادی کے لیے پرپوز کیا تھا۔ شارب نے اس کی طرف دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔ آ ج مجھے تم قبول ہو۔ شارب نے سبین کی طرف دیکھا اور پھر ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے سپارٹ لہجے میں بولا۔
وہ وقت تو گزر گیا۔ میں تو یہاں تمہیں یہ کہنے آیا تھا۔ محبت پالینے کا نام نہیں ۔ محبت کا مقصد شادی نہیں ہوتا۔ میں کل دُبئی جا رہا ہوں ۔ میری بہن نے وہاں میرے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے ۔ دو ماہ پہےت اس لڑکی سے منین کر چکا ہوں ۔ جو کچھ ہوا بتک اچھا ہوا ، میں نے زندگی کی حتیق اور موت کی سچائی کو جان لیا۔ میں چاہتا تھا کہ تمہارا شکریہ ادا کروں ، اگر تم ہاں کہہ دیتی تو میں زندگی کے ان تلخ تجربات سے محروم رہ جاتا جن کی وجہ سے آج میں اپنی زندگی کی خوبصورتی کو ہر پل محسوس کرتا ہوں ۔ ٹھیک ہونے کے بعد مروی ترجیا ت بدل چکی ہیں ۔
سینں کی انوھا میں آنوب تھے ۔ شارب تم ایسا نہیں کر سکتے ۔ میں مر جاوں گی۔ مںا نے ایک ایک پل تاہررا اناظکر کیا ہے ۔ تم ایک ایسی لڑکی کے لیے مھےم چھوڑ رہے ہو جسے تم جانتے بھی نہیں ۔ تم اگر مجھ سے پیار نہیں بھی کرتے تو کوئی بات نہیں ۔ میں تم سے پا ر کرتی ہوں اور بہت پیار کرتی ہوں ۔ ہمارے اچھے ملتی کے لیے میرا پیار ہی کافی ہے۔
شارب نے سبین کی طرف بزناری سے دیکھا۔ سنیج اس میں شک نہیں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا تھا۔ لیکن اب اگر میں تمہیں اپنی شریک حیات بناوں گا تو تمہیں دیکھ کر مجھے میری مولاج حالت ہی یاد آتی رہے گی۔ میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں ۔ تم بھی آگے بڑھو۔
سبین نے غصے اور تلخی سے کہا۔ میرے لیے اب یہ منکر نہیں ۔ شارب کے چہرے پر تمسخر خز مسکراہٹ آ گئی ۔ اس نے کہ سبین اپنا آپ ذیادہ اہم ہوتا ہے محبت سے ۔ تم اس بات کا تجربہ ابھی کر کے دیکھو اپنا مہی بند رکھو اور ناک کو اپنے ہاتھ سے بند کر لو ۔ تم میرے بریو نہیں جی سیتق ،یہ سوچو ۔ کرو ۔ کرو نا۔
سبین نے غےس سے کہا ۔ یہ کیا مذاق ہے ۔ شارب مذاق نہیں ۔ ایک تخر حتقو ہے ۔ کر کے دیکھو تمہیں پہن چل جائے گا ۔ محبت کی حقیقت ۔
سنیر میں کل جا رہا ہوں ۔ ہماری شادی نںیے ہو سکتی ۔ تم آگے برھو۔ اللہ حافظ ۔
شارب نے بات ختم کرتے ہوئے کاہ۔ تںہا گھر چھوڑ دوں ۔ سبین رونے لگی۔ اس نے غصے سے کہا۔ اگر چھوڑ دیا تو پھر ییں چھوڑ دو ۔ شارب نے ٹبل پر رکھی ،گاڑی کی چابی اُٹھائی اور ریوٹڑران سے باہر نکل گیا۔
سنیب اس کے جانے کے بعد کافی دیر روتی رہی۔ پھر اس نے اپنا منہ بند کیا اور اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے ناک کو اس طرح پکڑ لیا کہ سانس نہ لی جا سکے ۔ تھوڑی دیر سانس رکنے کے بد اس کا منہ خود بخود اس کے روکنے کے باوجود کھل گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان کو محبت سے ذیادہ زندہ رہنے کے لیے ہوا کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ سانس لے سکے۔ وہ سوچنے لگی کیا واقعی محبت بارش کے قطروں کی طرح ہے ۔ ہر وجود میں سمانے کے بدج اس وجود کے حا ب سے ہی اثر کرتی ہے۔
وہ روتے ہوئے وہاں سے اُٹھی اور دل ہی دل مںک کہا میرے لیے تو متبگ اک سلہ ن تگی ہی ہے۔ اس نے ٹیکس کی تلاش میں نظریں ادھر اُدھر دوڑائیں۔


 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 263305 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More