ماہ رمضان تیرا شکریہ

لندن میں گلین فل ٹاور میں آگ لگنے کے واقعہ کے بعد جسطرح وہاں قریب ہی مسجد میں موجود مسلمانوں کی جانب سے ریلیف کا کام کیا گیا کئی لوگوں کو بغیر کسی مذہبی، رنگ و نسل، قوم کے امتیاز کے امداد فراہم کی گئی انہیں جلتی ہوئی عمارت سے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر باہر نکالا گیا اور پھر بے سہارا مکین جو ٹاور میں رہائش پذیر تھے ، اور روڈ پہ آگئے ہیں ، کو کپڑے، کمبل، اشیاء خوردنی، دودھ، کیمپ، منرل واٹر، جوسز و دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کیلئے جو مہم مسلمانوں نے شروع کی اس کے نتیجے میں نہ صرف کروڑو ں کا سامان اب تک متاثرین ٹاور کو فراہم کیا جاچکاہے بلکہ مالی امداد کیلئے لاکھوں ڈالر ابتک جمع ہوچکے ہیں۔ انگلینڈ میں موجود مسلمانوں کے اس جذبے ، کاوش کو دیکھ کر نہ صرف وہاں کا میڈیا جو مسلمانوں کو ہر وقت دہشت گرد ڈکلئیر کرنے میں لگا ہوتاہے تعریف کرنے پہ مجبور ہے۔ عوام اور متاثرین بھی مسلمانوں کی تعریفیں کررہے ہیں۔ ایک متاثرہ عورت جو ٹاور کی رہائشی تھی لوگوں کو بتارہی تھی کہ اگریہ نوجوان مسلمان مسجد سے باہر آکر ہماری امداد نہ کرتے تو مرنے والو ں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی۔ ایک عورت چلا چلا کر ماہ مقدس رمضان کا شکریہ ادا کررہی تھی کہ اس ماہ مقدس کی وجہ سے لوگ عبادت کیلئے مسجد میں موجود تھے جن کی وجہ سے ہمیں بروقت امداد مل گئی ۔ وہ کہہ رہی تھی کہ مسلمانوں کے بارے میں اور اسلام کے بارے میں میڈیا منفی پراپیگنڈہ تو ہر وقت کرتاہے مسلمانو ں کا یہ مثبت پہلو بھی اقوام عالم او رمیڈیا کو دکھانا چاہئے۔ مذکورہ واقعہ کو یہاں لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کا امیج جو دنیا بھر میں کچھ ہماری بداعمالیوں اور بہت زیادہ مغربی منفی پراپیگنڈہ کی وجہ سے شدید متاثر ہے ، کو بہتر بنانے کیلےء ہمیں ایسی ہی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا مذہب بھی ہمیں اعلی اخلاقیات، برتاؤ، لین دین، معاملات کا درس دیتاہے اور ہمارا دین اسلام تلوار، جہاد کے ذریعہ سے نہیں بلکہ اعلی اخلاق ہی کی وجہ سے دنیا بھر میں پھیلاہے۔ بدقسمتی سے اب اعلی اخلاق کی ہم میں بہت کمی ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی جو دیگر ممالک میں ذریعہ معاش کیلئے گئے ہوئے ہیں کی جانب سے اگر اس قسم کا رویہ اپنایاجائیگا جو رویہ انہوں نے مذکورہ ٹاور کے متاثرین کے ریلیف کام کیلئے اپنایا تو اسلام اور مسلمانوں کی ایک بہتر تصویر لوگوں کے سامنے آئے گی۔ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن، عیاشیوں اور بھیک مانگنے کی پالیسیوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ ہم قرض لے کر عیاشیاں کرتے ہیں اپنی عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے ہیں ، کرپشن کرکے کھربوں روپوں سے بیرون اور اندرون ملک جائیدادیں، کارخانے بناتے ہیں اور نعرہ لگتے ہیں خود مختاری کا کشکول توڑنے کا، اور پھر احتساب کے چنگل میں پھنستے ہیں تو وکٹری کا نشان بناکر عوام، عدلیہ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ خیر بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ اﷲ تعالی نے امت محمدیہ کو قیامت تک آنے والی انسانیت کا رہبر و رہنما سردار بنایا ہے اور ہمیں اعلی اخلاقیات اپنانے کا درس دیاہے۔ بدقسمتی سے چند شدت پسند گروپوں کی جانب سے کی کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں نے پونے دو ارب مسلمانوں کو متاثر کیاہے۔ حالانکہ اگر آپ مسلمانو کی تاریخ اٹھاکر پڑھیں تو انہوں نے جب بھی کوئی علاقہ فتح کیا تو تمام مذاہب کے لوگوں کو مذہبی و معاشرتی آزادی دی۔ انہیں معاف کیا، جہاد سے پھیلا پہلے موقع فراہم کیا کہ اسلام قبول کرلو یا فدیہ دو۔ آخری صورت جہاد کی تھی پہلے تو انہیں کلمے کی دعوت کا حکم ہے۔ بدقسمتی سے یہ کام ہم نے اجتماعی طورپر دو اڑھائی سو سالوں تک کیا بعد ازاں اب گذشتہ ستر اسی سالوں سے اسلام کا صحیح تصور اور پیغام پہنچانے کیلئے دعوت و تبلیغ کا کام دنیا بھر میں ہورہاہے جس کے باعث تمام اقوام عالم کو اسلام ہمارے نبی ؐ قرن کے بارے میں آگاہی ہورہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان کچھ نہ کریں صرف اور صرف اپنے دین پر عمل کریں اور اسوہ حسنہ کو اپنالیں تو وہ دن دور نہیں جب عددی لحاظ سے مسلمان نہ صرف بڑھ جائیں گے بلکہ دنیا کی معیشت، سیاست پر بھی ہمارا قبضہ ہوگا۔ یورپ میں ویسے بھی ہم سے زیادہ انصاف، میرٹ ہے وہاں پر جو لوگ نو مسلم ہیں وہ ہم سے زیادہ اسلام کو Follow کررہے ہیں کیونکہ انہیں اس دین الہی کی قدر ہے۔ لندن میں ٹاور میں آتشزدگی کے واقعہ کے بعد ریلیف کے کاموں میں نو مسلموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور لے رہے ہیں ۔ہم اپنے ملک پاکستان کی حالت دیکھتے ہیں تو ہمیں عوام کی جانب سے کسی بھی ناگہانی آفت، زلزلہ، سیلاب، افغان مہارجین کی صورت میں بڑھ چڑھ کر امدادی کامو ں میں حصہ لینے کا عملی ثبوت ملتاہے لیکن ہمارے حکمران، سیاستدان، ادارے ، اتنے کرپٹ ہوچکے ہیں کہ ہم متاثرین کے امدادی مال، خوراک، ادویات، رقوم تک کو ہڑپ کرجاتے ہیں یا اپنے منظو رنظر جیالوں، برادری، رشتہ داروں میں بلا ضرورت تقسیم کردیتے ہیں۔ زکوۃ وعشر کی رقم تک کو ہم اپنی کرپشن کی نظر کردیتے ہیں۔ ہماری ایسی ہی حرکتو ں کے باعث اب دیگر ممالک کے افراد، ادارے، حکومتیں ہمیں امداد دیتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں امدادی کام کریں۔ ہماری سوسائٹی میں امدا دکے نام پر سیاست اور فوٹو سیشن کاکلچر پروان چڑھ رہاہے۔ ہم سرکاری امداد کو ایسے تقسیم کرتے ہیں جیسے ہمارے باپ کا مال ہو۔ ایک گٹکا گندم کا اور بیسیوں آدمی فوٹو کھنچوانے والے، بیت المال، زکوۃ او ربے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم کا بھی ہم نے یہی حشر کیا ہے۔ ہمیں تمام کام اﷲ کی رضا کیلئے کرنے چاہئیں کیونکہ اعمال کا دارومدار نتیوں پر ہے۔ آخر میں میں ان مسلمان بھائیو ں کی کوششوں کو سراہتا ہوں جو انہوں نے متاثرین لندن ٹاور کی امداد کیلئے کیں اور مسلمانوں کا بہتر image اقوام عالم کو دکھاکر اسلام کی اعلی اخلاق کی دعوت کو پھیلانے میں مدد دی۔ اﷲ کرے تمام مسلمان دنیا بھر میں اس رویہ کا مظاہرہ کریں اور شدت پسند گروپوں سے اجتناب کریں ہمارا سافٹ Image اسلام ہی میں پنہا ہے نہ کہ رقص و سرور او رصوفی ازم ، موسیقی، گانے بجانے کے وفود کے تبادلوں میں۔
 

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 136182 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.