ویل ڈن ٹیم پاکستان کے شاہینوں

آئی سی سی چیمپیئن ٹرافی مقابلے میں شریک ہونے والی 8 ٹیموں کی رینکنگ میں سب سے آخری آٹھویں نمبر والی ٹیم پاکستان کا فائنل جیت کر آئی سی سی چیمپیئن ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کرنا ایک غیر معمولی فتح ہے۔ وہ ٹیم جو آئی سی سی چیمپیئن ٹرافی میں حصہ لینے کے لیئے کوالیفائینگ راونڈ کھیل رہی تھی اور کوالیفائنگ راونڈ میں جیت کر ویسٹ انڈیز کو پیچھے چھوڑ کر آئی سی سی چیمپیئن ٹرافی کھیلنے کے لیئے کوالیفائی کیا ، اپنا پہلا میچ ہندوستان سے ہار گئی۔ ٹورنامنٹ میں پہلا میچ ہی ہار جانے کے بعد یہی ٹیم دنیا کی رینکنگ میں نمبر ون ٹیم ساوتھ افریقہ کو شکست دینے کے بعد سری لنکا کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچی۔ سیمی فائنل میں کرکٹ کا کھیل ایجاد کرنے والے انگریزوں کی ٹیم انگلینڈ سے فتح حاصل کر کے فائنل میں پہنچی۔ فائنل میں مقابلہ تھا اپنے روائتی حریف ہندوستان سے جو کہ آئی سی سی چیمپیئن ٹرافی کی دفاعی ٹیم تھی۔ دنیا میں نمبر ون بیٹنگ لائن سے مشہور ٹیم ہندوستان جو کہ اپنی بیٹنگ کے غرور میں بھول گئی تھی کہ پاکستان جیسی کمزور اور ٹورنامنٹ میں آخری نمبر پر رینکنگ رکھنے والی ٹیم ہی اس سے آئی سی سی چیمپیئن ٹرافی کا ٹائٹل جیت کر چھین لے گی۔ پاکستانی شاہین بالروں نے ہندوستانی سورما بیٹسمینوں کا غرور توڑ دیا۔ ہندوستانی ٹیم میں تجربہ کار کھلاڑی شامل تھے جبکہ پاکستانی ٹیم تقریبا نئے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ ان نئے پاکستانی شاہین بالروں نے تجربہ کار ہندوستانی سورما بیٹسمینوں کی بیٹنگ لائن ریزہ ریزہ کر دی۔ چھکے لگانے والے ہندوستانی بیٹسمینوں کے چھکے ہی چھڑا دیئے۔ ہندوستان کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ کو پاکستانی بالر محمد عامر نے دن میں تارے دکھا دیئے۔ محمد عامر نے ہندوستانی ٹاپ آرڈر بیٹسمینوں کو وکٹ پر جم کر کھیلنے کا موقعہ ہی نہیں دیا اور آوٹ کر کے پویلین واپسی کا راستہ دکھا دیا۔ شاداب نے بھی کمال کھیل کا مظاہرہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ عمران خان اور مصباح الحق کے بعد میانوالی کی سرزمین سے چمکنے والا ستارہ ہیں جو کہ مستقبل میں قومی کرکٹ ٹیم کی فتوحات کے لیئے اپنا حصہ ڈال کر ملک و قوم کا نام سر بلند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فخر زمان نے سینچری اسکور کر کے ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کا فخر ہیں۔ فخر نے میچ بنایا اور عامر نے اسے پایہ ء تکمیل تک پہنچایا۔ سرفراز کی کپتانی میں پاکستان ٹیم میں شامل تمام نئے کھلاڑیوں نے عمدہ کھیل پیش کیا جس پر سرفراز کی کپتانی اور تمام کھلاڑی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ پاکستانی نوجوان ٹیم نے ہندوستانی تجربہ کار اور دنیائے کرکٹ میں نمبر ون بیٹنگ لائن رکھنے والی ٹیم کو 180 رنز کی عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔

ہندوستانی میڈیا غرور کے نشے میں مست ہو کر جس طرح سے اپنی ٹیم کی جیت کے لیئے اتنا پراپیگنڈا اور واویلا مچا رہا تھا ہندوستانی ٹیم کو اتنی ہی عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستانی میڈیا پاکستان پر طنز کے تیر چلا کر کہہ رہا تھا کہ اگر ہندوستان ٹیم ہار بھی گئی تو ان کے ملک میں ٹی وی نہیں ٹوٹیں گے مگر ہندوستانی ٹیم کے ہار کے بعد ٹوٹنے والے ٹی وی کے ساتھ ساتھ ٹوٹنے والے دلوں کی آوازیں ممبئی سے کراچی اور امرتسر سے لاہور تک سنائی دی گئیں۔ پاکستانی ٹیم کی جیت نے ہندوستانی اداکار رشی کپور کو بھی کرارا جواب دے دیا جنہوں نے فادرز ڈے کے دن فائنل میچ کے حوالے سے کچھ کہا تھا۔

25 مارچ 1992 ماہ رمضان کے اکیسویں روزہ کو پاکستان نے عمران خان کی کپتانی میں انگلینڈ میں ہی ورلڈ کپ جیتا تھا اور اب ماہ رمضان کے بائیسویں روزہ کو آئی سی سی چیمپیئن ٹرافی جیت کر تاریخ دہرا دی۔ ٹیم پاکستان کی جیت کے لیئے جہاں نوجوان کھلاڑیوں نے بہترین کھیل پیش کیا وہیں پاکستانی قوم کی دعاوں نے بھی اثر دکھایا اور رمضان کے مقدس مہینے کی رحمتیں اور برکتیں بھی ٹیم پاکستان کے ساتھ تھیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والے ہر کرکٹ میچ میں دونوں ملکوں کی عوام کا جوش و خروش انتہا کی بلندیوں کو چھو رہا ہوتا ہے۔ دونوں دیسوں کی ٹیموں پر پریشر ہوتا ہے اور دونوں طرف کے کھلاڑی اپنی جان لگا کے میچ کھیلتے ہیں گویا دونوں دیسوں کے درمیان کھیل کا میدان جنگ کے میدان کی سی صورت دکھائی دیتا ہے۔ ٹیم پاکستان 20 کروڑ عوام کا پریشر جبکہ ٹیم ہندوستان ایک ارب سے زائد جنتا کا پریشر اپنے اعصاب پر سوار کر کے کھیلتے ہیں۔ ہار اور جیت کے بعد ایک طرف جشن تو دوسری طرف سوگ اور غم وغصہ کا اظہار دیکھنے میں آتا ہے۔

سابق کپتان عمران خان نے فائنل میچ میں پاکستانی ٹیم کو جو مشورہ دیا تھا کہ پاکستانی ٹیم کی طاقت باولنگ ہے اس لیئے پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنی چاہیئے درست ثابت ہوا اور کپتان سرفراز نے بھی سابق کپتان عمران خان کی طرح جارحانہ کھیل کھیلنے کی پالیسی اپنا کر فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔

1999 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی یہی اوول کا میدان تھا جہاں پاکستان کی پوری ٹیم 199 رنز پر آوٹ ہو کر آسٹریلیا سے ہار گئی تھی۔

پاکستان کی جیت پر وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سمیت باقی سیاسی قائدین نے پاکستانی ٹیم کو جیت پر مبارکباد دی۔ پورے ملک سمیت مقبوضہ کشمیر سری نگر اور دنیا بھر میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے جشن منایا گیا۔ کشمیری رہنماء میر واعظ عمر فاروق نے بھی پاکستانی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عید سے پہلے عید محسوس ہو رہی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے تو ٹیم پاکستان کی جیت کی خوشی میں پوری ٹیم کو پاک فوج کی طرف سے عمرہ ادا کرنے کی دعوت دے دی۔

اوول کے میدان میں ہندوستان کو تاریخی شکست دینے کے بعد ٹیم پاکستان کے شاہینو کا اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے کا منظر انتہائی ایمان افروز اور دلفریب تھا جسے دیکھ کر ہر پاکستانی مسلمان کا دل جذبات سے لبریز اور آنکھیں نم ہو گئیں۔

ویسے لندن کے ہی میدان میں ہندوستان نے پاکستان کو ہاکی کے میچ میں 7-1 گول سے ہرا دیا ہے۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے مگر کرکٹ کی جیت کا جوش و خروش اور ولولہ ہاکی کے میچ میں پاکستان کی ہار پر حاوی آگیا۔ کرکٹ ایک ایسا کھیل بن گیا ہے جس سے پاکستانی قوم کی وابستگی جنون کی حد تک ہے۔

Abid Ayub
About the Author: Abid Ayub Read More Articles by Abid Ayub: 13 Articles with 8185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.