منصوبہ بندی کا فقدان

ڈرائیونگ کرتے ہوئے سڑک پر نظر پڑتی ہے یا فٹ پاتھ سے عمارات تک جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ ہم ایک ایسے شہر میں رہتے ہیں جس کا کوئی والی وارث نہیں، جس کا کوئی منصوبہ ساز نہیں، جس کی کسی کو فکر نہیں نہ حکم رانوں اور منتظمین کو نہ یہاں بسنے والے عام شہریوں کو۔

جو مناظر مجھے دیکھنے کو ملتے ہیں وہ آپ غور سے دیکھیں اور سوچیں تو آپ بھی میرے ہم خیال ہوجائیں گے۔ اس شہر میں سڑک پر ٹریفک اپنی مرضی سے چلتا ہے، ہر گاڑی من مانی کرتی نظر آتی ہے، بسیں روڈ کی شہزادیاں ہیں اور ٹرک سڑک کے بادشاہ، بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیوروں کو مکمل حق حاصل ہے کہ جب چاہے جہاں چاہیں بس اور ٹرک کو روک دیں، اور بس ڈرائیوروں کا تو کہنا ہی کیا، سُستی دکھانے پر آئیں تو سڑک پر یوں رینگتے ہیں کہ سست رفتاری میں ان سے کچھوا بھی ہار جائے، اور جب تیزرفتاری کا مظاہرہ کرنے پر آئی ہیں تو لگتا ہے ان کی گاڑیوں میں بجلی بھری ہو، ایک پَل میں یہ بس کو ہوائی جہاز بناکر رکھ دیتے ہیں۔ دوسری طرف کراچی کی سڑکوں پر آنے والی نسبتاً نئی سواری چنگچی رکشا ہے۔ یہ روڈ کے بادشاہ اور شہزادے نہ بھی ہوں تو خود کو سڑکوں کی دنیا کا چھوٹا موٹا راجا ضرور سمجھتے ہیں۔ کہیں رُکنا ہو، چلنا ہو، مُڑنا ہو، کچھ بھی کرنا ہو ان کے پیش نظر نہ ٹریفک کے قوانین ہوتے ہیں، نہ دوسری گاڑیاں، یہ بس اپنی ضرورت کے تحت چلتے ہیں۔

بات صرف پبلک ٹرانسپورٹ ہی کی نہیں، عام شہری بھی ٹریفک قوانین اور سڑک پر چلنے والے دوسرے لوگوں کے حقوق کو پامال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ موٹرسائیکل رائیڈرز پھرتیاں اور کمال دکھاتے چھوٹی چھوٹی جگہوں سے راستہ بناتے گزرتے ہیں، ایسے میں ان کی یہ جلد بازی کسی کی گاڑی کو نقصان پہنچائے یا زندگی کے لیے خطرہ بن جائے ان کی بلا سے۔ کاریں چلانے والے بھی کسی سے کم نہیں، سگنل توڑنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، ذرا ٹریفک جام کا مسئلہ ہوا اور یہ نئی راہیں ڈھونڈتے کسی سڑک پر رانگ سائڈ سے عازم سفر ہوجائیں گے، ایسے میں خوف ناک ٹریفک جام کے واقعات جنم لیتے ہیں۔

اب نظر ڈالیے فٹ پاتھوں کی طرف۔ دنیا میں فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تو فٹ پاتھ پر ٹھیلے لگے ہیں، پتھارے سجے ہیں، ریسٹورینٹس کی کرسیاں، میزیں اور تخت بچھے ہیں، غرض یہ کہ ان پر ایک دنیا آباد ہے، پیدل چلنے والوں کا چلنا مشکل ہے تو ہوا کرے، یہاں کاروبار چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔

مکانوں، فلیٹوں اور آبادیوں کو دیکھیے تو بے ترتیبی صاف نظر آئے گی، بدنظمی اور بدعنوانی اپنے تماشے دکھارہی ہوں گی۔ نالوں سے لوکل ٹرینوں کی پٹریوں تک قائم تجاوزات تو بتا ہی دیتی ہیں کہ اس شہر کی زمینوں پر قبضہ کرنا اور انھیں بیچ کر مال کمانا کتنا سہل کاروبار ہے، ان بستیوں کی صورت حال بھی کچھ کم خراب نہیں جنہیں ہر لحاظ سے قانونی حیثیت حاصل ہے اور جنھیں باقاعدہ طور پر حکومتی اداروں کی جانب سے آباد کیا گیا ہے۔ شہر کے بہت کم علاقے ایسے ہیں جہاں آپ کو ترتیب، خوب صورتی اور نظم دکھائی دے گا، ورنہ زیادہ تر علاقوں میں تو اپنے حدود سے کہیں آگے نکلے ہوئے مکان، آڑھی ٹیڑھی گلیاں جن کے بارے میں کوئی نہیں بتاسکتا کہ ان کا آخری سِرا کہاں پر ہے، خالی پلاٹوں پر اور سڑک کے کنارے لگے کوڑے کے پہاڑ جیسے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کھلے گٹر، اُبلتے نالے اور کوڑے سے لبالب بھر کر بند ہوجانے والے نالے آپ کی منتظر ہوں گے۔

کبھی کراچی ایک بہت خوب صورت اور صاف ستھرا شہر تھا، جہاں ہر طرف سلیقہ نظر آتا تھا، جس کی سڑکیں ہر روز دھوئی جاتی تھیں، پھر تو جیسے اس شہر میں بستیاں بسانے اور آباد کاری کے نام پر جو کچھ ہوا وہ افراتفری اور ہنگامہ آرائی سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ مختلف اداروں میں بٹے ہوئے اس بدقسمت شہر میں منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ کس علاقے پانی، بجلی اور گیس کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کس حد تک بلند عمارتیں بننی چاہیں، کتنی نئی بستیاں بسنی چاہییں، اس کی کوئی منصوبہ بندی آپ کو دکھائی نہیں دے گی، کس سڑک پر ٹریفک کے مسائل اور گاڑیوں کی بہت بڑی تعداد کی گزرگاہ ہونے کے باعث اس سڑک کے اردگرد تفریحی مقامات، تجارتی مقامات اور ایسی تمام جگہیں بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جہاں روزانہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے آنے اور رش ہونے کا احتمال ہو․․․․مگر ایسا نہیں ہوتا۔

لگتا یہ ہے کہ اس شہر کا انتظام چلانے والوں یا یہاں طاقت رکھنے والوں کے نزدیک کراچی صرف پلاٹوں کی ایک منڈی ہے، بیچے جاؤ کمائے جاؤ۔

یہ بدنظمی، بے ترتیبی، منصوبہ بندی کا فقدان کراچی کا کیا حال کرے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، اب بھی شہر کے حوالے سے منصوبہ بندی کرلی جائے اور بہتری کی کوششیں کی جائیں تو پاکستان کا یہ سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر ایک شہر کا منظر پیش کرسکے گا، ورنہ ڈامر اور سیمنٹ کے ایک بے ہنگم جنگل کے سوا کچھ اور ہونا اس شہر کا مقدر نہیں۔

 

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 281250 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.