لازوال قسط نمبر 7

انمول آئینے کے سامنے دو شرٹ ہاتھ میں لئے یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہا تھاکہ وہ کونسی شرٹ پہنے۔
’’ ریڈ پہنوں یا پھر بلیک۔۔۔‘‘ وہ گنگناتے ہوئے سوچ رہا تھا
’’ بلیک کلر کی شرٹ تم پر زیادہ سوٹ کرے گی۔۔۔‘‘ یہ ایک لڑکی کی آواز تھی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو دروازے پر حجاب کھڑی تھی۔ سانوالا رنگ بالکل وجیہہ کی طرح بلکہ وجیہہ سے بھی زیادہ سانولا کہنا بہتر ہوگا۔وہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیلائے آگے بڑھی اور انمول کے ہاتھ سے بلیک شرٹ لیتے ہوئے مزید کہا
’’ یہ رنگ تم پر بہت اچھا لگے گا۔۔۔ یہ پہنو تم۔۔۔‘‘
’’تم؟؟؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی؟‘‘جبڑے بھینچتے ہوئے اس نے کہا تھا
’’دیکھ لو بس۔۔۔ ‘‘ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے ایک ادا سے بالوں کو جھٹکا دیا تھا
’’میرے اندر تمہارے کمرے میں آنے کی ہمت بھی ہے او ر تم سے بات کرنے کی بھی۔۔‘‘مسکراتے ہوئے اس نے انمول کی طرف دیکھا
’’لیکن مجھے کوئی شوق نہیں ہے تم سے بات کرنے کا۔۔۔‘‘ اس نے فورا تردید کی مگر حجاب کو تو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا
’’یہ دیکھو۔۔۔کتنا اچھا لگ رہا ہے تم پر یہ رنگ۔۔ سفید رنگ پر ہمیشہ سیاہ رنگ جچتا ہے۔۔ اورتم میں تو حسن ہی اتنا ہے کہ تمہیں پہننا ہی سیاہ رنگ چاہئے تاکہ تمہیں کسی کی بری نظر نہ لگ جائے۔۔۔‘‘اس نے اپنا ہاتھ انمول کے شانوں تک بڑھایا اور شرٹ اس کے بالکل آگے کر دی ۔
’’بالکل پرنس لگو گے تم ۔۔۔‘‘وہ ایسا گمان کرنے لگی جیسے وہ اس شرٹ کو پہنے ہوئے ہے
’’کتنی بے شرم ہو تم۔۔۔‘‘ ایک دھکے کے ساتھ اس کو دیوار پر پٹخ دیا۔اور شرٹ کو کھینچ کر بیڈ پر اچھال دیا
’’اب تو میں اس شرٹ کو پہننا تو دور کی بات چھونا بھی گوارا نہیں کروں گا۔۔۔‘‘انمول نے جبڑے بھینچتے ہوئے کہا تھا
’’ انمول۔۔ تم میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتے ہو؟ آخر میں تمہاری ہونے والی بیوی ہوں۔۔‘‘اس نے دھیمے لہجے میں کہا تھا
’’ میری ہونے والی بیوی۔۔۔ مائے فٹ۔۔۔‘‘اس کا انداز طنزیہ تھا
’’انمول۔۔ میں تم سے۔۔‘‘حجاب نے انمول کا ہاتھ تھام کر کچھ کہنا چاہا تھا کہ انمول نے جھلاتے ہوئے اپنا ہاتھ کھینچ لیا
’’میراہاتھ چھوڑو۔۔۔اور دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔۔۔‘‘چلا تے ہوئے کہا تھا
’’انمول۔۔ تم اتنی نفرت کیوں کرتے ہو مجھ سے۔۔‘‘ اس بار اس کے آواز میں درد نمایاں تھا
’’آخر کیا کمی ہے مجھ میں۔۔۔‘‘پلکوں پر چمکتے آنسوؤں کو اس نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے صاف کئے تھے
’’کمی۔۔۔!! تمہارے اندر کمی یہ ہے کہ تم حسن میں مجھ سے کم درجے کی ہو۔۔ تمہارے اندر کمی یہ ہے کہ تمہارا رنگ سانولا ہے اور تمہارے اند ر سب سے بڑی کمی تم جانتی ہو کیا ہے؟‘‘وہ یک ٹک اسے ہی دیکھتی جا رہی تھی
’’تمہارے چہرے پر لگا یہ داغ ۔۔۔ سب سے بڑی کمی ہے۔جو تمہاری نحوست میں مزید اضافہ کرتا ہے۔۔ ہنہ‘‘اس نے گردن جھٹکتے ہوئے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا۔
’’انمول اپنے حسن پر اتنا غرور مت کرو۔۔۔ یہ سب خاک میں مل جائے گا۔۔‘‘اس نے روہانسا ہوکر کہا تھا
’’جسٹ۔۔ شیٹ اپ۔۔آگے ایک لفظ بھی نہیں۔۔۔ سنا تم نے۔۔ اب نکل جاؤ میرے کمرے سے۔۔ اپنا کالا کلوٹا چہرا لے کر اور آئندہ میرے کمرے میں آنے سے پہلے ہزار بار سوچنا ۔۔ اب دفع ہوجاؤ۔۔‘‘ عقابی آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا تھا۔
’’انمول۔۔‘‘ اس نے بھیگی آنکھوں سے ایک آس بھری نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی
’’ میں نے کہا چلی جاؤ۔۔۔‘‘ انمول نے باہر دروازے کی طرف اشارہ کیا تو وہ بھی بنا کچھ کہے پلٹ گئی۔ جاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے نظریں اٹھا کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا تو واقعی اس کے چہرے پر ایک داغ تھا۔ ایسا داغ جو پیدائشی تھا۔کچھ داغ قدرت تحفے میں دیتی ہے اور پھر دنیا والے اس داغ کو اس کی نحوست قرار دے دیتے ہیں۔بائیں رخسار پر آنکھ سے ذرا نیچے بے شکل کا ایک سیا ہ دھبہ جو جلدپر اس کے چہرے کا حصہ تھا، جسے چاہ کر بھی چھپایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس کی نشانی بن چکا تھا۔اِس نے اپنی نگاہیں جھکا لیں اور اس کے کمرے سے باہر چلی گئی
’’ بڑی آئی کالی کلوٹی۔۔۔ ہنہ۔۔‘‘ اس کے جانے کے بعد بڑبڑاتا ہوا اس نے دروازہ بند کر لیا
* * * *
ٹی وی پر ایکشن سے بھرپور فلم ابھی شروع ہی ہوئی تھی ۔ وہ پچھلے ایک گھنٹے سے بیٹھا اسی فلم کا انتظار کر رہا تھا۔ فلم شروع ہوتے ہی دو بائیک سوار وں نے اپنے کرتب دیکھانا شروع کئے۔ ایک نہایت مشکل راستے کی عین پیک پر وہ اپنے جوہر دیکھا رہے تھے۔پوا را علاقہ پتھریلا تھا۔مگر وہ بائیک کو ایسے چلا رہے تھے جیسے کوئی ہموار سڑک پر چلاتا ہو۔ ہیلی کوپٹر سر پر چکر لگا رہا تھا۔ سانپ کی طرح زگ زیک کرتا آدھ فٹ سے بھی کم چوڑا ئی رکھتا یہ راستہ جہاں صحیح سے چلنا بھی محال تھا وہ دونوں بڑی پھرتی سے بائیک کو ہوا کے پروں پر سوار کر رہے تھے۔ ضرغام پورے انہماک سے اس سین کو دیکھ رہا تھا۔ایک پل کے لئے اس نے پوپ کارن بھی کھانا بند کر دیئے اور دلجمعی سے بس اسی سین کو دیکھتا جا رہا تھا۔ و ہ اس قدر محو تھا کہ اسے شگفتہ بی بی کے آنے کا بھی احساس نہ ہوا۔ شگفتہ بی بی باہر سے ٹی وی لاؤنج میں آئیں اور اس کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ان کا چہرہ آج پہلے کی طرح تروتازہ نہیں تھا۔ وہ ایک سوچ میں کھوئی ہوئی تھیں۔
’’ مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے۔۔‘‘ کچھ سوچ کر انہوں نے کہا تھا مگر وہ ابھی بھی فلم کے اس سین میں کھویا ہوا تھا۔ بائیک سوار اپنی فنش لائن تک پہنچنے ہی والے تھے۔ مگر شگفتہ بیگم ایک بار پھر مخل ہوئیں
’’ضرغام۔۔۔ !!‘‘ اس بار وہ بری طرح چونکا تھا
’’امی۔۔ آپ؟؟ کب آئیں۔۔‘‘اُس نے بوکھلا کر پوچھا تھا۔
’’ مجھے تو آئے ہوئے کافی دیر ہوگئی مگر تم ہی ٹی وی میں اتنے محو تھے کہ تم نے میری طرف دیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔۔‘‘
’’ امی۔۔‘‘ اس نے معنی خیز لہجے میں کہتے ہوئے دوبارہ نظریں ٹی وی پر مرکوز کر لیں۔شگفتہ بی بی نے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی مگر الفاظ بکھر سے گئے تھے۔انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بات کو کہاں سے شروع کریں۔
’’ ضرغام۔۔ میں نے تم سے ایک بات کرنی ہے۔۔‘‘ الفاظ کو مجتمع کر نے کے باوجود وہ صرف اتنا ہی کہہ سکیں۔
’’ جی کہیں۔۔۔‘‘ اس کی نظریں ٹی وی سکرین پر مرتکز تھیں
’’جو بات میں تم سے کہنے جا رہی ہوں۔ اُ س کے بارے میں تم ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ۔۔ جلد بازی یا گرم مزاجی میں کوئی فیصلہ مت کر لینا۔ اور مجھے اتنی جلدی بھی نہیں ہے ۔ بہت ہی سوچ سمجھ کر جواب دینا۔۔۔اور ہاں اس کو اپنی انا کو مسئلہ بھی مت بنانا۔ یہ فیصلہ میں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے بس اب تمہاری ہاں کا انتظار ہے۔۔‘‘وہ الفاظ کو سمیٹ سمیٹ کر کہہ رہی تھیں
’’آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔۔۔ میں سمجھ نہیں پا رہا۔۔۔‘‘ اس نے نظریں ٹی وی سکرین سے ہٹا کر شگفتہ بی بی کی طرف کیں
’’ اور آپ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں۔۔ جو بات کرنی ہے صاف صاف کہیں۔۔۔‘‘ اس نے اپنی دائیں ٹانگ صوفے پر رکھ لی اور پورے انہماک سے شگفتہ بی بی کی طرف دیکھنے لگا
’’میں الفاظ کو گھما کر صرف اس لئے بات کر رہی ہوں تاکہ تمہارا ذہن اس بات کیلئے تیار ہو جائے جو میں اب تم سے کرنے جا رہی ہوں۔۔‘‘ انہوں سے وضاحت کی
’’اب کہیں بھی۔۔۔ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔۔‘‘ اس نے بالوں کو جھٹکا د ے کر کہا تھا
’’میں نے تمہارے لئے ایک لڑکی پسند کی ہے‘‘
’’کک کیا؟؟ ‘‘ یہ سن کر اسے ایک شاک لگا ۔اپنی ٹانگ دوبارہ صوفے سے نیچے کی
’’ آپ کو پتا بھی ہے ۔آپ کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ اس نے وضاحت طلب کی
’’ہاں۔۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔ ‘‘ یہ سن کر وہ کھڑا ہو گیا
’’ میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ میں شادی نہیں کر سکتا اور پھر آپ کی پسند کی گئی لڑکی سے تو کبھی بھی نہیں۔۔ آپ نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ جو لڑکی آپ پسند کریں گی۔ اس لڑکی سے میں شادی کروں گا۔۔ آپ کی اور میری چوائس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔۔ ‘‘ اس نے جھلاتے ہوئے کہا تھا
’’میں جانتی ہوں ضرغام۔۔ تمہاری پسند میری پسند سے یکسر مختلف ہے۔ لیکن بیٹا میں تمہاری ماں ہوں۔۔ میں اچھی طر ح جانتی ہوں تمہارے لئے کیا صحیح ہے کیا غلط ۔۔ ایک ماں کبھی اپنے بیٹے کے لئے کسی غلط لڑکی کا انتخاب نہیں کر سکتی۔ ایک ماں ہمیشہ اپنے بیٹے کے لئے اس لڑکی کو منتخب کر تی ہو جو اس کے بیٹے کوسمجھ سکے۔ اس کو دل و جان سے چاہے۔ اُس کی عزت کرے ۔ اُس کی چھوٹی سی چھوٹی ضرورت کا خیال رکھے۔۔ایک ماں ہمیشہ اپنے بیٹے کے لئے ایک آئیڈیل لڑکی کا ہی انتخاب کرتی ہے۔‘‘وہ دلائل دیتے ہوئے ضرغام کو قائل کر نے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں
’’لیکن۔۔۔‘‘ اس نے جھلاتے ہوئے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا
’’دیکھو بیٹا!‘‘آگے بڑھ کر اس کے چہرے پر پیار بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے مزید کہا
’’زندگی میں ہر فیصلہ خود نہیں کرنا چاہئے ۔ کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو کہ بڑوں پر چھوڑ دینے چاہئیں۔ کچھ فیصلے بڑے ہی بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔۔‘‘پیار سے سمجھانے کی کوشش کی تھی
’’بس کیجیے۔۔۔ ‘‘اس نے غصے میں شگفتہ بی بی کے ہاتھ جھٹک دیئے
’’بند کیجیے ۔۔۔ اپنی نصیحتو ں کی پوٹلی۔۔۔‘‘جھلاتے ہوئے اپنا چہرہ دوسرے رخ موڑ لیا
’’ میں خود مختار ہوں۔عاقل بالغ ہوں۔ مجھے اپنے فیصلے کرنے کا خود حق ہے ۔ کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنا کیا ہوا فیصلہ زبردستی مجھ پر تھونپے۔۔‘‘اس نے روکھے پن میں کہا تھا
’’ میں اپنا فیصلہ تم پر مسلط نہیں کر رہی ۔۔ میں نے تو تم سے اجازت طلب کی ہے۔۔‘‘
’’ اسے آپ اجازت کہتی ہیں۔۔‘‘ اس نے استہزائیہ انداز میں کہا تھا
’’تمہارا یہ آخری فیصلہ ہے۔۔‘‘ شگفتہ بی بی نے آخری بار معنی خیز لہجے میں استفسار کیا تھا
’’ جی ہاں۔۔ میں آپ کی پسند کی گئی لڑکی سے کبھی شادی نہیں کروں گا۔۔‘‘ اس نے اپنا فیصلہ سنا یا تھا
’’ تو پھر ٹھیک ہے ۔۔۔ میں بھی یہ فیصلہ کر چکی ہوں کہ تمہاری شادی صرف اور صرف وجیہہ سے ہوگی جسے میں نے پسند کیا ہے اور وہ بھی بہت جلد۔۔۔‘‘
’’ آپ مجھے چیلنج کر رہی ہیں۔۔‘‘ تمسخرانہ کہا تھا
’’چیلنج نہیں کر رہی بتا رہی ہوں۔۔ یہ شادی تمہیں کرنی ہوگی۔ خواہ خوشی سے خواہ ناخوشی سے مگر یہ شادی کرنی ہوگی تمہیں اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔۔‘‘پراعتماد لہجے میں شگفتہ بی بی نے کہا تھا
’’یہ بھرم ہے آپ کا۔۔۔‘‘ عقابی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
’’اور اس بھرم کو تم سچ کر کے دیکھاؤ گے۔۔تمہارے پاس صرف کل تک کا وقت ہے یا تو اس رشتے کے لئے ہاں کرو یا پھر اِس جائیداد کو ہمیشہ کے لئے بھول جاؤ۔۔ کیونکہ اگر تم نے اس رشتے کے لئے ہامی نہیں بھری تو میں یہ ساری جائیداد کسی ٹرسٹ کو عطیہ کردونگی اور پھر تمہارا جہاں دل چاہے شادی کرنا۔۔۔‘‘ اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
’’ دھمکی دے رہی ہیں آپ مجھے۔۔۔‘‘اس کے تو جیسے حواس ہی بکھر گئے تھے
’’ تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھو۔۔۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا میں جو کہتی ہوں وہ کر کے دیکھاتی ہوں۔۔۔ یہ تم بھی اچھی طرح جانتے ہو۔۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اپنے روم کی طرف بڑھیں
’’ آپ ایسا نہیں کر سکتیں۔۔۔ سنا آپ نے۔۔‘‘ اس نے چلاتے ہوئے کہا تھا
’’ میں ایسا ہی کرونگی۔۔‘‘ پلٹ کر جواب دیا۔
’’ میں ایسا کبھی نہیں ہونے دونگا۔۔۔ سنا آپ نے۔۔‘‘ اس نے غصے میں ایک زور دار لات صوفے کو رسید کی۔ اُس کو تو کوئی اثر نہ ہوا مگر اس کا غصے شانت نہیں ہوا تھا۔ اس نے ٹیبل پر رکھے ریمورٹ کو اٹھایا اور دیوار پر دے مارا۔ بے چارا بے موت مارا گیا۔ پرزے پرزے ہو کر پورے لاؤنج میں بکھر گیا
’’ میں ایسا نہیں ہونے دونگا۔۔۔ سنا آپ نے۔۔‘‘ ایک بار پھر اس نے جھلاتے ہوئے کہا تھا
* * * * *
’’ انمول کی طرف سے میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔۔‘‘حجاب وجیہہ کے کمرے میں بیٹھی اپنے ہی خیالوں میں گم تھی۔ وجیہہ اچھی طرح جانتی تھی وہ انمول کی باتوں کی وجہ سے بہت ہرٹ ہوئی ہے
’’ آپ کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔آپ نے تو ہر ممکن کوشش کی ۔۔ شائد میری ہی قسمت میں اُس کا ساتھ نہیں لکھا۔۔۔‘‘باتیں کرتے کرتے ایک بار پھر وہ انمول کے خیالوں میں کھو گئی
’’لیکن جو انمول نے کیا وہ ٹھیک نہیں کیا۔۔۔‘‘
’’ اس میں انمول کی کیا غلطی بھلا۔۔۔ غلطی تو میری ہے ۔۔ مجھ جیسی بد صورت لڑکی کو بھلا کون اپنائے گا۔ ہر جگہ سے دھدکار ہی تو ملتی ہے مجھ جیسی داغداز چہرے والی لڑکیوں کو۔۔‘‘اس کا لہجے گلوگیر تھا
’’نہیں۔۔ حجاب۔۔یہ داغ تمہاری بدقسمتی نہیں ہے۔بلکہ بد قسمت تو وہ لوگ ہیں جو تمہیں اس بات کا طعنہ دیتے ہیں۔۔ دیکھنا ۔۔۔آج اس نے تمہیں ٹھکرایا ہے، ایک وقت آئے گا جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہو کر تم سے خود اپنے گناہوں کی معافی مانگنے آئے گا۔۔‘‘ حجاب کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا
’’ کاش ۔۔ ایسا ہو۔۔۔ مگر شاید میری قسمت میں ایسا دن لکھا ہی نہیں۔۔‘‘ سرد آہ بھرتے ہوئے کہا
’’اچھا چھوڑیے۔۔ ان باتوں یہ بتائیں کہ آپ کی جاب کیسی جا رہی ہے؟ کوئی مشکل وغیرہ تو نہیں ہو رہی۔۔۔ویسے میں نے سنا ہے کہ وہاں کی جو پرنسپل ہے وہ آپ کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں۔۔ یہ سچ ہے؟‘‘ اس نے اپنا لہجے بدلتے ہوئے کہا تھا۔ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ آویزاں تھی۔
’’ہاں۔۔۔ صحیح سنا ہے ۔۔ ‘‘ اس نے بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے آنکھیں جھکا کر کہا
’’اوہ۔۔۔ شرما گئیں آپ۔۔‘‘لہجہ قدرے شوخ تھا
’’حجاب۔۔‘‘ معنی خیز لہجے میں کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر ڈریسنگ کی طرف چل دی
* * * *
’’ پلز ۔۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔۔ بس کچھ دن اور۔۔۔ اس کے بعد جیسا تم چاہو گی ویسا ہی ہوگا۔۔۔‘‘وہ فون کو کندھے سے لگا کر وارڈ روب کو بند کر رہا تھا
’’پلز عندلیب ۔۔ آج مان جاؤ۔۔۔‘‘وارڈروب بند کرنے کے بعد اس نے داہنے ہاتھ سے فون پکڑ کر بالوں کو بائیں ہاتھ سے سیٹ کیا۔
’’ میں نے تمہیں پہلے ہی بہت وقت دیا ہے اور اب تم مزید مانگ رہے ہو۔۔۔‘‘ فون سے عندلیب کی آواز آئی تھی
’’پلز۔۔ عندلیب۔۔ بس آخری بار۔۔ تم جانتی ہو اگلے ہفتے وجیہہ کو رشتے والے دیکھنے آرہے ہیں۔۔ دیکھنا اگر بات پکی ہوگئی تو جلد سے جلد شادی بھی ہوجائے گی اور پھر ہماری باری ہوگی۔۔‘‘
’’ اب نیا بہانہ تو نہیں بنایا؟‘‘
’’ یار۔۔۔ میں بہانا نہیں بنا رہا۔۔۔ میرا یقین کرو۔۔۔اگر تمہیں یقین نہیں آرہا تو بے شک آج میرے گھر آجاؤ۔۔ ‘‘ اس نے ہرممکن کوشش کی کہ عندلیب اس کی بات کا یقین کر لے اور آخر کار وہ مان گئی۔ انمول کے چہرے پر بھی بہار آگئی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ناول ابھی جاری ہے۔ اپنی رائے سے آگاہ ضرور کیجے گا
 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 98231 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More