اﷲ پاک کو بادشاہ بننا بھی نہیں آتا

جب ہم بادشاہ کا لفظ سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ایک جاہ و جلال والی شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو ایک آراستہ و پیراستہ تخت پہ برا جمان ہے۔آس پاس نوکر و خدمت گار کھڑے ہیں۔سب بہت با ادب کھڑے ہیں۔بادشاہ کے ڈر سے کوئی ذرا سی بھی جنبش نہیں کرتا۔

یہ بادشاہ تو ایسے بادشاہ ہوتے ہیں جو دنیا میں محض چند دن کے مہمان ہوتے ہیں۔ اور ان کا مال و دولت بھی اپنا نہیں ہوتا ۔ وہ خالی ہاتھ آتے ہیں انکے ہاتھ کسی کی دولت لگ جاتی ہے یا پھر وراثت میں ملتی ہے۔اور وہ اسے چند دن بعد یہیں چھوڑ کر دنیا سے چلے جاتے ہیں۔

لیکن ٹھریئے ایک ایسا بادشاہ بھی ہے جسکا سب کچھ اپنا ہے۔جو سارے کائنات کا حقیقی مالک ہے۔اور جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا جوباقی ہے۔اس کے خزا نوں کو زوال نہیں آتا۔لیکن اس حقیقی بادشاہ میں اور ان مجازی بادشاہوں میں فرق کیا ہے۔ ؟؟

بادشاہ تو ایسے ہوتے ہیں کہ انکی بارگاہ میں ہر انسان جا بھی نہیں سکتا۔ کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ بغیر اجازت بادشاہ کے دربار میں چلا جائے ۔ صرف چند خاص لوگ ہی ان کی بارگاہ میں جاسکتے ہیں۔عام لوگ ان خاص لوگوں کی منت سماجت کرتے رہتے ہیں کہ ہماری بات بھی شہنشاہ کے دربار میں پہنچادو۔مگر ٹھہرئیے ایک بادشا ہ کا دربار ایسا بھی ہے جہاں جس کا دل چاہے بے دھڑک چلا جائے جہاں ہر ایرا غیرا ہر میلا گندہ اچھا برا منہ اٹھا کے چلا جاتا ہے جو چاہتا ہے اسکے دربار میں جا کے مانگ لیتا ہے۔ اپنی عرضیاں اسکی بارگاہ میں پیش کرتا ہے ۔ وہاں خاص و عام کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی کسی اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی وہا ں سب ایک جیسے ہیں سب اسی کے ہو تے ہیں ۔اور بادشاہ سلامت کا طریقہ بھی دیکھیں و ہ بھی ہر آنے والے کو یا اعبدی یا اعبدی کہہ جواب دیتا ہے۔ وہ میرے اﷲ پا ک رحمان ورحیم رب کا دربار ہے۔

بادشاہ ایسے ہوتے ہیں کہ عوام سے بات تک نہیں کرتے۔ا ن کی کوئی بات نہیں سنتے ہیں۔لوگ بیچارے درخواستیں کر کر کے تھک جاتے ہیں مگر بے سود۔ مگر میرے رحیم رب کو تو قانون ہی نرالا ہے۔وہ تو خود لوگوں کو بلا بلا کے کہتا ہے کہ مجھے پکارو میں سنتا ہوں۔ مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا۔
لوگ خود بادشاہ کے دربا میں جانے کے لئے تڑپتے رہتے ہیں۔کہ ایک دفعہ ہم بادشاہ کے دربار میں پہنچ جائیں تو پھر ہماری بات بھی شہنشاہ تک پہنچ جائے گی۔لوگ بادشاہ تک پہنچنے کے لئے جوتیاں گھساتے رہتے ہیں۔مگر مغرور بادشاہ ان سے ملناگوارا نہیں کرتے۔

مگر ایک یہ بادشاہ ہے کہتا ہے جو میری طرف ایک قدم بھی بڑھائے میں دس قدم اس کی طرف بڑھاتا ہوں۔جو چل کر میرے پاس آنے کی کوشش کرے میں دوڑ کر اس کے پا س آتا ہوں۔لوگ جائیں یا نہ جائیں یہ خود لوگوں کے پا س جانے کیلئے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔

لوگوں کو بادشاہ سے کچھ مانگنا ہو تو لوگ دڑتے رہتے ہیں کہ بادشاہ سے مانگا تو کہیں ناراض نہ ہو جائے یا دینے سے انکار نہ کر دے۔لوگ مانگ بھی لیں توا نکو امید نہیں ہوتی کہ جو مانگا ہے وہ مل جائے گا ملے گا۔ مگر جناب عالی اس بادشاہ کا قصہ بھی سنیئے جس سے نہ مانگوتو ناراض ہوجاتا ہے۔اور ناراض کیوں نہ ہر چیز کا حقیقی وارث جو ہے۔دنیا کے بادشاہوں کے خزانے اپنے نہیں ہوتے اسلئے وہ دینے سے گھبراتے ہیں۔ یہ بادشاہ کہتا ہے مجھ سے مانگو میں عطار کروں گا اور عطا کی کوئی حد بھی نہیں۔ایک دفعہ نہیں ہزار دفعہ مانگو۔ہر روز آسمان دنیا پہ نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ کوئی ہے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔گویا یہ خود مانگنے والے کو ڈھونڈتا رہتا ہے۔

سب سے اہم بات اگر ان بادشاہوں کی ذرا سی نافرمانی کر و تو پھر عتاب شاہی کیلئے تیار ہوجاؤ۔حتی کہ آپ اگر معافی بھی مانگتے رہیں تو بھی ضروری نہیں کہ آپ کو معافی مل جائے۔

لیکن ایک یہ بادشاہ ہے۔جو کہتا ہے میں نے اپنے اوپر لکھ لیا ہے کہ میں اپنے بندوں پہ رحم کروں گا۔جو کہتا ہے تم نے آج تک جتنی بھی نافرمانیاں کی ہیں کوئی بات نہیں بس ندامت سے معافی مانگ لومیں سب گناہ معاف کر دوں گا۔ تمھارے ہر قسم کے گناہوں کیلئے معافی کا دروازہ کھلا ہے۔اس سے بھی زیادہ بڑی بات یہ ہے کہ ایک دفعہ کسی گناہ کی معافی مل بھی جائے تو اگر غلطی سے و دبارہ وہ گنا ہ ہوجائے تو دنیا کے بادشاہ تو آپ کو بھوکے شیر کے آگے ڈال دیں گے۔ مگر یہ کریم بادشاہ کہتا ہے کوئی مسئلہ نہیں ۔ تم نے ہزار دفعہ بھی اپنی توبہ توڑی ہے تو بھی گھبرانے کی ضرور ت نہیں بس اخلاص سے معافی مانگ لو میں سب معاف کردوں گا۔وہ کبھی طعنہ نہیں دیتا۔کبھی یہ نہیں کہتا ہے کہ اتنے دن کہا ں تھے؟اب یاد آئی تمہیں میری؟ نہیں،بلکہ کہتا ہے بس میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔

ساٹھ سال کی زندگی غفلت میں گزر جائے اور بندے آخری سانس سے پہلے اس سے معافی مانگ لے تو معاف کر دیتا ہے یہ نہیں کہتا ساٹھ سال سے کس خواب خرگوش میں پڑے تھے۔اتنی آسانی اور اتنی جلدی مان جاتا ہے مجھے تو سمجھ نہیں آتی بادشاہ ایسے ہوتے ہیں کیا ؟؟

اس کو بس ایک چیز چاہئے آپ سے۔ و ہ یہ کہ آپ اس سے محبت کریں۔وہ کہتا ہے میں اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں۔آپ اخلاص کے ساتھ اس کے ہوجائیں باقی کوئی مسئلہ نہیں۔انسان خطاء کا پتلا ہے۔خطاء کرنا کوئی مسئلہ نہیں مسئلہ مایوسی اور اس کی ذات پاک سے ناطہ توڑلینا ہے۔وہ کہتا ہے لا تقنطو من رحمت اﷲ۔یعنی میری رحمت سے مایوس نہ ہونا۔

وہ بادشاہ ہوکر مخلوق کی آواز سننے کیلئے بہتاب رہتا ہے۔وہ تو مغفر ت رحمت لے کے انتظار میں ہوتا ہے کہ کب کوئی بندہ مجھے سے عافیت طلب کرے اور میں اسے اپنی رحمت میں غرق کر دوں۔

توبہ کے حوالے سے ایک بہت خوبصورت حدیث آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ایک شخص کا اونٹ گم ہوگیا وہ بندہ نہائت غمزدہ تھا۔پھر اچانک اس کواپنا اونٹ مل گیا۔ تو وہ خوشی کی شدت سے چلا اٹھا کہ اے اﷲ تو میرا بندہ ہے میں تیرا خداہوں۔یہ الفاظ انتہائی سخت ہیں نہ صرف کفر بلکہ پرلے درجے کی گستاخی بھی ہیں۔مگر یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس نے یہ الفاظ شدت ِجذبات اوراضطراری حالت میں کہے اور اس حالت میں ایسے الفاظ منہ سے نکل جانے پرکفر لازم نہیں آتا۔ یہ شریعت کا قائدہ ہے۔ آپ عرب کی سرزمین اوراس دور کیحالات و قعات کے اعتبار سے یہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ان لوگوں کے لئے اونٹ کی کیا اہمیت ہوتی تھی۔ اونٹ کا گم ہوجاناایسے ہے جیسے آج کسی کی لینڈ کروزر چوری ہوجائے۔تو جب لینڈ کروزر مل جائے تو خود سوچیں بندے کی خوشی سے کیا حالت ہو گی۔ حضور پاک ﷺ نے اس موقعہ پہ فرمایا جب بندہ توبہ کرتا ہے تو اﷲ پاک اس بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔یہاں سے آپ اندازہ کر لیں کہ آپ کا رب آپ سے کتنا پیار کرتا ہے۔اور وہ کتنی شدت سے آپ کی توبہ کا منتظر رہتا ہے۔

ان بادشاہوں کے د ربار میں خادم سارا سارا دن موجود رہتے ہیں۔ہر وقت بادشاہ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔کسی کو تکلیف ہو یا نہ بادشاہ کی خدمت تو لازمی ہے۔ہر غلام کیلئے اسکے بلاوے پہ حاضرہونا لازم ہے۔
مگر یہ بادشاہ اپنے غلاموں کو زحمت میں ڈالتا۔یہ صرف پانچ دفعہ بلاتا ہے وہ بھی صرف چند لمحات کیلئے۔اور جو کسی بیماری یا تکلیف میں ہو اسکو رخصت بھی دیتا ہے۔

بادشاہ تو صرف حکم نامہ جاری کرنا جانتے ہیں انہیں اس بات کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ آپ وہ کام کر سکتے ہیں یا نہیں۔بلکہ بعض دفعہ تو بادشاہ کوئی بھی الٹا سیدھا حکم نامہ جاری کر کے اپنے وزیروں کی جان عذاب میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر یہ بادشاہ ایسا ہر گز نہیں کرتا۔یہ آپ کی طاقت سے زیادہ آپ پر بوجھ نہیں ڈالتا۔آپ کیلئے صرف وہ حکم ہے جو آپ کر سکتے ہیں۔

بادشاہ تو ایسے نہیں ہوتے جیسے ہمارا پیار رب ہے۔بادشاہ کا لفظ سن کر ذہن میں رعب،جلال،دبدبہ، ہیبت،جابر و قہارجیسے الفاظ ذہن میں آتے ہیں۔ ذرا سی نافرمانی پر سر قلم کر دینے والا،اپنی مرضی سے ہر الٹا سیدھاحکم جاری کرنے والا۔دولت کو سینچ سینچ کر رکھنے والاایک شخص ذہن میں آتا۔

یہ رحیم و رحمان، غفار،غفور، کریم، مجیب،عفو، رؤف، رزّاق، ،معطی ،رب، توا ب، سمیع وبصیر ۔یہ صفات بادشاہ کے لفظ کے ساتھ کچھ خاص ججتی نہیں ہیں۔ یقینا ہمارے پیارے رب کو بادشاہ بننا نہیں آتا۔۔۔

Hamid Raza
About the Author: Hamid Raza Read More Articles by Hamid Raza: 20 Articles with 19249 views i am Electrical in engineer with specialization in Power... View More