پھر آگئے ہیں گردشِ دَوراں کو ٹال کے

ہم تو ہمیشہ ہلکے پھلکے کالم ہی لکھتے رہے لیکن پتہ نہیں وہ کون سی گھڑی تھی جب ہم نے سیاسی تجزیہ نگاروں کے تجزیے پڑھ پڑھ کر سیاست کو مُنہ مارنے کا فیصلہ کر لیا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاست تو صرف نیوزچینلز اور اخباری خبروں تک محدود ہے ،وہ بھی اگر سٹارپلس کے ڈراموں سے فرصت ملے تو۔ دراصل ہمارے پاس کوئی چڑیا ،کوّا ،طوطا یا مینا تو ہے نہیں جو ہمیں اندر کی خبریں لا کر دیتی اور ہم بھی دیگر تجزیہ نگاروں کی طرح افلاطونی تجزیوں کی بھرمار کرکے قارئین پر’’ رُعب شُعب‘‘ ڈالتے۔ نہ ہی ہمارا ’’بزرگ لکھاری‘‘ کی طرح ’’کالمی درویشوں‘‘ سے کوئی رابطہ ہے جو اپنی الہامی کیفیات ہم پر منکشف کرتے اور ہم ’’کرامتانہ‘‘ کالم لکھ کر داد وصول کرتے ۔ہم نے تو بَس ’’ایویں ای‘‘ سَڑے بُسے سیاسی کالم لکھنا شروع کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے قارئین کی تعدادگھٹتی اور گالیاں بڑھتی گئیں۔ تب ہم نے کئی بار سوچا کہ ایسے کالموں سے توبہ ہی بھلی لیکن جب کہیں نہ کہیں سے ہمارے کانوں میں یہ آواز پڑتی کہ جس لکھاری کو جتنی زیادہ گالیاں پڑتی ہیں ،وہ اُتنا ہی زیادہ مقبول ہوتا ہے تو ہم پھر سیاست کے ’’گَٹر‘‘ میں اُتر جاتے ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ فی الحال ہمارے پاس گالیوں کا اتنا سٹاک جمع ہو گیا ہے کہ کپتان کے سارے جلسوں کی غیرپارلیمانی زبان اکٹھی کر لی جائے تو پھر بھی ہم جیت جائیں گے ۔اِس لیے اب ہم ہلکے پھلکے کالم ہی لکھا کریں گے ۔

سیاسی کالموں سے تو ہم توبہ کر چکے اِس لیے اب آگے چلتے ہیں ،لیکن ذرا ٹھہریے! ابھی ہم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسا فال نکالنے والا طوطا بھی نہیں،جیسا لال حویلی والے شیخ رشید کے پاس ہے۔ اِس لیے ہم یہ پیشین گوئی بھی نہیں کر سکتے کہ موجودہ حکومت کتنے دنوں کی مہمان ہے ،جے آئی ٹی کا کیا فیصلہ آنے والا ہے ، نوازلیگ اور عدلیہ کا کب ’’پھَڈا‘‘ پڑے گا ،امپائر کی انگلی کب کھڑی ہو گی اور کپتان کی وزارتِ عظمیٰ کتنے گز دور رہ گئی ہے۔ جب ہمیں پتہ ہی ’’کَکھ‘‘ نہیں تو پھر سیاسی کالم لکھنے کا فائدہ؟۔ اوہ ، ہاں ! لال حویلی والے سے یاد آیا کہ وہ جمعرات 8 جون کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بُرے پھنسے۔ ہوا یوں کہ نون لیگ کے ایک ’’گُلوبَٹ‘‘ نے شیخ صاحب کا بازو ایسا کَس کے پکڑا کہ شیخ صاحب جھٹکے پہ جھٹکا دیتے رہے ۔ نام نامی،اسمِ گرامی اِس شخص کا ملک نور اعوان ہے اور وہ مسلم لیگ نون جاپان کا صدر ہے ۔وہ گاڑیوں کے کاربار سے منسلک ہے اور اُس کا دعویٰ ہے کہ شیخ رشید نے 1998ء میں، جب وہ نوازحکومت میں وزیر تھے اور جاپان کے دَورے پر تھے تب اُس سے 22 لاکھ روپے کی گاڑی خریدی لیکن بار بار تقاضہ کرنے کے باوجود شیخ رشید نے رقم ادا نہیں کی ۔ٹوکیو سے عرفان صدیقی نے اِس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’ جب شیخ رشید ،میاں نوازشریف حکومت میں وزیر تھے ،تب اُن کے دَورۂ جاپان کے موقع پر پارٹی کارکنوں نے اُنہیں لاکھوں روپے کے تحائف دیئے ۔شیخ رشید کی فرمائش پر اُس وقت کے نون لیگ کے صدر شیخ قیصر محمود نے ملک نور اعوان کے ذریعے یہ گاڑی خرید کر شیخ صاحب کے سپرد کی ۔شیخ صاحب نے گاڑی پاکستان پہنچنے سے قبل پیسے ادا کرنے کا وعدہ کیا لیکن گاڑی جاپان سے روانہ ہونے کے بعد تا حال رقم ادا نہیں کی‘‘ ۔شیخ قیصر محمود کے مطابق جب تک شیخ رشید نون لیگ کے رہنماء تھے ،اُن سے رقم کا تقاضا نہیں کیا گیا لیکن شیخ صاحب کے نون لیگ چھوڑنے کے بعد ملک نور اعوان کئی بار اِس رقم کا تقاضا کر چکے ہیں۔

اِس ساری کہانی سے کم از کم یہ تو کھُل کر سامنے آ گیا کہ ملک نوراعوان واقعی نون لیگ کا گُلوبَٹ ہے، جس نے پارلیمنٹ کے احاطے میں شیخ صاحب کی پگڑی اچھالنے کی ’’مذموم‘‘ کوشش کی اور اگر شیخ صاحب ہاتھ چھڑوا کر پارلیمنٹ کے اندر ’’دُڑکی‘‘ نہ لگا جاتے تو پتہ نہیں ’’گُلوبَٹ‘‘ اُن کا کیا حشر کرتا۔ اِسی لیے شیخ رشید نے کہا ہے ’’اگر مجھے نقصان پہنچا تو نوازشریف اور شہباز شریف ذمہ دار ہوں گے۔ یہ لوگ میری سچائی اور عمران خاں سے اتحاد سے خوفزدہ ہیں ۔یہ سب ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے‘‘۔ ملک نوراعوان نے کہا کہ اگر شیخ رشید سچا ہے تو مسجد میں جا کر حلف دے دے ۔ملک نور اعوان کی اِس ’’حرکت‘‘ پر اراکینِ پارلیمنٹ لال ، پیلے ،نیلے اور پتہ نہیں کیا کچھ ہو گئے ۔سب نے بیک زبان اور بیک آواز کہا ’’ارکانِ پارلیمنٹ کی عزت پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ ہم کہتے ہیں کہ عزت تو ہوتی ہی ارکانِ پارلیمنٹ کی ہے ،باقی سب تو کیڑے مکوڑے ہیں ،اِن کی بھلا کیا عزت؟۔ اِس لیے بہت اچھا ہوا جو سپیکر صاحب کے حکم پر ملک نور اعوان کو تھانہ سیکرٹریٹ میں بند کر دیا گیا ۔دوسری بات یہ کہ جب ملک نور نے شیخ صاحب کو گاڑی دی تو اُس وقت وہ نون لیگ کے ’’وزیر شزیر‘‘ تھے اِس لیے ہو سکتا ہے کہ شیخ صاحب نے گاڑی کو بھی دیگر تحائف کی طرح تحفہ ہی سمجھا ہو ۔ویسے بھی 8 وزارتیں بھگتانے والے شیخ صاحب تحفے تحائف وصول کرنے کے شوقین ہی بہت ہیں اور آخری بات یہ کہ شیخ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا ۔ رانا ثنا اﷲ کہتے ہیں کہ نون لیگ میں آنے سے پہلے شیخ رشید کو لوگ ’’شیدا ٹَلّی ‘‘ کہتے تھے جو ایک نمبر کا دھوکے باز ہے ۔ اُنہوں نے کہا ’’مجھے یقین ہے کہ ملک نور اعوان سچّا ہے ‘‘۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ شیخ صاحب گاڑی کی قیمت ادا نہیں کریں گے اور ملک نور اعوان اُن کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر میاں برادران کے اندر ’’معافی شافی ‘‘ کی گنجائش ہوتی تو معاملہ حل ہو سکتا تھا ۔وہ یوں کہ شیخ صاحب پھر سے نوازلیگ جوائن کر لیتے اور ملک نوراعوان اُن کا ’’کھَیڑا‘‘ چھوڑ دیتے لیکن نواز لیگ کا دَر ہر شخص کے لیے کھُلا ہے ،سوائے شیخ رشید اور چودھری برادران کے۔ملک نور اعوان اب ضمانت پر رہا ہو چکا ہے ۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس کے پاس مکمل ثبوت موجود ہیں اور وہ سپریم کورٹ تک جائے گا۔ ہم شیخ صاحب کو مشورہ دیں گے کہ وہ لال حویلی کے سامنے پھَٹّہ لگا کر فال نکالنے کا دھندا شروع کر دیں ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک دو ،چار سال تو لگ ہی جائیں گے ۔ اِس دوران ہو سکتا ہے کہ وہ بائیس لاکھ اکٹھے کرکے اپنی جان چھڑا لیں ۔

ہم نے چونکہ تازہ تازہ سیاسی کالم لکھنے سے توبہ کی ہے اِس لیے ہمارے قلم سے کوئی سیاسی بات نہیں نکل رہی۔ ہم نے تو دراصل آج خوفناک مہنگائی پر کچھ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تھا لیکن سارا کالم ہی تمہید کی نذر ہو گیا۔ اب جو چند سطور بچی ہیں اِن میں مہنگائی کے عفریت کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمارا پروگرام تو اسحاق ڈار کے تازہ بجٹ کو بھی ’’رَگڑا‘‘ دینے کا تھا لیکن وہ پھر کبھی ، ابھی صرف مہنگائی ۔ ہوا یوں کہ ہم نے افطاری پر فروٹ چاٹ بنانے کے لیے اپنے ڈرائیور کو 500 روپے دے کر فروٹ لانے کو کہا ۔جب وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں ایک ننھا مُنا سا شاپر تھا جسے دیکھتے ہی ہمارا پارہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا ۔اُس شاپر میں ایک آم ،ایک سیب ،تین آڑو ،چار خوبانی اور تین کیلے تھے ۔ ہم نے ڈرائیور کو گھورتے ہوئے پوچھا ’’یہ کیا ؟‘‘۔ اُس نے کہا’’ میڈم! اتنے پیسوں میں اتنا کچھ ہی آتا ہے اور وہ بھی لَڑ جھگڑ کے‘‘۔ شدتِ عطش سے ہماری زبان سوکھ کے کانٹا ہو رہی تھی ،افطاری میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت بچا تھا ،اِس کے باوجود بھی ہم نے خود بازار جانے کا فیصلہ کر لیا ۔فروٹ شاپ پہ پہنچے تو پھلوں کی قیمتیں پوچھ کر ہمارے چودہ کیا اٹھارہ طبق روشن ہو گئے۔ ہم نے دُکاندار کو مخاطب کرکے کہا ’’لگتا ہے کہ ایک دفعہ پھر پھلوں کا بائیکاٹ کرنا پڑے گا‘‘۔مغرور و متکبر دُکاندار نے مُنہ ٹیڑھا کرکے کہا ’’پہلے آپ لوگوں نے بائیکاٹ کرکے کون سا میدان مار لیا ہے ،اب ایک دفعہ پھر اپنا شوق پورا کر لیں‘‘۔ اور ۔۔۔۔ اور ہم اپنا سا مُنہ لے کے رہ گئے۔
 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 863 Articles with 553067 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More