اسلام کا پہلا معرکۂ حق وباطل اورفتح مبین - غزوہ ٔ بدر

 12رمضان المبارک 2 ہجری کومسلمانوں کو اطلاع ملی کہ شام سے ابو سفیان ایک بڑاتجارتی قافلہ لے کر آ رہاہے اس کا علم جب حضور ﷺ کو ہوا تو اﷲ کے رسول ﷺ نے مکہ کے کافروں کی معاشی کمر توڑنے کیلئے اس تجارتی قافلے کواپنے کنٹرول میں لینے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنے کا عزم فرما لیا ،مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو ضمناً فرمایا کہ اس تجارتی قافلہ پر قابو پانے کیلئے فوری تیاری کریں ،313صحابہ کرامؓ نے رسول اﷲ ﷺ کی معیت میں اس تجارتی قافلے کو کنٹرول کرنے کیلئے رخت سفرباندھا، ان میں سے 82 مہاجر اور باقی انصار تھے ۔پھر انصار میں سے 61اوس قبیلہ سے تھے جبکہ 170 قبیلہ خزرج سے تھے ۔اسلامی لشکر جنگ کیلئے ہرگز تیار نہیں تھا ،اس مہم جوئی کامقصد قافلے کواپنے کنٹرول میں کرنا تھا اس لئے سارے لشکر میں 2گھوڑے (ایک زبیر بن عوام ؓ کا اور دوسرا حضرت مقدادؓکا)اور 70اونٹ تھے ۔اﷲ کے رسول ﷺ نے مدینہ منورہ کا انتظام اور نماز کی امامت حضرت ابن ام مکتوم ؓ کو سونپی لیکن مقام روحا پر پہنچ کر آپ ؓ نے حضرت ابو لبابہ بن عبد المنذر ؓ کو مدینہ کا منتظم بنا کر واپس کر دیا ،اس لشکر کے دو گروپ بنائے گئے ایک مہاجرین کا جس علم حضرت علیؓ کے پاس تھا جبکہ ایک انصار کا جس کا علم حضرت سعد بن معاذ ؓ نے تھاما ہواتھا جنرل کمان کا سفید پرچم حضرت مصعب بن عمیر عبدری ؓ کو دیا گیا،میمنہ کے افسر حضرت زبیر بن عوام ؓ مقرر کئے گئے اور میسرہ کے افسر حضرت مقداد بن اسود ؓ ۔ساقہ کی کمان حضرت قیس ؓ بن ابی صعصعہ کے حوالے کی گئی اور نبی ٔ کریم ﷺ نے خود سالار اعلیٰ کی حیثیت سے کمان بنفس نفیس سنبھالی۔

رسول اﷲ ﷺ نے بدر کی جانب پیش قدمی فرمائی،دوسری طرف ابوسفیان کو اطلاع موصول ہو گئی کہ مدینہ سے نبی ٔ کریم ﷺ کی قیادت میں لشکر قافلے پر حملہ آور ہونے والا ہے تو ابو سفیان نے فوراً ضمضم بن عمرو غفاری کو اجرت دے کر مکہ بھیج دیا کہ وہاں جا کر قافلہ کی حفاظت کیلئے قریش میں نفیر عام کردے ،ضمضم نہایت تیز رفتاری سے مکہ آیا اور دستور عرب کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر ی،کجاوہ الٹا ،کرتا پھاڑا اور وادیٔ مکہ میں اسی اونٹ پر کھڑا ہو کر آواز لگانے لگا کہ اے مکہ والو تم اپنے قافلے کو بچانے کیلئے نکلو ،محمد ﷺ تمہارے تجارتی قافلے پر دھاوا بولنے جا رہے ہیں۔اہل مکہ نے فوری جنگ کی تیاری کر لی ،مکی لشکرکی تعداد 1300 تھی جن میں 100 گھوڑے ،600زرہیں اور اونٹ کثرت سے تھے ،ہر قبیلہ سے لوگ اس مکی لشکر میں شامل تھے کیونکہ تقریباً سب کا مال اس میں تھا ۔اس لشکر کا سالار ابوجہل بن ہشام تھا ۔مکی لشکر بڑے غرور وتکبر کے ساتھ مکہ سے روانہ ہو ا۔مکی لشکر وادی ٔ غسان اور قدیہ سے جحفہ پہنچا تو ابو سفیان کا ایک نیا پیغام انھیں موصول ہواکہ آپ لوگ اپنے قافلے کی غرض سے نکلے ہیں چونکہ اﷲ نے ان سب کو بچا لیا ہے لہٰذا اب واپس چلے جائیں۔ مکی لشکر نے واپسی کا ارادہ کیا تو امت مسلمہ کا فرعون ابوجہل آگ بگولا ہو کر نہایت غرور اور تکبر سے کہنے لگا اﷲ کی قسم ! ہم واپس نہ جائیں گے جب تک بدر جا کر تین روز قیام نہ کرلیں اور اس دوران انٹ ذبح کریں گے ۔لوگوں کو کھانا کھلائیں گے شراب پئیں گے اور لونڈیاں ہمارے لئے گائیں گی اور سارا عرب اور ہمارے سفرواجتماع کا حال سنے گا اور اس طرح ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔

بنو زہرہ اور بنو ہاشم نے واپس جانے کا ارادہ کیا بنو زہرہ کے 300 لوگ واپس ہو گئے بنو ہاشم کے بارے میں ابوجہل نے کہا کہ یہ گروہ اس وقت تک واپس نہیں جائے گا جب تک ہم واپس نہیں جائیں گے ۔اب ابوجہل کی قیادت میں 1000 مشرکین کالشکر بدر کی جانب چل دیا بدر کے قریب جا کر اس لشکر نے ایک ٹیلے کی پیچھے پڑاؤ ڈالا ۔یہ ٹیلہ وادیٔ بدر کے حدود سے جنوبی دہانے کے پاس واقع ہے۔مدینہ کے ذرائع ابلاغ نے رسول اﷲ ﷺ کو تجارتی قافلے اورمشرکین لشکر دونوں کے متعلق معلومات فراہم کردیں اسوقت آپ ﷺ وادیٔ ذفران سے گزر رہے تھے ۔ان اطلاعات پر نبی ٔ کریم ﷺ نے گہری نگاہ دوڑائی جس کا حاصل یہ تھا کہ ایک خون ریز لڑائی ہو کر رہے گی ۔بصیرت نبوت اب سمجھ گئی کہ مسلمانوں کو جرات وبہادری سے کام لیتے ہوئے فیصلہ کن معرکہ سرکرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔حالات کا رخ بدلتا پا کر اﷲ کے رسول ﷺ نے اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب فرمالیا۔جب اﷲ کے رسول ﷺ نے پیش آمدہ حالات کا تذکرہ فرمایا تو ایک گروہ خون ریز ٹکراؤ کا نام سن کر کانپ اٹھااور اس کا دل لرزنے لگا،اسی گروہ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جیسا کہ تجھے تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا اور مومنین کا ایک گروہ ناگوار سمجھ رہا تھا ۔وہ تجھ سے حق کے بارے میں اس کے واضح ہو جانے کے بعد جھگڑرہے تھے گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔

جب مشورہ طلب کیا گیا تو حضرت ابو بکر ؓ،حضر ت عمر ؓ اور پھر حضرت مقدادبن عمرو ؓ اٹھے اور جنگ کے حق میں جرات مندانہ رائے دی ۔ان تینوں مقدس ہستیوں کی رائے کے بعد پھر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا اے میرے صحابہ ؓ مزید رائے دو۔مزید مشورہ طلب کرنے کا اشارہ انصار کی طرف تھا کیونکہ پہلے تینوں رائے دہندگان مہاجر تھے اور لشکر اسلام میں مہاجرین کی تعداد کم اور انصار کی زیادہ تھی ۔اﷲ کے رسول ﷺ انصار ؓ سے بھی رائے لینا پسند فرما رہے تھے،یہ بات انصار کے کمانڈر حضرت سعد بن معاذ ؓ نے بھانپ لی ،چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اے اﷲ کے رسولﷺ! آپ ﷺ کا روئے سخن ہماری طرف ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ۔انہوں نے عرض کیا کہ ہم آپ ﷺ پر ایمان لائے ہیں ،آپ ﷺ کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ ﷺ جو کچھ لیکر آئے ہیں سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپ ﷺ کی سمع وطاعت کا عہد ومیثاق کیا ہے ،لہٰذا اے اﷲ کے رسولﷺ!آپ کا جو ارادہ ہے اس کیلئے پیش قدمی فرمائیے اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ ؐہمیں لیکر سمندر میں بھی کود پڑیں گے ہمارا ایک آدمی بھی پیٹھ نہیں پھیرے گا ،آپ دشمن کے ساتھ ٹکرا جائیں ،ہم جنگ لڑیں گے اور ممکن ہے اﷲ آپ ؐ کوہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپ ؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں ۔حضرت سعد ؓ کی ایمان افروز گفتگوسن کر حضور ﷺ خوش ہوگئے ۔اور آپ ؐ نے فرمایا خوشی سے چلو اﷲ نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کا وعدہ فرمایا ہے ۔واﷲ میں اس وقت گویا قوم(مشرکین مکہ) کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں ۔ذفران سے بدر کی طرف رخت سفر باندھا اورمطلوب مقام پرپہنچ کر بدر کے قریب قیام فرمایا ۔جنگ سے پہلی رات لشکرمشرکین کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی گئیں ۔ لشکرمشرکین میں شامل ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابو البختری بن ہشام،حکیم بن حزام،امیہ بن خلف اور مزید لوگوں کے ناموں کا پتا چلا تو حضورﷺ نے صحابہ کرام ؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ مکہ نے اپنے جگر گوشوں کو تمہارے حوالے کر دیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے اسی رات مسلمانوں پربارش فوار کی صورت میں نازل فرمائی جبکہ کفار پر موسلادار بارش ہوئی اس سے ان کی پیش قدمی رک گئی ،مسلمانوں پر پھوار پڑھنے سے اﷲ نے انھیں شیطان کی گندگی سے پاک کر دیا ،بزدلی دور کردی ،اور ریتلی زمین ہموار کردی،دل مضبوط ہو گئے ۔جنگ سے قبل مرکز قیادت شمال مشرق کی جانب اونچے ٹیلے پر ایک چھپر کی صورت میں بنایا گیا جس میں حضور ﷺ نے قیام فرمایا۔اس چھپر سے پورا میدان جنگ نظر آتا تھا ۔اس مرکز کی نگرانی کیلئے حضرت سعد بن معاذ ؓکی کمان میں انصاری نوجوانوں کا ایک دستہ منتخب کردیا گیا۔

آپ ﷺ نے لشکر کی ترتیب فرمائی اور میدان جنگ میں تشریف لے گئے ،وہاں اپنے ہاتھ کے اشاروں سے فرماتے جا رہے تھے کہ یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے ،انشاء اﷲ ،اور یہ کل فلاں کی قتل گاہ ہے انشاء اﷲ(مسلم،مشکوۃ)

یہ جمعہ 17رمضان 2ہجری کی رات تھی جسے صحابہ کرام ؓ نے نبی ؐ کی بشارتوں کے بعد پرسکون طریقے سے گزارا،قرآن مجید اس پر تبصرہ کرتا ہے کہ جب اﷲ تم پر اپنی طرف سے امن و بے خوفی کی نیند طاری کررہا تھا اور تم پر آسمان سے بارش برسا رہا تھا تاکہ تمہیں اس کے ذریعے پاک کردے اور تم سے شیطان کی گندگی دور کردے اور تمہارے دل مضبو ط کردے اور تمہارے قدم جما دے۔ (11:8 )

جنگ سے قبل لشکر مشرکین کے دور بین دوشخصیات حکیم بن حزام اور عتبہ بن ربیعہ نے جنگ رکوانے کیلئے ابوجہل کی طرف رجوع کیا ۔اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ نے کھڑے ہوکر ایک تقریر کی جسے تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کرلیا عتبہ نے کہا کہ اے قریش کے لوگو! تم لوگ محمد ؐ اور ان کے ساتھیوں سے جنگ کرکے کوئی کارنامہ انجام نہیں دو گے ،کیونکہ ہر آدمی نے اپنے چچرے اور خالہ زاد بھائی کو قتل کیا ہوگا یا اپنے ہی کنبے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کیا ہوگا ،اس لئے واپس چلو اور محمد ﷺ اور سارے عرب سے کنارہ کش ہو رہو،اوراگردوسری صورت پیش آئی تو محمد(ﷺ)تمہیں اس حالت میں پائیں گے کہ تم نے جو سلوک ان سے کرنا چاہا تھا اسے کیانہ تھا۔حکیم بن حزام نے ابوجہل کے پاس جا کر کہا کہ اے ا بو الحکم !مجھے عتبہ نے تمہارے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ جنگ کا ارادہ ترک کردو تو ابوجہل نہ مانااور جنگ کرنے پر بضد رہا ،اس کے بعد دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے تو رسول اﷲ ﷺ نے اﷲ کے حضور مدد طلب فرمائی۔اس غزوہ میں اسود بن عبدالاسد مخزومی پہلا شخص تھا جو جہنم کا ایندھن بناجسے حضرت حمزہ ؓ نے قتل کیا۔اس کے بعد قریش کے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے تین شہسوارعتبہ،شیبہ اور ولید بن عتبہ مقابلے میں نکلے تین انصاری معوذبن حارثؓ،عوف بن حارثؓ اور عبداﷲ بن رواحہ نکلے ،قریشیوں نے کہا کہ ہمارے مقابلے میں چیچرے بھائی آئیں ۔پھر ان کے منادی نے آواز دی :محمد (ﷺ)۔۔۔۔۔۔!ہمارے ساتھ لڑنے کیلئے ہمارے ہمسر بھیجو۔رسول اﷲ ﷺ نے عبید ہ بن حارث ؓ،حمزہؓ اور علیؓ سے فرمایا کہ مقابلہ کیلئے نکلوحضرت عبیدؓ ہ نے عتبہ بن ربیعہ کا ،حضرت حمزہؓ نے شیبہ کا اور حضرت علیؓ نے ولید کا مقابلہ کیا تینوں لشکرمشرکین کے جنگجوؤں کو قتل کردیا گیا ،حضرت عبیدہ ؓ کا پاؤں مقابلہ کے دوران کٹ گیا۔اب عام حملہ شروع ہوگیا سخت رن پڑا ،

اس صورت حال کے پیش نظر رسول اﷲ نے ﷺ اﷲ کے حضوردعا کیلئے ہاتھ اٹھا دئیے اور فرمایا کہ اے اﷲ !تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما۔اے اﷲ !میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں ،پھر جب گھمسان کا رن پڑا اور لڑائی شباب پر آگئی تو آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اﷲ !اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔اے اﷲ !اگر تو چاہے آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے ۔

ان دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان الفاظ میں مدد کا وعدہ فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ،تم اہل ایمان کے قدم جماؤ،میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا۔(12:8 )ایک اور خوشخبری دی گئی کہ میں ایک ہزار فرشتوں کو تمہاری مدد کروں گاجو آگے پیچھے آئیں گے(9:8 )۔

اﷲ کے رسول ﷺ نے خوشی سے فرمایا ابوبکرؓ خوش ہو جاؤ تمہارے پاس اﷲ کی مدد آگئی۔پھر آپ ﷺ چھپر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ عنقریب یہ جتھہ شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے گا۔اس کے بعد آپ ؐ نے ایک مٹھی کنکریلی مٹی لی اور قریش کی طرف پھینکی اور فرمایاکہ چہرے بگڑ جائیں یہ مٹی سب کافروں کی آنکھوں ،منہ نتھنوں میں سے کسی ایک میں ضرور داخل ہوئی ۔اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ ڈٹ کر لڑو جو مارا جائے گا اﷲ اسے ضرور جنت میں داخل فرمائے گا ۔حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کو فرشتوں کی مدد سے قید کیا گیا جس کا بعد میں انہوں نے اعتراف بھی کیا۔ابلیس سراقہ بن جعشم کی شکل میں لشکرمشرکین کے ساتھ تھاجو فرشتوں کو دیکھ کر بھاگ گیا صحابہ کرام ؓ کے تابڑ توڑ حملوں سے شکست کے آثار کفار کو صاف نظر آنے لگے ایسے وقت میں بھی ابوجہل اپنے لشکر کی ہمت قائم کرنے اسے لکارنے میں لگا تھا اسی دوران معوذ اور معاذ دو چھوٹے بچوں نے طاغوت اکبرابوجہل کوجہنم واصل کیا۔اس غزوہ کو فتح مبین کے نام سے موسوم کیا گیا،14صحابہ کرام ؓ اس غزوہ میں شہیدہوئے جن میں 6 مہاجر 8 انصار تھے ،مشرکین کے 70 آدمی جہنم واصل ہوئے اور 70 قید ہوئے جو قائد،سردار اور بڑے بڑے جبوں کبوں والے تھے۔

جب مکہ میں شکست کی خبر لیکر حیسمان بن عبداﷲ حزاعی گیا تو اس نے عتبہ،شیبہ،ابوالحکم،امیہ وغیرہ کے قتل اور شکست کی خبر دی تو مکہ میں ماتم کا سماں ہوگیا،جبکہ مدینہ منورہ میں فتح کی خوشخبری پہنچانے کیلئے رسول اﷲ ﷺ نے دو قاصد حضرت عبداﷲ بن رواحہ ؓ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ کو مدینہ بھیجا ۔جب فتح کی خبر مدینہ پہنچی تومنافقین کی جھوٹی خبریں دم توڑ گئیں ۔رسول اﷲ ﷺ نے تین روز بدر میں قیام فرما کر مدینہ کی طرف چل پڑے،وادیٔ صفرا ء میں حکم پیغمبرؐ کو پورا کرتے ہوئے قیدی،لشکر مشرکین کے علمبردارنضر بن حارث( جوکہ رسول اﷲ ﷺ کے بڑے دشمنوں میں سے تھا) کا سر تن سے جدا حضرت علیؓ نے کیا ،عرق الظبیہ پہنچے تو عقبہ بن ابی معیط کی گردن حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ نے ماری ،اس کے بعد روحا پہنچے تو مسلمان سربراہوں سے ملاقات ہوئی جو قاصدوں سے فتح کی خوشخبری سن کر مبارک باد دینے کیلئے چل پڑے تھے۔جب آپ ؐ مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں کے دھاک دیکھ کر رئیس المنافقین عبداﷲ ابن ابی اور اس کے ساتھیوں نے بھی دکھاوے کیلئے اسلام قبول کیا۔آپؐ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کے ایک دن بعد قیدیوں کی آمد ہوئی ۔آپ ؐ نے انھیں صحابہ کرام ؓ پر تقسیم فرما دیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔

غزوہ ٔ بدر کی فتح مبین پر قرآن مجید فرقان حمید اس طرح تبصرہ کرتا ہے کہ اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے ،زمین میں کمزور بنا رکھے گئے تھے،ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے نہ جائیں ،پس اس نے تمہیں ٹھکانا مرحمت فرمایااور اپنی مدد کے ذریعے تمہاری تائید کی اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی دی تاکہ تم لوگ اس کا شکر ادا کرو۔ ( 26:8 )

کروڑوں،اربوں سلام ہو نبی ٔ کریم ﷺ اور آپ کے جانثار صحابہ کرام ؓ اور اہل بیت عظام ؓپر جنھوں نے اپنے خون مقدس سے شجر اسلام کی آبیاری کی۔

Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.