’غزوہ بدر‘17رمضان المبارک،حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ

(دو سال قبل مجھے مدینہ منورہ سے واپسی پر بدر کے میدان پر حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ یہ مضمون میں نے ’سفر نامہ بدر ‘ کے طور پر تحریر کیا تھا۔ آج 17رمضان المبارک ہے ، آج ہی کے دن حق و باطل کے درمیان یہ معرکہ ہوا جس میں حق کو فتح نصیب ہوئی، اس کی اہمیت اس اعتبار سے اور بھی اہم ہے کہ اس معرکہ سے کفار کی صفوں میں صف ماتم بچھ گئی اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے اور اسلام ایک عظیم قوت بن کر ابھرا۔ مسلمانوں کے لشکر کی قیادت نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے کی اور کفار کی کمان ابو جہل کر رہا تھا۔ ابو جہل کو دوکم عمر بچوں ’معوذ اور معاذ‘نے ابو جہل کی آنکھوں میں ایسا تیر کا نشانہ لگایا کہ اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا ۔ عبد اللہ بن مسعودؒ نے اس کا سر تن سے جدا کرکے رسول اکرم ﷺ کے قدموں میں لا ڈالا۔ غزوہ بدر کو ہوئے چودہ سو سال ہوچکے لیکن یہ غزوہ اسلامی تاریخ میں یاد گار اور زندہ جاوید ہے۔

جنگِ بدرکے میدان میں چند لمحات
آج کا دن(اتوار3مئی 2015) میری زندگی کا خوش نصیب دن ہے جسے میں کبھی بھلا نہ سکوں گا۔ مِیں گزشتہ دو روز سے مدینہ میں تھا آج جدہ واپسی تھی۔ ہوٹل حرم شریف کے نذدیک ہی تھا میں صبح تین بجے مسجد نبوی چلاگیا، رسول اﷲ ﷺ کے روضہ مبارک پر حاضری دی اور سلام عرض کیا، اس وقت لوگ کچھ کم تھے جس وجہ سے مجھے ریاض الجنہ میں آسانی سے جگہ مل گئی، دو رکعت نفل ادا کی ، استغفار اور دعائیں کیں، اپنے لیے بھی ، اوروں کے لیے بھی ، نماز کے بعد جب بھی بائیں جانب سلام پھیرتا تو روضہ رسول ﷺ نظروں کے سامنے ہوتا، اسی جگہ بیٹھے بیٹھے تہجد کی اذان ہوگئی، تہجد پڑھی اور یہی ٹکا رہا، اذانِ فجرہوگئی ، فجر کی جماعت میں شریک رہا، بعد میں کسی خوش نصیب کی نماز جنازہ بھی اسی مقدس مقام پر ہی پڑھی ۔ نصیب اور سعادت کی بات ہے۔ میری قسمت میں یہ سعادت لکھی تھی سو مجھے ملی۔ اب جنت البقیع کا رخ کیا دروازہ کھل چکا تھا ۔ لوگ جوق در جوق بقیع جارہے تھے، میں بھی ان میں شامل ہوگیا، تمام اہل قبور کو سلام عرض کیا، جن جن کی قبروں کا علم تھا ، یا وہاں موجود لوگ نقشوں کے ذریعہ بتا رہے تھے کہ یہ فلاں کی قبر ہے ، یہ فلا کی، خاص طور پر حضرت عائشہ صدیقہؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضور ﷺ کے ننھے صاحبزادے ابراہیمؓ اور دیگر کی قبروں پر کچھ دیر قیام کیا اور فاتحہ پڑھی ، ہوٹل واپسی ہوئی۔ آج ہی جدہ روانگی تھی، راستے میں جنگ بدر کے میدان کی زیارت کرنا تھی۔ دوپہر بارہ بجے مدینہ سے ینبوجانے والے راستے سے بدر کے مقام کے لیے روانہ ہوئے۔دونوں جانب پہاڑہی پہاڑ۔ بدر سے کوئی پانچ کلو میٹر پہلے’ راکا‘ پر کچھ دیر رکے،یہاں ایک مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی اس کے بعد بدر کی جانب روانہ ہوئے۔ دوپہر اپنی جولانی دکھارہی تھی۔ خاموشی تھی لیکن سکون اور اطمینان کی فضاء نے ماحول کو خوش گوار بنایا ہوا تھا۔ گرمی کی شدت تھی پھر بھی ٹھنڈنک کا احساس ہورہاتھا ، گرم ہوا چل رہی تھی لیکن سرور کی کیفیت طاری تھی، نہ آدم نہ آدم زاد، بدر کے چاروں جانب کئی کئی منزلہ رہائشی مکانات ہیں اس وقت سارے مکین اپنے اپنے گھروں میں تھے ، اس کی وجہ یقیناًگرم موسم ہی تھا ۔اس جگہ اجنبی ہونے کے باوجود خوف کا احساس نہیں تھا،میدانِ بدر سورج کی روشنی سے منور و روشن تھا ،چاروں جانب اونچے اونچے مکانوں پر چبھتی ہوئی دھوپ نے نور بکھیرا ہواتھا۔میں نے اپنی سالا زندگی میں کسی ایسی جگہ کو جہاں اس قدرسکوت طاری ہو، ہو کا عالم ہو، قبروں کے ماحول میں پہلی بار اجنبی کی حیثیت سے قدم رکھا ہو اس کے باوجود ڈر و خوف دور دور نہ ہو۔اس کی وجہ جو مجھے سمجھ آئی وہ شہدائے بدر ہیں جو یہاں ابدی نیند سو رہے ہیں، نبی اکرم حضرت محمد ﷺ اور صحابہ اکرام جنہوں نے غزوہ بدر حصہ لیاتھا کا اس میدان میں اپنی موجودگی عطا کرنا تھا، ان کے قدم مبارک اس زمین پڑے تھے،اس جنگ میں اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد و نصرت چاہتا تھا جس کے لیے اﷲ نے کفار سے مقابلے کے وقت فرشتوں کو میدان میں بھیجا ۔ یہی فیوض و برکات ہیں کہ ہم اس وقت جب کہ ہر جانب خاموشی ہے، سنناٹا ہے، ہم اجنبی ہوتے ہوئے بھی اپنائیت محسوس کر رہے ہیں۔

شریک سفر لوگوں میں شہناز(شریک حیات)، بیٹا عدیل، بہو مہوش، پوتا صائم اور پوتی حبیبہ تھے۔ہم اس وقت اس متبرک اور تاریخی مقام جنگِ بدر کے میدان میں موجود ہیں، میری نظروں کے سامنے شہدائے بدر کی قبریں ہیں، دوسری جانب اسی میدان میں کوئی ڈھائی فٹ چوڑی کچی مٹی کی اونچی اونچی دیواریں پاس پاس موجود ہیں جن میں جگہ جگہ سوراخ بھی نظر آرہے ہیں۔ انہیں مورچے ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ اس جگہ گھروں کا بنا نا تو سمجھ میں نہیں آتا، جنگی ضرورت کے تحت ممکن ہے کہ دیوروں کو مورچے کی حیثیت سے استعمال کیا گیا ہو۔ یہ ہے اِس وقت کا بدر کا میدان۔ میدان کو چاروں جانب سے ایک اونچی دیوار نے اپنے حسارمیں لیا ہوا ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے میدان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے یہ دیوار بنا دی گئی ہے۔ اندر جانے کے لیے ایک دروازہ بھی نظر آرہا ہے جو اس وقت بند ہے۔کوئی محافظ ، چوکیدار جسے یہاں حارث کہا جاتا ہے موجود نہیں ، پولس کا کوئی کارندہ جسے یہاں شرطہ کہا جاتا ہے دکھائی نہیں دے رہا ۔ دیوار کے باہر کئی جگہ لوگوں نے اس میدان اور شہداء کی قبروں کی زیارت کرنے کی غرض سے اوپر نیچے کچھ اینٹیں رکھ دی ہیں ۔ جن پر چڑھ کر دیوار کے اوپرسے میدان کے اندر کا نظارہ بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔ اس جگہ اور مقام کی حرمت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ یہاں اندر جانے کے لیے ہما وقت انتظام ہوتا، سعودی عرب کے قبرستانوں میں لوگوں کے لیے دھوپ سے بچاؤ کے لیے سائیابان بنے ہوئے ہیں، پانی کے چھوٹے چھوٹے گلاس ڈی فریزروں میں موجود ہوتے ہیں لیکن یہاں اس سہولت کا فقدان کیوں؟ ہم مدینہ سے دو گھنٹے کا طویل سفر کر کے صرف اور صرف اس میدانِ مبارک کی زیارت کرنے، شہدائے بدر کو سلام عرض کرنے ہی تو آئے تھے، ہماری طرح بے شمار لوگ ہر روز یہاں آتے ہیں۔ اب ہماری بھی مجبوری تھی ہم نے بھی یہی طریقہ اختیار کیادیوار کے باہر رکھی اینٹوں پر چڑھ کر میدان بدر میں موجود تاریخی و متبرک ورثے اور شہدائے بدر کی قبروں کی زیارت کی ، انہیں سلام عرض کیا ۔ اس سے قبل گاڑی میں بیٹھے بیٹھے میدان کے چارو جانب چکر بھی لگایا ۔ خیال تھا کہ کوئی راستہ نظر آجائے گا تو اس سے اندر جاکر جی ٹھنڈا کریں گے لیکن یہاں کی صورت حال دیکھ کر دکھ ہوا ، ہر ملک و قوم اپنے تاریخی ورثہ کی حفاظت کیا کرتی ہے۔ جہاں چلے جائیں تاریخی مقامات، تہذیب و ثقافت، تاریخی چیزوں کو جوں کا توں محفوظ کرنے کی روایت پائی جاتی ہے۔ جب کہ مسلمانوں کے ساتھ تو دوہرا معاملاہے تاریخی ورثہ بھی اور مذہبی عقیدت بھی۔ بے شمار لکھنے والوں نے سعودیوں کی توجہ اپنی تحریروں سے اس جانب دلائی ۔بات بدر کے میدان کی ہی نہیں، غارِ حرا کا کیا حال ہے، مستنصر حسین تارڑ کا سفر نامہ ’’غارِ حرا میں ایک رات‘ ‘ پڑھ لیجئے حقیقت واضح ہوجائے گی، غارِ ثور کس حالت میں ہے،ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا سفر نامہ ’’ ’اﷲ،کعبہ اور بندہ‘ کا مطالعہ کر لیجئے۔ تاریخی باغات اور کنویں کہاں اور کس حال میں ہیں؟ مکہ میں آنحضرت ﷺ کی پیدائش گاہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے باقی کس کا گھر محفوظ رہا،حضرت خدیجہؓ کا گھر کہاں ہے؟ حضرت علیؓ کا گھر کیا ہوا؟ قبر وں کی تو بات ہی کیا ہے ،شہدائے احد کی یاد گار کس حال میں ہے؟ 90سال بعد یہاں مسجد بنانے کا خیال آیاہے۔ اب وہاں ایک مسجد تعمیر ہورہی ہے۔ ’سبامساجد ‘میں موجود سابقہ مسجدوں کا کیا حال ہے؟ کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ اﷲ کی رحمت اورخصو صی عنایت اس سر زمین پر ہے۔ قبر پرستی کسی بھی صورت جائز نہیں لیکن قبرستان میں جانا تو گناہ نہیں، شہیدوں کا احترام کرو ، شہید مرتے نہیں ، وہ زندہ ہیں، کہا گیا ہے کہ ’انبیاء علیہم السلام اپنی قبرون میں اسی طرح زندہ ہیں جس طرح دنیا میں زندہ تھے بلکہ ان کی برزخی زندگی دنوی زندگی سے بھی زیادہ حقیقی ہے‘(یہ بات معروف کتاب ’قبر پرستی ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ‘ میں کہی گئی ہے۔ اگروہ زندہ ہیں تووہ جگہ جہاں وہ ہیں ہمارے لیے اہم اور محترم ہونی چاہیے ۔

’’غار حرا میں ایک رات ‘‘کے مصنف معروف سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے اپنے سفر نامہ کے صفحہ نمبر ۲۸ پر لکھا ہے کہ ’’یہاں میں ایک شدید خدشے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں...بے شک چھوٹا منہ ہے لیکن بات اتنی بڑی ہے کہ اس پر دھیان کرنا چاہیے۔۔مجھے خدشہ ہے کہ آئندہ سو دو سو برسوں میں دیگر مذاہب کی مانند اسلام بھی ایک دیو ملائی کہانی بن سکتا ہے...جوں جوں اس کے آثار مٹتے چلے جائیں گے ہم حقیقت سے دور لوک داستانوں میں چلے جائی گے... تاریخ کے آثار پر ہل چلاکر وہاں سہاگا پھیر کر زمین کو ہموار ایسے کردینے سے کہ وہاں سے گزنے والے کو شائبہ بھی نہ ہو کہ یہاں ایسے مقام ایسے کھنڈر ایسے نشان موجود تھے جواُس کے عقیدے اور کتاب کی شہادت دے کر اُسے پختہ کرتے تھے... ایسا کرنے سے .. ایسا بے رحم عمل سے اپنے تئیں شرک کو مسمار کرنے والے یہ نہیں جانتے ... کہ آثار اور تاریخ کو منہدم کردینے سے مذہب کے ایک دیو ملائی داستان بن جانے کا خدشہ وجود میں آجاتا ہے‘‘۔ تارڑ صاحب نے یہ بات مدینہ میں کعب بن اشرف کے قلعے کے کھنڈروں کے دورے کے موقع پر کہی۔بات میں گہرائی ہے، حقیقی خدشہ کی جانب توجہ مبزول کرائی ہے۔

بدر کا میدان وہ متبرک جگہ ہے کہ جہاں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ اور صحابہ اکرام نے کفار کے ساتھ اولین جنگ کی ، اس جنگ میں کون کون صحابی رسول شریک نہیں تھے۔ وہ تمام اسی سرزمین پر تو کفار سے برسرِ پیکار ہوئے ہوں گے جس جگہ اس وقت ہم کھڑے ہیں۔ یہ وہی معرکہ تھا کہ جس کے بارے میں قرآن مجید کی متعدد آیات میں ذکر موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کرنے کے لیے اپنے محبوب اور ان کے ساتھیوں کی مدد فرمائی۔ یہی وہ دن تھا جب اسی جگہ پر وردگار نے اپنے محبوب کی مدد کے لیے فرشتوں کی بڑی جماعت کو اس میدان میں مقرر کیا۔ کلام مجید کی آیات میں واضح کہا گیا ہے کہ لڑائی شروع ہونے سے قبل تو دونوں فریقین کو ایک دوسرے کی تعداد مختلف نظر آرہی تھی اور جب لڑائی شروع ہوئی تو تعداد کم اور زیادہ ہوگئی۔یہ لوگ کون تھے؟ یقیناًاﷲ کے فرشتے ہی تو تھے۔ مسلمان تعداد میں 313اور جنگی ساز و سامان کے اعتبار سے دو گھوڑے اور 70اونٹ باقی سب پیدل۔ بہت کم اور کمزور تھے پھر بھی کفار پر غلبہ حاصل کرتے گئے۔ جنگ کے دوران آنحضرت ﷺ کا میدان سے مٹھی بھر مٹی کفار کی جانب پھینک دینا جو صرف مٹی نہ رہی بلکہ کفار کی آنکھوں کو اس نے چندھیا دیا اور انہیں کچھ سجائی نہ دے رہا تھا۔ یہ سب اﷲ کی جانب سے مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کرنا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ اس وقت میں جس جگہ موجود ہوں اسی جگہ ہمارے نبی ﷺ ، ان کے صحابہ اکرام کھڑے ہوں، فرشتے اس جگہ موجود رہے ہوں۔ جنگ صرف اس حصہ میں تو ہوئی نہیں جسے چار دیواری سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ جنگ تو اس پورے میدان میں ہوئی ہوگی، جہاں پر اب کشادہ سٹرکیں اور مکانات تعمیر ہوچکے ہیں۔میں اس سعادت پرفخر کے ساتھ ساتھ اﷲ کا شکر بجالارہا تھا۔

اپنی قسمت پر رشک کررہا تھا کہ کہاں میں گناہ گار اور کہا یہ متبرک و محترم مقام۔ بدر کا میدان سمٹ کر چھوٹا سا ہوگیا اور اس کے اردگرد ایک حسین و جمیل شہر ’بدر‘ کے نام سے آباد ہوچکا ہے۔ میدان بدر کے چاروں جانب اونچی اونچی رہائشی عمارات ہیں ۔ صاف ستھرا، کشادہ اور پرسکون شہر ۔ میدان کے گیٹ کے باہر بالکل سامنے سٹرک کا اختتام ہوتا ہے ، یہ’ شہید چوک ‘ہے۔ یہاں ایک بڑا بورڈ نصب ہے جس پر 14 شہیدو ں کے نام جنہوں نے غزوہ بدر کے اسی میدان میں جام شہادت نوش فرمایا جو اس وقت میری نطروں کے سامنے ہے۔لیکن یہاں صرف 14 ہی قبریں نہیں ہیں ، قبروں کی تعداد بہت زیادہ دکھائی دے رہی ہے، نہیں معلوم 70 کفاروں کو بھی اسی جگہ دفن کر دیا گیا تھا یا بعد میں یہاں کی مکینوں نے اس قبرستان کو اپنے
مردے دفن کرنے کے لیے استعمال کیا۔ کافی قبریں دور دور تک نظر آرہی تھیں۔ غزوہ بدر کے 14 شہداء کے نام حسب ذیل ہیں :
1۔عمیر بن ابی وقاص
2۔صفوان بن وھب
3۔نواشمالین بن عمرو
4۔ مھجع بن صالح
5۔ عاقل بن الکبیر
6۔ عبیدہ بن الحارث
7۔ سعد بن خیثمۃ
8۔ مبشر بن عبدالمندر
9۔ حارثہ بن سراقۃ
10۔ رافع بن المعلا
11۔ عمیر بن الحمام
12۔ یزیدبن الحارث
13۔ معوذ بن الحارث
14۔ عوف بن الحارث

شہر بدر کا نام ’بدر حنین‘ ہے ۔ یہ صوبہ مدینہ کا ایک اہم شہر شمار ہوتا ہے جو سعودی عرب کے مغربی حصے میں مدینہ سے ینبو کی بندرگاہ والے راستہ پر واقع ہے۔ مدینہ سے اس کا زمینی فاصلہ تقریباً150کلو میٹر ہے۔ یہاں کی آبادی 2010کی مردم شماری کے مطابق 58,088نفوس پر مشتمل تھی ۔ مکہ سے تجارت کے لیے یہ راستہ اہمیت رکھتا تھاجو جنگ کی وجہ بنا۔ بدر حنین کو جنگ بدر کی وجہ سے جواہمیت اور مرتبہ حاصل ہے اس کے پیش نظر اس شہر کو اتنی ترقی اور بلندی حاصل نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی۔ مدینہ سے نذدیک بندر گاہ ’ینبو‘ کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ ابتدئی دور میں حجاج اکرام جومدینہ آیا کرتے تھے وہ بحری سفر کے لیے ینبو کوہی استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ علاقہ میدانی ہے، پہاڑوں کے ساتھ ساتھ بڑا حصہ ریگستان ہے۔جیسے ہی بدر کا میدان نذدیک آتا ہے یہاں کے پہاڑوں کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پہاڑمٹی کے محسوس ہونے لگے ہیں ، یا تو یہ پہاڑ مکمل مٹی کے ہیں یا پھر ریگستان کی مٹی نے اڑ اڑ کر ان پہاڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان پہاڑوں کے فوری بعد میدانی اور ریگستانی علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ اسی میدانی اور ریگستان میں آگے جاکر بدر کامیدان ہے ۔

جنگ بدر پہلی جنگ ہے جو مدینہ کے مسلمانوں اور مکہ کے قریش قبیلے جو کافر تھے کے درمیان 17مارچ 624عیسوی مطابق 17رمضان المبارک 2ہجری کوہوئی ۔اس دن کو ’یوم الفرقان‘ کہا گیا کیونکہ یہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح و غلبہ دے کر واضح کر دیاگیا کہ اسلام حق ہے اورکفر و شرک باطل ہے۔ یہ جنگ بعض اعتبار سے اہم جنگ تھی ، اہمیت کے اہم اسبا ب حسب ذیل بیان کیے گئے ہیں۔

۱۔ یہ جنگ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پہلی جنگ تھی۔
۲۔ یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی۔ابو سفیان(جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) کی سر کردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جارہا تھا ۔ چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سا مال اور اسباب ہجرت کی وجہ سے مکہ میں رہ گیا تھا یا کافروں نے چھین لیا تھا،نیزکافروں کی قوت و شوکت کو توڑ نا بھی وقت کی ضرورت تھی ، ان اسباب کے باعث رسول اﷲ ﷺ نے اُس تجارتی قافلے کو بدر کے مقام پر روکنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے،ابو سفیان کو بھی اس کی اطلاع مل گئی ، اس نے اپنے قافلے کا راستہ تبدیل کر لیااور مکہ اطلاع بھیجوا دی جس کی بنا پر ابو جہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا۔ کفار مکہ اپنی طاقت و کثرت میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر میں پہلا معرکہ برپا ہوا۔
۳۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو اﷲ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی جس کا ذکر قرآن کی مختلف آیات میں موجود ہے۔
۴۔ اس جنگ میں کافروں کو کو عبرت ناک شکست ہوئی جس سے آئندہ کے لیے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ لیکن انہوں نے بدلہ لینے کی تیاری شروع کردی اور جنگ احد میں انہوں نے کسی حد تک اس کابدلہ لے بھی لیا۔

جنگ بدرکے مختلف پہلوؤں پر قرآن کی کئی سورتوں میں ذکر ملتا ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت 13 ،123-121اور سورہ الانفال کی آیت17 اور44خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سورۃ آل عمران کی آیت 13 میں کہا گیا ترجمہ’یقیناًتمہا رے لیے عبرت کی نشا نی تھی ان دو جماعتوں میں جو گتھ گئی تھیں ایک جماعت تو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں لڑ رہی تھی اور دوسرا گروہ کافروں کا تھا وہ انہیں اپنی آنکھوں سے اپنے سے دگنا دیکھتے تھے اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہے اپنی مدد سے قوی کرتا ہے۔ یقیناًاس میں آنکھ والوں کے لیے بڑی عبرت ہے‘۔اس آیت کی تفسیر مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ ہر فریق ‘دوسرے فریق کو اپنے سے دو گنا دیکھتا تھا۔ کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی ‘انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے۔ مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا۔اور مسلمانوں کی تعداد 313تھی ‘ انہیں کافر 600اور700کے درمیان نظر آتے تھے ، حالانکہ ان کی اصل تعداد ایک ہزار کے قریب تھی۔ مقصد اس سے مسلمانوں کے عزم و حوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔

اسی طرح سورۃ الانفال کی آیت44میں کہا گیا ترجمہ’جب کہ اس نے بوقت ملاقات انہیں تمہاری نگاہوں میں بہت کم دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں کم دکھائے تاکہ اﷲ تعالیٰ اس کام کو انجام تک پہنچا دے جو کرنا ہی تھا۔ اور سب کام اﷲ ہی کی طرف پھیرے جاتے ہیں‘۔اس سب کا مقصد یہ تھا کہ اﷲ نے جو فیصلہ کیا ہوا تھا وہ پورا ہوجائے۔ اس لیے اس نے اس کے اسباب پیدا فرما دیے۔یہ وہی میدان جنگ ہے کہ جس میں قریش کا نامی گرامی سردار ابو جہل جو بڑی شان و شوکت سے مسلمانوں کو سبق سکھانے بدر آیاتھا جہنم رسید ہوا ، عتبہ بھی ایک بڑا سردار تھا وہ بھی مارا گیا۔ کافروں کو اس جنگ میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔70مارے گئے 70کو قیدی بنا لیاگیا۔ حضرت انسؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ جنگ بدر کے آغاز سے قبل رسول اﷲ ﷺ بدر کے میدان میں ایک خاص جگہ اپنا ہاتھ رکھتے اور فرماتے کہ فلاں کافر کے ہلاک ہونے کی یہ جگہ ہے ، فلاں کی یہ ہے۔ حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ اکرام فرماتے ہیں کہ دوسرے روز جب جنگ ختم ہوئی تو ہم نے ان نشانات کی جگہ کو دیکھا ہر کافر اسی جگہ مرا پڑا تھا جس جگہ آپ ﷺ نے نشان لگا یا تھا۔ جنگ کے میدان سے کچھ فاصلہ پر ایک کیمپ بنا یا گیا تھا کہ جہاں پر آنحضرت ﷺ اور دیگر صحابہ رات میں آرام کیا کرتے تھے۔ اس جگہ اب ایک’ مسجد عریش‘ تعمیر کردی گئی ہے۔جو وسیع اور خوبصور ہے اور جنگ بدر کی یاد دلاتی ہے۔ بدر کے شہیدوں کو سلام عرض کرکے اور چند لمحات یہاں گزار کر ہما را سفر جدہ کے لیے شروع ہوا ، نماز مغرب پر گھر پہنچے ۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279750 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More