جشنِ مرگ

جشنِ مرگ پاکستان کے شہر کراچی میں بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے ہر سال جون جولائی کے مہینے میں ہم اپنے پیاروں کو اپنے ساتھ لے جا نے کے لئے کوچز بک کراتے ،لذیذ کھانوں کا او ر میوزک کا شاندار انتظام کرتے ہیں او ر بغیر یہ سوچے سمجھے کہ آج ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے کس پیارے کی بَلی چڑھانے سمندر کی ظالم موجوں کی طرف کی جارہے ہیں ،حالانکہ راستے میں بڑے بچوں کو بار بار سمجھاتے جارہے ہوتے ہیں زیادہ آگے نہیں جانا ڈوب جاتے ہیں لیکن ہم خو د یہ بھول جاتے ہیں ہمیں بھی تیراکی نہیں آتی اور جو لائف گارڈ اکا دکا وہاں موجود ہوتے بھی ہیں وہ بیچارے آئے ہوئے لوگوں سے اپنی روٹی پانی کا بندوبست کر نے لئے کوشش میں لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ہماری یاداشت بھی بہت کمزور ہوجاتی ہے کہ پچھلے ہفتہ اٹھارہ لوگ سمند میں ڈوب کر مرگئے لیکن کوئی بات نہیں اُن لوگوں میں آپ جیسا کوئی رستم زماہ نہ ہو گا جو خو د بھی تیز لہروں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں کھڑے ہو کر اپنی فیملی ممبر کو بلاتے ہیں آجاؤ میں ہو نا بس پھر سمندری دیوتا اپنی مرضی کا شکار پسند کرلیتا ہے اور بعض مرتبہ پوری فیملی ایک دوسرے کو بچاتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے اور وہی فیملی جو گانے گاتے گئی تھی واپسی پرموت کا ماتم مناتی آتی اور اپنے ساتھ پورے شہر کو غمزدہ کرتی ہے وہ ڈوبنے والا ایک شخص کئی لوگوں کے دل کا راجا ہوتا ہے کسی کا باپ کسی کا بھائی کسی کا دوست ہوتا ہے یہ اُس کے ما ں باپ سے پوچھوں جن سے وہ صبح ہنس کر الوداع کہہ کر گیا تھا کہ جلد لوٹ آؤں گا پھر لوٹ کر نہ آیا پھر انکوائیری ہونگیں پھر پولیس والے آپ کو روکے گے اس لئے نہیں کہ اُن کو آپ کی کوئی پرواہ ہے بلکہ اس لئے جب بھی کسی چیز پر پابندی لگتی ہے تو پولیس کی تو چاندی ہی ہوتی ہے تا کہ آ پ اور زیادہ پیے دیں کیونکہ ہم نے تو ہر حال میں یہ جشنِ مرگ ہر سال منانا ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر ہم جون ،جولائی کے بجائے کسی ایسے موسم میں چلے جائے جب سمند کا پانی کا ہلکا ہوجائے اور ہمیں اپنے کسی کی جان نہ گنوانی پڑے ۔ا گر میرے اس کالم سے ایک شخص کی جان بچ گئی تو میں سمجھوں میر ا حق ادا ہو گیا ۔

Adnan Rauf
About the Author: Adnan Rauf Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.