اسلامی شناخت کے حامل شہر کے غیر اسلامی شب و روز: صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کیلئے

مالیگاؤں!خوبیوں، عظمتوں، نکہتوں، رونقوں کی سرزمین ہے۔ اس کی خصوصیات کے ہمہ وصف پہلوؤں پر لکھا جاتا رہا ہے۔ اس کی اسلامی شناخت شہرت کی بلندیوں کو پہنچی ہوئی ہے۔ شرق و غرب، شمال و جنوب میں وجہِ شہرت یہاں کا اسلامی ماحول ہے۔ تاہم اس تحریر میں ہم بعض ان کم زوریوں کی نشان دہی کریں گے جن سے صرفِ نظر نے رونقِ شہرِ عزیز کو گہنا دیا ہے۔

صبح کی بات: ماہِ صیام کا چاند طلوع ہوا۔ روزوں کا موسمِ بہار آیا۔ جن کے دل خوفِ خدا سے معمور تھے وہ کھانے پینے کی دکانیں بند کر کے روزوں کے استقبال میں لگ گئے، اہتمام میں منہمک ہو گئے۔ دوسر سمت صبح ہی صبح شہر کی کئی شاہراہوں کا مشاہدہ ہوا۔ دل دکھی ہوا۔طبیعت رنجیدہ ہوئی۔ دیکھا کہ کچھ ہوٹلوں کے کواڑ کھلے ہیں۔ پردے تنے ہیں۔ پسِ پردہ چائے نوشی کا سلسلہ رواں ہے۔ پھر یہ مشاہدہ ہر روز دکھائی دیا۔ جواں، ضعیف، ادھیڑ، بھلے چنگے، محنت کش سبھی روزوں سے دور چائے نوشی میں مشغول نظر آئے۔ افسوس ہوا، قلق ہوا، رنج و ملا ل ہوا۔خوفِ خدا رخصت ہوا۔ مال و زر کی ہوس نے احترامِ رمضان بھلا دیا۔ کاش احساس کیے ہوتے۔

دوپہر کا نظارہ: اسی ماہِ صیام کا پہلا جمعہ گزرا۔ ہم آگرہ روڈ پر بعد از جمعہ پہنچے۔ ایک مقام پر سیکڑوں کا ہجوم موجود تھا۔ دیکھا کہ وہ ایک ہوٹل ہے؛ جہاں روزہ خور بھوک مٹانے آئے ہیں۔ تقریباً سبھی ہمارے اسلامی بھائی تھے۔ حیرت ہوئی کہ یہ ع
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائے یہود

اﷲ کے حکم کی نافرمانی! رسول کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمانِ اقدس سے چشم پوشی! روزہ جو فرض کیا گیا ہے، اس سے فرار ایسا کہ اغیار کی طرح کھلے بندوں سڑکوں پر کھاتے پھریں! کب جاگیں گے! کئی طوفاں دستک دے چکے، شریعت پر حملے ہیں، معاشرتی و تمدنی زندگی بھی فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے، عظمت نسواں پر حملہ ہے، ہماری درس گاہیں، تعلیمی مراکز، درگاہیں، خانقاہیں سبھی کچھ ان کی نگہِ بد کا شکار ہیں۔ اور ہم کامیابی کی راہ -احکام اسلامی- سے منھ موڑ کر اغیار کی طرح روزوں کے وقت کھاتے پھر رہے ہیں۔ زوال کی راہ جا پڑنے کی ایک وجہ احکامِ اسلامی سے رُو گردانی ہے۔ ہم نے اپنی عملی زندگی کو دُشمنوں کے طرزِ زندگی سے کیا ہم آہنگ کیا؛ مصائب سے مسلسل گزرنا پڑ رہا ہے……شاید ہم سوتے رہنے میں ہی عافیت جانتے ہیں،مزید کسی تباہی کے منتظر ہیں!

تصویر کا دوسرا رُخ: رزق دینے والی ذات اﷲ کی ہے، قاسم نعمت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خیر و عطا، جود و سخا کے دریا بہا دیے-واہ! کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا-اس کے باوجود مخلوق سے ملنے والے تھوڑے نفع کی خاطر آخرت کا بڑا خسارہ جھیلنا دانش مندی نہیں۔ کاش اس بات کو ہوٹل مالکان سمجھ لیتے۔ دن کے وقت اپنے ہوٹلوں کو بے روزہ افراد کے لیے کھلا نہ رکھتے تو شاید روزوں سے فرار کرنے والے بھائیوں میں کچھ کی اصلاح ضرور ہوتی، دنیا کا تھوڑا نفع اخروی سعادت سے محرومی کا سبب ہے۔ اﷲ تعالیٰ و محبوب کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناراضی مول لینا یہ مومن کی صفت نہیں۔ ہوٹل مالکان اپنی اصلاح کریں۔ دن کے اوقات میں بے روزہ افراد کے لیے ہوٹلیں کھولنے کی بجائے شام کو افطار کے لیے اور شب کے اوقات میں اپنے کاروبار کریں۔ اﷲ اسی میں اس قدر برکت دے گا جو دنیا و آخرت کے خسارے سے بچا دے گئی۔ ویسے بھی مومنین کے لیے ماہِ صیام میں رزق میں اور کشادگی ہو جاتی ہے جس کا مشاہدہ سبھی کرتے ہیں کہ قسم قسم کی نعمتیں میسر آتی ہیں۔

عبادات سے کوتاہی: تراویح جیسی نعمت ماہِ رمضان سے جڑی ہوئی ہے۔ درجنوں چوک چوراہوں پر یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بوقت تراویح گپ شپ، کھانے پینے کی محفلیں جاری رہتی ہیں۔ دیڑھ دو گھنٹہ تراویح کے لیے دینے کی بجائے چوراہوں پر وقت گزاری افسوس ناک ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنی اصلاح کریں۔ مساجد کا رُخ کریں۔ کھانا پینا تو تراویح بعد بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دکانوں پر بھی بوقت تراویح ہجوم دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے شہر میں تو ویسے بھی ماہِ رمضان میں دکانیں رات دیر تک کھلی ہوتی ہیں، بعد کو بھی اپنی خریدی کی جا سکتی ہے۔ یوں ہی وہ افراد جو محض چھ دن، یا پہلا عشرہ تراویح کا اہتمام کر کے ترکِ تراویح میں مبتلا ہوجاتے ہیں انھیں بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ تراویح کا حکم صرف قرآن پاک مکمل کر لینے تک نہیں؛ بلکہ پورے رمضان کے لیے ہے، اس لیے اس نعمت کو پورے رمضان سنبھالا جائے۔

روزہ اﷲ کے لیے ہے: روزہ بڑی عظیم عبادت ہے جس کا اجر اﷲ تعالیٰ ہی عطا فرمائے گا۔ کئی آیتیں اور حدیثیں اس پر دلیل ہیں۔ روزوں کا اہتمام مومنین کی تربیت کے لیے ہے، مومن کو پاکیزہ بنانے کی حکمت ہے۔ یہ رب کی طرف سے تربیتی نظام ہے جو رمضان کی شکل میں ملا۔ اس لیے چاہیے کہ حالتِ روزہ میں صبر اور استقامت کا مظاہرہ کریں۔ دوسروں سے بدکلامی سے بچیں۔ بد زبانی اور جھڑکنے، لڑنے، بھڑنے سے دور رہیں۔ اپنے روزے کو برائیوں کے ارتکاب سے ضائع نہ کریں۔

شوشل میڈیا: شوشل میڈیا پر ایسے میسج بھی کافی آرہے ہیں جن میں مزاح اور تفریح کے لیے روزے کو عنوان بنایا جاتا ہے۔ روزے کی کیفیات کو مذاق کے انداز میں پیش کرنا، تفریح طبع کے لیے اپنی عظیم نعمت ’’روزہ‘‘ کا مذاق بنانا یہ سخت محرومی ہے۔ اس ضمن میں کاش ہمارے نوجوان سنجیدگی سے سوچتے۔ افطار و سحر کو محض کھانے پینے کی تفریح بنا لینا بھی باعث تکلیف ہے۔ ایسی پوسٹ ڈالی جاتی ہے جن میں دعوتِ افطار و سحر، کھانے پینے، قسم قسم کے پکوان کاذکر کر کے ان مبارک معمولاتِ رمضان کو صرف کھانے پینے کا رُخ دینا مسلمان کے لیے مناسب نہیں۔ بلاشبہہ عمدہ عمدہ کھانوں کا افطار میں اہتمام خیر ہے؛ لیکن انھیں تفریح کا موضوع بنانا اسلامی عمل نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ماہِ مبارک کا ادب کیجئے۔ اس سے منسلک عبادات و اعمال کو اﷲ و رسول کی خوش نودی و رضا کی خاطر کیجئے۔ ان تمام اعمال سے بچئے جن سے شریعت کے احکام کی خلاف ورزی ہو، دوسروں کی حق تلفی والے معاملات سے بھی بچئے۔ ہوٹل و کھانے پینے کی دکانیں بے روزہ افراد کے لیے بالکل بند کر دیں۔ انھیں افطار کی تیاری کی غرض سے کھولیں۔ ہمارے وہ بھائی جو طاقت کے باوجود روزہ نہیں رکھتے وہ اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کریں، احکام الٰہی پر عمل کا خود اہتمام کریں تا کہ بعد والے اسی راہ چل کر اپنی اخروی زندگی کو روشن بنائیں۔ یاد رکھیے ہم پر بعد والوں کے بھی حقوق ہیں؛ ہم جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ گلاب بوئیے تا کہ نسلیں مہک اُٹھیں۔ کیکر، تھوہڑ، ببول کی کاشت نقصان دہ ثابت ہوگی، اعمالِ صالحہ کی فصل ہری بھری رہے اس کے لیے خلافِ شرع احکام سے منھ موڑ کر اﷲ کی رضا والے اعمال کی فکر؛ آخرت کی تعمیر بھی ہے اور دنیا کی کامیابی کی علامت بھی۔٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 254563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.