میں سلمان ہوں(٣٤)

میں خوشبو بن کے اس میں رہتا ہوں
گل ر نگ بن کے اس کے چہرے میں پھلتا ہوں
مہکتا ہوں اس کی سانسوں میں
ڈھڑکتا ہوں اس کے سینے میں
کتنا مزا ہے اس جینے میں
کیا رکھا ھے پت جھڑ کے مہینے میں
ہر لمحے میں اب جیتا ھوں
کئا رکھا ہے مر مر کے جینے میں
خان لمحوں کو قید کر لو
کتنا وقت لگتا ہے آنکھیں بند کر لینے میں

رات کے بارہ بج رہے تھے‘‘،،ماں کی کھانسی کی آواز نے اسے بے چین کر دیا‘‘،،،چھوٹا سا گھر تھا،،جو شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتا تھا‘‘،،،چھوٹو،،،نے ایک طرف جھکی ہوئی چارپائی پر پڑی زندہ لاش کو دیکھا‘‘،،شکر ہے ماں کھانس رہی ‘‘،،،ورنہ گمان ہوتا ہے‘‘،،کہ دنیا سے ہی کوچ کر چکی ہے‘‘،،،چھوٹو کے چھوٹے سے دماغ نے اسے تسلی دی‘‘،،،اس کی بہن نے لپک کے اس کے ہاتھ سے کھانا لے لیا‘‘،،،
ماں آج کھانا ذیادہ لایا ہوں‘‘،،گوشت بھی بہت ہے‘‘،،آج بس تو نے پورا بکرا کھالینا ہے‘‘،،،ماں مسکرا دی‘‘،،پگلے‘‘،،،
یہ بکرے کا گوشت نہیں ہے‘‘،،،ارے ماں‘‘،،ہے تو گوشت نا‘‘،،،اچھا سب نہ کھا جانا‘‘،،،کل کےلیے رکھ لینا‘‘،،،
ماں کی بات چھوٹو‘‘نے سنی ان سنی کر دی‘‘،،بس تو کھایا کر‘‘،،،اس نے بے بسی سے چھوٹو کو دیکھا‘‘،،،

چھوٹی سی عمرمیں ہی بڑا ہو گیا تھا‘‘،،،ارے ماں ایسے کیوں دیکھ رہی ہے‘‘،،اب میں اتنا چھوٹا نہیں ہوں‘‘،،سب سمجھتا ہوں،،،سلمان بھائی کہہ رہے تھے‘‘،،،میں بہت سیانا ہوں‘‘،،،آج کھانسی کی دوا نہیں لی نا‘‘،،،بس سوچ رہی تھی
تو ایسے یقین نہیں کرتا‘‘،،،کھانا کھا کے تیرے سامنے پیوں گی‘‘،،،تو بیٹا تھوڑی ہے‘‘،،ماں ہے میری‘‘،،،چھوٹو مسکرا دیا

ماں کھا لیا کر ٹائم سے‘‘،،،پرانے ریڈیو کی طرح بجتی رہتی ہو‘‘،،،جس کے سیل کمزور ہو جاتے ہیں‘‘،،،ایسی آوازیں آتی ہیں گلے سے‘‘،،کیوں تکلیف دیتی ہے‘‘اپنے آپ کو‘‘،،،میں آدھی شیشی ہونے پر یاد دلاتا ہوں‘‘،،،اسی لیے،،کہ تم کھانس کھانس کے ہلکان ہو جاتی ہو‘‘،،،ماں نے چھوٹو کا ماتھا چوم لیا‘‘،،،یہ ساری باتیں کون سکھاتا ہے تجھے‘‘،،،چھوٹو نے فخریہ لہجے میں کہا‘‘،،،سلمان بھائی ہیں نہ اپنے استاد‘‘،،،روز مجھے انگلش کا ایک نیا لفظ سکھاتے ہیں‘‘،،،اور زندگی سے لڑنے کا سلیقہ بھی‘‘،،،ماں مسکرا دی‘‘،،،چل اب جلدی سے سو جا‘‘،،
نہیں ماں‘‘،،،چھوٹو نے حسرت سے کہا‘‘،،،جب تک تم سب میرے سامنے کھا نہ لو‘‘،،،مجھے بے چینی رہتی ہے‘‘،،،
پھر تم دوائی کھانا بھول گئی‘‘،،تو کھانس کھانس کر نیند خراب کرو گی سب کی‘‘،،،چھوٹو ہنسنے لگا‘‘،،،اوہو ہنس کیوں رہے ہو‘‘،،،بھائی بہن نے پوچھا تو‘‘،،،ہنستے ہوئے کہا‘‘،،،ایک دن میں نے سلمان بھائی سے کہا،،ماں کی کھانسی نہیں جاتی‘‘،،،سلمان بھائی بولے،،اچھا ہے‘‘،،،میں بولا واہ رے سلمان بھائی‘‘،،،اچھا کیوں ہے‘‘وہ بولے‘‘،،،
جس گھر میں کوئی کھانستا رہتا ہے‘‘،،،اس گھر میں چور نہیں آتے‘‘،،،ماں بھی زور سے ہنس دی‘‘،،،اور پھر سے کھانسنا شروع ہو گئی‘‘،،،مسخورا ہے تیرا سلمان بھائی‘‘،،،نہیں ماں وہ مسخورا نہیں ہے‘‘،،،وہ سب کو ہنساتا ہے‘‘،،،
پر جب وہ خود اداس ہوتا ہے‘‘کوئی اسے نہیں ہنساتا‘‘ایسا کیوں‘‘،،،ماں نے بیٹے کی طرف دیکھا‘‘،،،چل سو جا‘‘،،،
صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے‘‘،،،شاباش،،،ماں ویسے بات سچ ہے‘‘،،،چھوٹو نے ماں کو کھانستا دیکھ کر کہا‘‘،،،چور نہیں آئے گا‘‘،،،سب ہنس پڑے‘‘،،،ماں نے پیار سے کہا‘‘،،،میرا چھوٹا سا سلمان،،،‘‘میں صدقے‘‘چھوٹو سوچ میں پڑ گیا‘‘
سلمان بھائی کو نہ تو کوئی ہنساتا ہے‘‘،،،نہ ماں صدقے کہتا ہے‘‘(جاری)
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1193872 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.