قدرت کا انصاف

اُس کے منہ سے نکلا ہوا فقرہ آتش فشاں کی طرح پھٹا اور میرے اندر دھواں بھر گیا ‘مجھے لگا جیسے کسی نے میرے سانس کی نا لی پر ہا تھ رکھ دیا ہو ‘میرے دیدے حیرت سے پھیل گئے میں نے بے یقینی کے عالم میں اُس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پو چھا بی بی آپ کیا کہہ رہی ہو ‘مجھے اپنی سما عت پر بلکل بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک ماں اپنی جوان بیٹی کے ساتھ میرے پاس آکر یہ با ت کر یگی وہ اپنی بیٹی کے لیے دعا نہیں بد دعا مانگنے آئی تھی اُس کی بد دعا سے اُس کی بیٹی کی جان بھی جا سکتی تھی لیکن اُس نے دوبا رہ بھی وہی بات کی جسے سن کر میرے ہو ش و حواس اُڑ گئے تھے میں پچھلے دو عشروں سے ہزاروں لو گوں سے مل چکا ہوں ایساکیس میرے پاس آجتک نہیں آیا تھاپہلی با رکسی نے ایسا سوال کیا تھا پہلی بار کسی نے کسی کی مو ت کی دعا کا کہا تھا انسانی جان قدرت کا انمو ل تحفہ ہے جس کی بقا کے لیے انسان ہر حد سے گزر جاتا ہے لیکن یہاں تومعاملہ یکسر مختلف نظر آرہا تھا یہاں کسی کے جینے کی بجا ئے مو ت کی خو اہش کی جا رہی تھی اور وہ عورت اپنی اس بات یا ضد پر چٹان کی طرح کھڑی تھی ۔ میں اپنے گا ؤں آیا ہوا تھا اور حسب معمول لوگوں سے مل رہا تھا کہ یہ ماں بیٹی ملا قاتیوں میں بیٹھی نظر آئیں جب یہ میرے پا س آئیں تو ماں نے کہا ہم علیحدگی میں با ت کر نا چاہتی ہیں ‘میں نے کمرہ خا لی کرا یا تو ادھیڑ عمر عورت اِدھر اُدھر دیکھ کر اچھی طرح تسلی کر کے کہ کو ئی اُس کی با ت سن تو نہیں رہا میرے پاس آکر سر گو شی کے انداز میں بو لی میری بیٹی حاملہ ہے آپ دعا کریں اِس کا بچہ مر جا ئے یہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی مو ت کا ذائقہ چھک لے ‘مجھے کو ئی ایسا تعویز یا ورد بتا دیں جس کے کر نے سے اِس کا بچہ پیٹ کے اند ر ہی مر جا ئے ‘میں نے اُسے سمجھا یا کہ اِس طرح تو تمہا ری بیٹی کی جان بھی جا سکتی ہے تو وہ بو لی کو ئی با ت نہیں اگر یہ بھی مر تی ہے تو خیر ہے اِس بچے کو مر نا چاہیے ‘میں نے اُس اﷲ رسول ﷺ کے فرمان بتا ئے کہ یہ قتل ہے لیکن وہ بضد تھی کہ بچہ مر نا ہی چاہیے میں جب خوب اُس کو مذہبی طو ر پر ڈرا اور سمجھا چکا تو وہ بو لی یہ نا جا ئز بچہ ہے یہ بن بیا ہی ماں ہے یہ حرام کا بچہ ہے کیونکہ میں کسی بھی طو ر پر اُس کی با ت نہیں مان رہا تھا ِس لیے اُس نے مجھے قائل کر نے کے لیے اپنی داستان غم اسطرح سنا ئی کہ گا ؤں کے قریب ہم ایک اینٹوں کے بھٹے پر کئی سالوں سے مزدوری کر تے ہیں ہم صدیوں سے جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں بھٹہ مالکان ہمیں جانوروں کی طرح ہانک کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر تے رہتے ہیں ہما رے مرد ان پڑھ جاہل ہیں جو ایڈوانس قرضہ لے کر خو د کو اِن کے غلام بنا لیتے ہیں علم تہذیب پڑھا ئی لکھا ئی ہم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہیں مذہب اﷲ رسول کا بھی ہم نے صرف نام ہی سن رکھا ہے ہم بھٹہ ما لکان کے زر خرید غلام ہیں اِن کو ہما ری زندگیوں اور جسموں پر مکمل اختیار حاصل ہے ہم جس بھٹے پر کا م کر تے ہیں اُس کا مالک شروع سے شرابی زانی ہے اِس کی نظر جس پر پڑ جا ئے وہ اِس کا غلام ‘جس عورت کی شکل و صورت اچھی ہو تی ہے اس کے بھاگ جا گ جا تے ہیں اُس کو مزدوری کے بغیر اچھے پیسے دے دئیے جا تے ہیں پہلے تو یہ میرا عاشق تھا میرے جسم سے کھیلتا رہا پھر جب میری بیٹی جوان ہو ئی تو یہ اِس کی نظر اِس معصوم پر پڑ گئی میں نے کئی با ر سمجھا یا کہ یہ تو تمہا ری بیٹیوں جیسی ہے اور کیا پتہ یہ تمہا ری ہی بیٹی ہو لیکن یہ شراب کے نشے میں دھت مذہب اخلا قیات کی دھجیاں اڑاتا میری بیٹی کی عزت سے کھیلتا رہا اِسکا طریقہ واردات یہ ہے کہ جو اِس کو پسند ہو اُس کے مرد کو کام کے لیے با ہر بھیج دیتا ہے اور یہ خو د اُس گھر کا مالک بن کر عزت و آبرو سے سرِ عام کھیلتا ہے ہما رے مردوں کو بھی اِس کا پتہ ہو تا ہے لیکن اُن میں بھی غیرت نام کی نہیں ہے ایسے بھٹہ مالکان نے اپنی سلطنت بنا رکھی ہو تی ہے سینکڑوں عورتیں مرد اِن کے غلاموں میں شامل ہو تے ہیں اگر کبھی ہم بھا گنے کی کو شش کریں تو ہمیں بھٹوں کی چمنیوں میں زند ہ جلا دیا جاتا ہے یا جانوروں کی طرح با ندھ کو جوتوں سے ما را جا تا ہے تا کہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اگر کبھی ہم بھاگ جانے میں کا میا ب ہو بھی جائیں تو یہ اپنے اثر رسوخ کے بل بو تے پر ہمیں پکڑلا تے ہیں اور پھر ہمیں زنجیروں سے باندھ دیا جا تا ہے ہمیں ایسی در د ناک سزائیں دی جاتی ہیں کہ دوبار ہ کسی کو بھا گنے کی جرات نہ ہو اُس عورت کی داستان میری سما عتوں میں شگا ف ڈال رہی تھی میرے جسم کا انگ انگ آنکھ بن کر اشکبار ہو رہا تھا طا قتور ظالم اور کمزور اِس فرق کی ہولناکی میرے جسم کو ادھیڑ رہی تھی میرے جسم پر انگارے چل رہے تھے میں نے اُس عورت کو حو صلہ دلا سا دے کر بھیج دیا بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ ادھر ادھر دکھے کھا تی رہی پھر آخر وہ بچہ دنیا میں آکر بھٹہ ما لک کے غلاموں میں اضا فہ کر گیا ا ِ س عورت کی داستان غم خنجر بن کر میرے دل میں پیو ست ہو چکی تھی اگلے دن میں نے اپنے ایک دوست کو پکڑ ااور اُس بھٹہ مالک کے پا س ہم چلے گئے وہی بو سکی کا سوٹ راڈو گھڑی اور پیجا رو ‘وہ اپنی مسند شاہی پر فرعون بن بیٹھاتھا ہمارے جانے پر بھی وہ کسی گھر سے ہی بر آمد ہوا اُس کے چہرے کے تا ثرات بتا رہے تھے کہ وہ رنگ رلیاں منا رہا تھا وہ مجھے تھو ڑا بہت جانتا بھی تھا بہت خو ش ہوا اور آنے کی وجہ پو چھی تو میں نے زنا اور ظلم پر لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا ‘میری لمبی چوڑی تقریر کے بعد وہ بو لا بھٹی صاحب آپ کب سے مولوی بن گئے ہیں تو میں نے آخری تیر چلا یا اور یہ کہہ کر واپس آگیا کہ قدرت کا اصول ہے جیسا کر و گے ویسا بھرو گے اِس لیے اُس دن سے ڈرو جب تمہار ی با ری آئے گی تو وہ نا گوار لہجے میں بو لا ایسا کبھی نہیں ہو گا ۔ میں واپس تو آگیا لیکن وہ بن بیا ہی بیٹی پھانس بن کر میرے دل میں اُتر چکی تھی میں جب بھی کسی بھٹے کے پاس سے گزرتا مجھے کئی مائیں بیٹیا ں بے یا رومددگار مدد مدد پکارتی نظر آتیں قافلہ شب و روز چلتا رہااور کئی سال بیت گئے اور پھر خدا ئے بز رگ و بر تر کو ہمیشہ کی طرح مجھ پر رحم آیا اور بھٹہ مالک کا انجام میری زندگی میں لا یا ‘ایک رات میں سو رہا تھا تقریبا رات 1 بجے زور سے دروازے پر دستک ہو ئی میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے میرا وہی دوست اسی بھٹہ مالک کے ساتھ کھڑا تھا میں دونوں کو اندر لایا تو حیران رہ گیا بھٹہ مالک برسوں کا بیما ر اور بو ڑھا لگ رہا تھا بالوں میں کلر نہ لگا نے سے بڑھا پا جگہ جگہ سے چھلک رہا تھا بو سکی کا چمکیلا سوٹ میلا اور سلوٹوں سے بھرا ہوا تھا چہرے پر زندگی کی بجا ئے قبر ستان کی ویرانی نظر آرہی تھی ایک ایسا شخص جو سینکڑوں میل سلگتے صحرا پر چل کر آیا ہو بھٹہ مالک نے میرے سامنے ہا تھ جو ڑ دئیے پرو فیسر صاحب مجھے اﷲ سے معافی لے دیں میرے پو چھنے پر دوست نے بتا یا کہ ایک مہینہ پہلے اس کی جوان بیٹی کسی کے ساتھ بھا گ گئی ہے اُس کمی نے اِس کی بیٹی اور اپنی قابل اعتراض سینکڑوں تصویریں بنا کر گا ؤں کی گلیوں میں پھینک دی ہیں یہ منہ چھپا تا پھر رہا ہے تو بہ کے طو ر پر بھٹہ بیچ دیا گا ؤں چھوڑ کر کسی دوست کے ڈیرے پر رہتا ہے بھٹہ مالک زارو و قطار رہ رہا تھا کہ کسی طرح میری بیٹی مجھے واپس مل جا ئے کمر ہ اُس کی آہوں سسکیوں چیخوں سے گو نج رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ خدا کا ئنات بنا کر بیٹھ نہیں گیا اُس کی لا ٹھی حر کت میں آتی ہے اور پھر بھٹہ مالک روتا چلا تا چلا گیا چند دن بعد ہی اُس نے ذلت اور شرم کی زندگی سے تنگ آکر خود کشی کر لی اور ہمیشہ کے لیے زانیوں کے لیے نشان عبرت بن گیا تو مجھے وہ واقعہ یا د آگیا حسین بن قاسم خلیفہ وقت عبا سی کا وزیر تھا خلیفہ نے نا راض ہو کر اُس کو معزول کر دیا اور ابن مقلہ کو اُس کی جگہ لگا دیا ابن مقلہ نے حسین بن قاسم کو قتل کرا دیا اور اُس کا سر عجائب گھر میں رکھوا دیا بعد میں جب راضی خلیفہ بناتو اُس نے کسی وجہ سے نا راض ہو کر پہلے ابن مقلہ کو قیدی بنایا پھر اُس کا ہا تھ کا ٹ دیا جب متقی کا زما نہ آیا تو وہ ایک دن عجا ئب گھر میں گیا تو وہا ں ایک طبق دیکھا جس میں ایک سر اور ایک ہا تھ رکھا ہوا تھا اور پا س کی ایک کا غذ پر لکھا تھا یہ حسین بن قاسم کا سرہے دوسرے کاغذ پر لکھا تھا یہ وہ ہا تھ ہے جس نے یہ سر کاٹا تھا ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 646585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.