باصلاحیت اسسٹنٹ کمشنر

تحصیل شہر شیخوپورہ کثیر تعداد میں نوجوانوں کی حامل ہے جو بے پناہ صلاحیتوں اور قدرتی طاقت سے مالا مال ہیں اگر حکومت اس جوان افراد ی قوت کا مناسب استعمال کرے تو شیخوپورہ کی ترقی و بہبود کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔میں اس وقت بہت حیران ہوا جب میں نے دیکھا تحصیل شہر شیخوپورہ کا اسسٹنٹ کمشنر بھی ایک نوجوان ہے شیخوپورہ اسٹیڈیم میں پریس کلب الیون اور ڈی سی الیون کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلتے ہوئے پہلی بار جب اسسٹنٹ کمشنر شیخوپورہ جناب شبیر حسین بٹ سے ملاقات ہوئی تو پہلے پہل یقین ہی نہ آیا کہ ایک نوجوان اہم حکومتی عہدے پر فائز ہے پھر ملاقاتوں کا سلسلہ کا چل نکلا تو شبیر حسین بٹ صاحب کو قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا اور مجھے یقین سا ہو چلا کہ ایک نوجوان افسر ہی شیخوپورہ کے نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں اور کھیلوں کی طرف مائل کر سکتا ہے۔ضلع نارووال سے تعلق رکھنے والے شبیر حسین بٹ صاحب کے والدین غیر تعلیم یافتہ تو نہیں البتہ کم تعلیم یافتہ تھے لیکن اپنے بیٹے کو لاڈ پیارسے پالا اور اپنی جمع پونجی اپنے بیٹے کو ایک اچھے عہدے تک پہنچانے کی خاطر اس وقت صرف کر دی جب سکول کے طلبہ میں نشے کی لت عام تھی ،کھاتے پیتے گھرانوں کے لڑکے تو نشے کی رقم پوری کر ہی لیتے لیکن غریب گھرانوں کے لڑکے چھوٹی موٹی چوری کرکے اپنی عادتِ نشہ کی تسکین کا سامان کرتے ،شبیر بٹ صاحب بتاتے ہیں کہ اگر میرے والدین کی دعائیں اور سکول کے پرنسپل کے سایہ میرے سر پہ نہ ہوتا تو میرا نشہ میں مبتلا ہونا کچھ بعید نہ تھا ۔اپنے پرنسپل صاحب سے ان کا رشتہ بہت گہرا تھا پرنسپل صاحب نے میٹرک کے بعد ان کو لاہور ساتھ چل کر کالج میں داخلہ دلوایا اور داخلہ فارم بھی خود پُر کر کے دیا اپنے لاڈلے طالب علم کیساتھ ان کی یہ بے پناہ محبت تھی یہی وجہ ہے کہ بعد از وفات بھی شبیر بٹ صاحب اپنے سکول پرنسپل صاحب کو ڈھیروں دعاوں کے ساتھ یاد کرتے اور آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔پرنسپل صاحب کا گاؤں میں اس قدر رعب اور قدر دانی تھی کہ محض ایک ہی بار کہنے سے گاوں کے صاحبِ ثروت اصحاب سکول کے کمروں کی تعداد میں اضافہ کر دیتے۔ایسے ہی اساتذہ کی شبانہ روز محنت سے شبیر حسین بٹ صاحب آج خود کو حکومتی عہدے پہ فائز سمجھتے ہیں بچپن میں شبیر بٹ صاحب اس قدر لاڈلے تھے کہ گھر میں ایک بار غالباََکہہ دیاکہ مجھے بھنڈیاں نہیں کھانی اس دن کے بعد آپکی جوانی تک گھر میں بھنڈیا ں کبھی نہیں پکائی گئیں، بہنوں کا یہ لاڈلا بھائی خوب سیوا کرواتا جوان ہوا ، ماں سے محبت کا نرالا نداز اس دن دیکھنے کو ملا جب شیخوپورہ شہر کے ایک ٹرسٹ سکول میں مستحق طلبہ کو کتابوں کی تقسیم کی تقریب میں دیر سے پہنچے ہمارے استفسار پر کہنے لگے کہ میں نے آج تک اپنی ڈیوٹی دور کے شہروں میں نہیں لگوائی صرف اس لئے کہ اپنی ماں کے قریب تر رہ سکوں اس ماں کے قریب جس نے مجھے اپنے دل سے قریب تر رکھ کر پالا پوسا، آج بھی والدہ کی طبیعت کی ناسازی کے باعث انہیں لاہور ہسپتال میں داخل کروا کر ڈاکٹر کو ذاتی طور پر خدمت کا کہہ کر آپ کی اس تقریب میں شرکت کرنے پہنچا ہوں ، ماں کی محبت کی چھاوں تلے جینے کی خواہش رکھنے والا یہ نوجوان مجھے یکدم سے ایک معصوم سا بچہ لگنے لگا جو ماں کی محبت کے بغیر دنیا کو ادھورا سمجھتا ہو۔ اسی دوران تقریب کا آغاز ہوا تو میزبان نے شبیر بٹ صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ ہم غریبوں اور بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے درمیان تشریف لائے ورنہ اونچے درجے کے افسران کہاں یہ زحمت کرتے ہیں ؟تو شبیر بٹ صاحب اپنی باری آنے پہ کافی دیر کچھ بول ہی نہ سکے میں ان کے قریب کھڑا تھا تو ان کے کپکپاتے ہونٹ دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایسا کیا ہوا کہ ان سے بولا نہیں جا رہا ، بعد ازاں ہمارے پوچھنے پر یوں گویا ہوئے کہ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ اونچے درجے کے افسران کے رویے سے لوگ کس قدر نالاں ہیں، اور چونکہ میں بھی ٹاٹ سکول سے پڑھ کر یہاں تک پہنچا ہوں تو ان بچوں کی تکالیف کو اچھے سے سمجھ سکتا ہوں ، لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ بچے ضرور ترقی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے آسمان کی بلندیوں کو چھوئیں گے۔

نادار طلبہ میں تقسیم کتب کی تقریب میں آکر گویا شبیر بٹ صاحب نے تعلیم دوست ہونے کا ثبوت دیا شیخوپورہ کو شبیر حسین بٹ کی شکل میں ایک حساس طبیعت کا آفیسر ملا ہے جو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرتا اور اپنی بساط کے مطابق معاشرے میں موجود ہر برائی کو ختم کرنے کے در پے ہے ۔آئیے! ہم اس نیک طینت حکومتی افسر کا ساتھ دیں تاکہ جہاں ایک طرف یہ تاثر ختم ہو کہ عوام حکومتی اداروں سے تعاون نہیں کرتی ،وہیں دوسری طرف باہمی یگانگت سے معاشرے کو مثبت سمت میں تیزی سے گامزن کرنے میں ہر ایک کا کردار ادا ہو سکے ۔دی سکول ’’ہاوس آف ٹریننگ ‘ ‘ شیخوپورہ میں نوجوانوں کی متوازن جذباتی صحت کے لئے کام کر رہا ہے اور دی سکول ہاوس آف ٹریننگ کی ٹیم امید کرتی ہے کہ حکومتی حلقے نوجوانوں اور طلبہ اور والدین کی موثر ذہنی و جذباتی صحت کے لئے ہماری خدمات سے ضرور استفادہ کریں گے تاکہ دی سکول ’’ ہاوس آف ٹریننگ ‘‘ حکومتی اداروں کے شانہ بشانہ اپنی خدمات سے عوام کو مستفید ہونے ہونے کا بھر پور موقع فراہم کر سکے اور حکومتی اداروں پر موجود بوجھ بانٹا جا سکے ۔
 

Faheem Shakir
About the Author: Faheem Shakir Read More Articles by Faheem Shakir: 3 Articles with 2178 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.