مجھے پہچانو : فاقہ نہیں ، روزہ ہوں میں

مجھے پہچانو
فاکہ نہیں ، روزہ ہوں میں

روزوں سے متعلق جو غلط فہمیاں امت کے اندر نفوذ کر چکی ہیں ان کا ازالہ اگر نہ کیا جاے تو روزے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے ، واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلم امت کس قدر فاکہ کشی کے لئے اقدام کرتی نظر آتی ہے جبکہ فاکہ کشی کے ساتھ ساتھ دوسرے محرمات سے بھی پرہیز و اجتناب بے حد ضروری ہے، عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ ایک روزے دار کا پورا دھیان صرف غزا نہ کھانے پر رہتا ہے ، فجر کی اذان سے لے کر مغرب تک خود کو بھوکا پیاسا رکھ کر بڑے مطمئن انداز میں یہ سمجھتا ہے کہ فاکہ کرکے بڑا کمال کیا اور روزہ داروں میں شامل ہوگیا ، وہ یہ نہیں جانتا کہ فقط بھوکا پیاسا رہنا روزہ کا نام نہیں ہے -

ایک مثال کے ذریعے سے بات کو واضح کرتے ہیں یہ واقعہ اصلی ہے یا فرضی اس سے ہمارے مقصد کو کوئی چوٹ نہیں پہونچتا ، بات صرف سمجھانے کی ہے ، ماہ مبارک رمضان میں دو نوجوان ایک راستے سے کہیں جا رہے تھے ، ان کی نظر ایک بزرگ شخص پر پڑی جو کچھ غزا تناول کر رہا تھا ، جوانوں نے تعجب سے پوچھا کہ اے پیر مرد ! کیا آپ نے روزہ نہیں رکھا ہے؟ بزرگ نے جواب دیا " جی کیوں نہیں، بالکل روزے دار ہوں " جوان مسکرائے اور کہنے لگے ہمیں بیوقوف بنا رہے ہیں یا خود کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟ بزرگ: اس میں دھوکہ کی کیا بات ، میں نے جو کہا وہ سچ ہے ، ، میں آنکھ سے برا نہیں دیکھتا ، کان کو برا سننے سے بچاتا ہوں ، زبان کو کسی کی غیبت یا دلآزاری سے باز رکھتا ہوں اور معصیت پروردگار سے اپنے وجود کو بچاتا ہوں، ہاں اتنا ہے کہ معدہ کو( تکلیف کی بنا پر) بھوکا نہیں رکھ پاتا ہوں، آپ سنائے کیا آپ نے روزہ رکھا ہے ؟ یہ سن کر دونوں جوانوں کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمایاں ہوگئے اور کہنے لگے " ہم ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم روزےدار ہیں لیکن افسوس اب پتہ چلا کہ ہم نے صرف فاکہ رکھا ہوا ہے اور ابھی تک فاکہ رکھتے آئے ہیں" -

کیا اسی جیسا حال ہم اپنے ارد گرد مشاہدہ نہیں کرتے؟ کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں جو فقط فاکہ رکھنے کو روزہ سمجھتے ہیں- شارع مقدس نے روزے کے جو احکام بیان کئے ہیں اس میں ظاہری طور پر نو چیزیں ایسی ہیں جن سے پرہیز کرکے روزہ دار کا روزہ ، روزہ کہلاتا ہے ، جبکہ باطنی طور پر بھی ایسی کئی چیزیں ہیں جن کا ارتکاب کرکے روزہ ، روزہ نہیں رہتا - مثلا کسی کی غیبت کرنا ، چاہے ماہ مبارک رمضآں ہو یا نہ ہو ، گناہ ہے، اگرچہ مبطلات روزہ میں" غیبت " شامل نہیں ہے ، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ روزے دار اگر غیبت کرے تب بھی اس کا روزہ صحیح ہے؟ اس کا جواب ہمیں اس واقعہ سے مل جاتا ہے ، ایک عورت کسی کام سے حضور ص کی خدمت میں حاضر ہوئی جو کوتاہ قد رکھتی تھی ، حضور کے پاس بیٹھی ایک روزہ دار عورت نے حضور ص سے اس عورت سے متعلق اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہ عورت پست قد والی ہے ، حضور نے اسے فرمایا تمہارا روزہ ختم ہوا اس لئے کہ تم نے ابھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھایا - اس سے پتہ چلا کہ فقط کھانا پینا چھوڑنا روزہ کا نام نہیں ہے -

سحری سے متعلق بھی بہت سارے لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں ، کتنے ہی ایسے گھرانے یا افراد ہیں جو اگر سحری کے وقت اٹھ نہیں پائے تو اس دن روزہ نہیں رکھتے اور یہ بہانہ پیش کرتے ہیں کہ آج تو سحری کے وقت بیدار ہی نہیں ہوئے تو روزہ کیسے رکھتے؟ ایسے لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ سحری اگر چھوٹ جائے تو روزہ تب بھی بہر حال واجب ہے اور رکھنا ضروری ہے . نہیں رکھا تو قضا کے ساتھ ساتھ پھر کفارہ بھی ادا کرنا پڑے گا _ سحری کھانا کوئی واجب امور میں سے نہیں بلکہ مستحب ہے ، اگر چھوٹ جائے تب بھی کوئی حرج نہیں ، بغیر سحری کے ایک دن روزہ رکھنے سے انسان مر نہیں جاتا_

وہ لوگ جو دن میں تمام محرمات سے اجتناب کرتے ہیں چونکہ روزے کی حالت میں ہوتے ہیں لیکن جونہی افطار کرتے ہیں جیسے کسی قید سے چھوٹ جاتے ہیں اور پھر ایسے کام انجام دیتے ہیں جو ناجائز ہوتے ہیں، ایسے لوگ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کریں کہ دن بھر روزہ رکھ کر جو تقوی اور جو نورانیت حاصل کر لی تھی وہ برباد ہو جاتی ہیں فاکہ کشی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا- چنانچہ معصوم کا قول ہے کہ جو شخص کان، آنکھ ، زبان اور دوسرے جوارح کو گناہوں سے محفوظ نہی رکھتا اس کا روزہ کسی کام کا نہیں ہوگا ( بحار الانوار ج 93 ص 295)- روزہ رکھنے کا سب سے اہم مقصد جو قرآن نے بیان کیا ہے تقوی ہے ، جو گناہوں سے دوری کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے ، تیس دن روزہ اسی لئے رکھنا ہے تاکہ گناہوں سے بچنے کی مشق ہو ، جو شخص گناہوں میں اتنا ڈوب چکا ہو اور گناہوں سے اجتناب اس کے لئے بہت مشکل ہو تو اس کی یہ مشکل بھی ماہ رمضان میں روزہ رکھ کر دور ہو سکتی ہے کیونکہ جب ایک عمل بار بار کیا جاے تو انسان کا نظام طبع وہی طرز و روش اختیار کرلیتا ہے_ کیا فایدہ ہے ایسے روزے کا اور کون سا تقوی حاصل ہوسکتا ہے ایسے روزے سے جس میں صرف دن کو گناہوں سے اجتناب کیا جائے اور افطار کے بعد پھر سے خود کو گناہوں سے آلودہ کیا جائے ؟ اس کی مثال ایسی ہی جیسے کوئی شخص کسی پانی کے ٹینک میں دن بھر پانی بھرتا رہے اور پھر رات کے وقت سوراخ کر دے ، نتیجتا دن بھر کی محنت اس سوراخ کے ذریعے سے نیست و نابود ہوگئی _

لہزا ضرورت ہے ہم روزے کے حقیقی فلسفے کو سمجھیں اور اپنی محنت کو رائگان ہونے سے بچائیں تاکہ آخرت کےلئے زاد راہ جمع ہونے کے ساتھ ساتھ ہم اس مقصد میں کامیاب ہوجائیں جو خداوند متعال ہم سے چاہتا ہے _ اللہ ہمیں حقیقی روزے دار بننے کی توفیق عطا فرمائے -

Dr. Yawar Abbas Balhami
About the Author: Dr. Yawar Abbas Balhami Read More Articles by Dr. Yawar Abbas Balhami: 11 Articles with 15539 views MIR YAWAR ABBAS (BALHAMI)
(میر یاور عباس بالہامی )
From Balhama Srinagar, Jammu and Kashmir, IND
Ph.D Persian from Aligarh Muslim Universi
.. View More