خواتین کی حکمرانی کے بارے میں حقائق

اور حق داروں پر ظلم ہوجاتا ہے وہ بے چارے تڑپ تڑپ کر اللہ سے فریاد کرتے رہ جاتے ہیں کہ اللہ کیا ہماری قسمت ہی ایسی تھی کہ ہماری کوئی مدد ہی نہیں کرتا کیا ساری محرومیاں ہمارا ہی مقدّر بن چکی ہیں اور اس طرح انجانے میں عورت سے ایسے ایسے ظلم ہوجاتے ہیں جن کے بارے میں ان کو خبر ہی نہیں ہونے دی جاتی اور اگر خبر ہو بھی جائے تو وہ ان کو مجرم سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے کہ اس کی یہی سزا ہونی چاہیے کیوں کہ یہ ہے ہی اس قابل اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی حدوں کو نافذ کرنے کے لیے سختی چاہیے ہوتی ہے اور عورتیں رحم دل ہوتی ہیں اور مجرم کو سزا دینے کے معاملے میں رحم دلی کی وجہ سے عورت سزا نہیں دے پاتی ہے کیوں کہ وہ اللہ کی نظر میں اس کام کی اہل ہی نہیں ہے کیونکہ حد نافذ کرتے ہوئے رحم کرنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے اور اقتدار حاصل کرتے ہوئے جو اس نے یہ ظلم کیا ہے کہ مردوں کو اپنے سے دوگنا کمزور کر دیا جائے اور اللہ کا حکم ہے کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو ہرگز نقصان پہنچائے

اسلام اللہ نے دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے کہ کس طرح سے وہ اللہ کو راضی کر سکتے ہیں اور اپنے ازلی دشمن شیطان کو شکست فاش دے سکیں جس نے اپنے لیے جھنّم میں جانا قبول کر رکھا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ بنی آدم بھی اس کے ساتھ ہی جھنّم میں چلا جائے اور میں جھنّم میں جلتے ہوئے بھی اللہ سے کہہ سکوں کہ یہی وہ آدم کے بیٹے ہیں جس نے مجھے جنّت سے نکلوایا تھا اور ہمیشہ کے لیے مردود بنوایا تھا اور اللہ نے اس بات کا حکم دے رکھا ہے کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے اس کے جال میں مت پھنسو اور نا اس کے قدموں کی پیروی کرو اس طرح سے شیطان اور انسان کی جنگ شروعات سے ہی چل رہی ہے اور اللہ نے انسان کو کبھی بھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑا ہے شیطان کے ہر داوپیچ کا اللہ نے اپنے بندوں کو حل بتا رکھا ہے اور اللہ نے یہ بھی اپنی مقدّس کتاب میں بتا رکھا ہے کہ جب اس سے مقابلہ کرتے ہوئے مجھ سے مدد مانگو گے تو میں ضرور اس کے خلاف مدد کروں گا

یہاں میں اپنی تمام مسلمان بہنوں سے گزارش کروں گا کہ وہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے اس موضوع پر ایک نایاب اور بے مثال مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس کی پانچ چھ قستیں ہوں اور وہ ہمارے ملک میں دھوم مچادے اور اسلام کی دشمن عورتیں مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چیل کوّوں کو کھلا دیں اور مجھے شہادت مل جائے کیوں کہ ہمارے ملک میں حکومت ہی اسلام دشمن عورتوں کی ہے جو اپنی انا کی خاطر کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں کسی میں یہ مجال نہیں ہے کہ ان کی حکمرانی کے خلاف اور حکمرانی کے نام پر جو الٹے سیدھے قانون بنا اور چلا رہی ہیں ان کے خلاف کوئی آواز حق بلند کر سکے کیونکہ میں نے میڈیا میں جتنے بھی مضامین پڑھے ہیں ان سے یہی پتا چلتا ہے یا تو سب مسلمان علماء کا خرید کر ان کا منہ بند کردیا گیا ہے یا ان میں سے جو کوئی بھی اس موضوع پر لکھتا ہے یا تقریر کرتا ہے اس کو آن لائن ہی نہیں کیا جاتا ہے اور براہ کرم میری مسلمان ماوں بہنوں سے اس دعا کی بھی درخواست ہے کہ میرے مضمون آن لائن ہو جائیں آمین

کیوں کہ اس وقت اس موضوع پر میڈیا میں کوئی سرگرمیاں ہی نہیں ہیں اس لیے مجھے اپنی بات سمجھانے کے لیے شروع سے یعنی ا ب ت سے سمجھانا ہوگا یعنی جس موجوع پر 10 12 کلاسیں لوگوں نے پڑھ لی ہوں ان کو بات سمجھانا نہایت آسان ہوتا ہے مگر جس موضوع کے بارے میں سوچنا بھی جرم قراردے دیا گیا ہو اس کے بارے میں بات سمجھانے کے لیے ا ب ت ث سے ہی بات شروع کی جائے تو ہی بات سمجھ میں آ سکتی ہے چنانچہ میں سب سے اہم موضوع پر سب سے اہم چیز سے شروع کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ کا حکم کیا ہے اس موضوع کے بارے میں کہ کیا عورتیں مسلمان ملکوں کی حکمران بن سکتی ہیں یا کسی بھی ملک کی سر براہ بن سکتی ہیں ؟ تو جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں کیونکہ اللہ نے عورتوں کو حکمران بنانا منع فرمایا ہے

کیونکہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ اللہ کا حکم پورا نا ہو اور میرا حکم پورا ہو اس لیے وہ عورتوں کو حکمران بننے کے لیے طرح طرح کے دلائل سے تیار کر لیتا ہے کہ عورتیں ہر لحاظ سے مردوں سے بہتر ہیں اس لیے پوری دنیا پر عورتوں کی حکمرانی ہونی چاہیے اور مردوں کو عورتوں کے غلام بن کر زندگی گزارنی چاہیے عورتوں کے ایک اشارے پر مردوں کی فوج کی فوج کٹ مرنے اور مر مٹنے پر تیار ہو جائے اور دنیا ادھر سے ادھر سے ادھر ہو جائے کوئی عورت کے جاری کردہ احکامات کو ناماننے کی جرات نا کر سکے تو ثاپت ہوا کہ ایک طرف اللہ کا حکم ہو اور ایک طرف عورت کا حکم ہو اور اللہ کے حکم کو چھوڑ کر عورت کا حکم مانا جانا چاہئے

عورت کی حکمرانی سے اللہ کا حکم ٹوٹ جاتا ہے جس کی پرواہ اگر مسلمان عورتوں نے نہیں کرنی ہے تو کیا دوسرے مذاہب کی عورتوں نے کرنی ہے تو اس میں خاص بات یہ ہے کہ اللہ کا حکم ٹوٹنے سے اللہ کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ وہ توعلیٰ کل شیی قدیر ہے اور نقصان ہوتا ہے ان بےگناہ محتاج انسانوں کا جن کو محروم ہونا پڑتا ہے اپنے حق سے کہ اس کو کھانا دیا جائے اس کو پہناوا دیا جائے رہنے کے لیے مکان دیا جائے ہیمار ہے تو علاج کرایا جائے اس کی تعلیم و تربیّت کی جائے مگر اللہ نے حکم ہی جب مردوں کو دے رکھا ہے عورتوں کو تو یہ مسائل نظر ہی نہیں آتے کیوں کہ وہ تو سارے وسائل اللہ کا حکم توڑ کراقتدار کو حاصل کرنے میں صرف کردیتی ہے اور اپنے حساب سے وہ سب کچھ صحیح کر رہی ہوتی ہے لیکن جعل ساز اور بہروپیے بھلا پھسلا کر اپنی مظلومیت کا یقین دلا کر حق داروں کا حق بٹور کر لے جاتے ہیں

اور حق داروں پر ظلم ہوجاتا ہے وہ بے چارے تڑپ تڑپ کر اللہ سے فریاد کرتے رہ جاتے ہیں کہ اللہ کیا ہماری قسمت ہی ایسی تھی کہ ہماری کوئی مدد ہی نہیں کرتا کیا ساری محرومیاں ہمارا ہی مقدّر بن چکی ہیں اور اس طرح انجانے میں عورت سے ایسے ایسے ظلم ہوجاتے ہیں جن کے بارے میں ان کو خبر ہی نہیں ہونے دی جاتی اور اگر خبر ہو بھی جائے تو وہ ان کو مجرم سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ہے کہ اس کی یہی سزا ہونی چاہیے کیوں کہ یہ ہے ہی اس قابل اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی حدوں کو نافذ کرنے کے لیے سختی چاہیے ہوتی ہے اور عورتیں رحم دل ہوتی ہیں اور مجرم کو سزا دینے کے معاملے میں رحم دلی کی وجہ سے عورت سزا نہیں دے پاتی ہے کیوں کہ وہ اللہ کی نظر میں اس کام کی اہل ہی نہیں ہے کیونکہ حد نافذ کرتے ہوئے رحم کرنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے اور اقتدار حاصل کرتے ہوئے جو اس نے یہ ظلم کیا ہے کہ مردوں کو اپنے سے دوگنا کمزور کر دیا جائے اور اللہ کا حکم ہے کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو ہرگز نقصان پہنچائے

تو عورت نے حصول اقتدار کی جنگ میں اپنے موقف کے مخالف مردوں کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے وہ الگ ظلم اور اللہ کی نافرمانی کی وہ الگ جرم ہے اور پھر اللہ کے دین کے دشمن اس کو آسانی سے مسلمانوں کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ مسلمان تو اس سے ناراض ہیں کہ اس نے جان بوجھ کر اللہ کی نافرمانی کی ہے اور وہ اس میں حق بجانب ہیں اور اسی بات کا شیطان اور اس کے ساتھی لازمی طور پرفائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو کمزور کرکے شکست دے کر اپنا غلام بنا لیں گے اور اللہ کے دین سے لوگ بد زن ہوکر گمراہی کے راستے پر چل پڑیں گے اور عورتوں کے ذریعے اتنی کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد ظاہر ہے کافر اس کو اور زیادہ مراعات فراہم کریں گے اور یوں عورتیں اللہ کا دین چھوڑ کر کافروں سے مل جاتی ہیں اور یوں کافروں کی کامیابی اور مسلمانوں کی ناکامی یقینی ہو جاتی ہے

اور جب اقتدار ہاتھ میں آیاہوا ہوتو عورتوں کے سامنے کوئی کفر اور اسلام کی بات نہیں کر سکے گا اور نا وہ ایسا کرنے کی کسی مسلمان کو اجازت دیں گی کیونکہ اقتدار سے بڑے بڑے عقلمندوں کو نشہ ہو جاتا ہے یہ تو پھر ناقص العقل عورتیں ہوتی ہیں جن کو ظاہر ہے زیادہ نشہ ہوگا اور پھر وہ زیادہ غلط فیصلے کریں گی اور زیادہ ظلم کریں گی - اسی لیے اللہ نے عورتوں کو حکمران بنانے سے منع فرمایا ہے لیکن عورتیں اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں وہ آگے سے دلائل دیتی ہیں کہ جو عورتیں ظلم کر سکتی ہیں وہ انصاف بھی تو کر سکتی ہیں جیسے برے اور ظالم مرد ظلم کرتے ہیں اور اچھے اور نیک اور انصاف پسند مرد انصاف کرتے ہیں اسی طرح جو ظالم عورتیں ہوتی ہیں وہ ہی ظلم کرتی ہیں اور جو نیک اور انصاف پسند ہوتی ہیں وہ انصاف کرتی ہیں اور مردوں سے بہتر کرتی ہیں اور اللہ کا حکم تو مردوں اور عورتوں کے لیے سب کے لیے یکساں ہوتا ہے -

کیا اللہ کا حکم حکمرانی کے بارے میں مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے ؟

عورتوں اور مردوں کے لیے اللہ کے احکامات کے بارے میں ہمارے معاشرے میں بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ عورتوں اور مردوں کی شریعت کوئی الگ الگ نہیں ہے اچھے برے لوگ ہر کمیونیٹی میں ہوتے ہیں ہر دینی سیاسی یا جہادی تنظیموں میں اور جماعتوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں نیک بھی اور بد بھی مخلص بھی اور منافق بھی غدّاربھی اور وفادار بھی خوبصورت بھی اور بد صورت بھی کامیاب لوگ بھی اور ناکام بھی عقلمند بھی اور بے وقوف بھی بہادر بھی اور بذدل اور ڈرپوک بھی طاقتور بھی اور کمزور بھی اس لیے عورتیں بھی آخر انسان ہوتی ہیں ان میں بھی اچھی بھی اور بری بھی ہر طرح کی عورتیں ہوتی ہیں مردوں کی طرح ہر کیٹا گری کے لوگ ہوتے ہیں ان میں تو پھر احکامات بھی تو یکساں ہونے چاہئیں اگر مردوں کے ساتھ ظلم ہو سکتا ہے تو عورتوں کے ساتھ بھی ظلم ہو سکتا ہے اور اگر عورتیں مردوں کو ناکام کر سکتی ہیں تو کامیاب بھی تو کر سکتی ہیں جیسے جو مرد ان کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں ان کو وہ کامیاب کرتی ہے اور کافروں کے بہکاوے میں آکر مسلمانوں کو تباہی کے دھانے پر لے جاتی ہیں تو اس میں قصور ان مردوں کا ہوتا ہے جو ان کی حکمرانی کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور کافر اس لیے کامیاب ہو جاتے ہیں کہ وہ عورتوں کو اہمیّت دیتے ہیں ان کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں

ان کو برابر کا حق دیتے ہیں مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جینے کا موقع دیتے ہیں تو ایسا اگر مسلمان مرد کریں گے تو ان کو بھی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے وہ بھی تباہی سے بچ سکتے ہیں -
مگر جو لوگ ایسے سوالات کرتے ہیں وہ اللہ کے حکم کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے وہ آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے نیچے سے تم پر حملے کرے گا اور اس وقت تک حملے کرتا رہے گا جب تک وہ کامیابی حاصل نہیں کرلیتا تو ایسی کامیابی جس سے شیطان کامیاب ہو وہ مسلمانوں کے لیے کیسے کامیابی کہلا سکتی ہے کہ جیسے شیطان اور کافر جس طرح کے جی چاہے ہتھکنڈے استعمال کر کے عورتوں کو استعمال کریں گے ان کو تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ عورت کو اللہ کا شریک بنالیں اور عورت کی پوجا شروع کردیں اور مسلمان مرد عورتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے شیطان اور کافروں کی پیروی کرتے پھریں اور اللہ کے مجرم بن جائیں اور شیطان کی پیروی کرکے دنیا کی کامیابی حاصل کرتے کرتے جہنّم میں جاگریں تو ایسی صورت میں بھی شیطان کے پاس دلائل ہیں

کہ جنّت جہنّم کچھ بھی نہیں دنیا ہی سب کچھ ہے اس لیے چاہے شیطان کی پیروی کرو یا کافروں کی بس کامیابی حاصل ہونی چاہیے تو اس میں کون سی حیرت کی بات ہے کیونکہ یہی کچھ تو ہماری تعلیم سکھاتی ہے جو سکول کالج میں پڑھائی جاتی ہے اور ڈراموں اور فلموں اور ٹاک شوز نیوز بریکس اور تقریروں میں سکھایا جاتا ہے اور کاروبار تجارت سفر حضر میں بھی یہی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جو قانون دنیا بھر میں چل رہا ہے اس پر چلنا آج کے دور میں سب کی مجبوری ہے اب رہی سہی کسر اس سب کی مجبوری نے نکال دی کہ اتنی فلائٹیں باہر ملکوں میں آتی اور جاتی ہیں اور وہاں جاکر ہمارے ملک والے بیک ورڈ اور پینڈو لگتے ہیں اس لیے ہمیں ان کی طرح ترقّی یافتہ اور فاروڈ لگنا چاہیے تاکہ ہم وہاں جاکر احساس کمتری کا شکار نا ہو جائیں اس لیے ہمیں جو کلچر ساری دنیا میں پاپولر ہے وہ اپنانا چاہیے اور پوری دنیا میں اسلام کے نام پر تنگ نظری والا مذہب نہیں ہے

بلکہ کھلے دلوں اور خندہ پیشانیوں کے ساتھ سیلیبریٹ کیا جاتا ہے اور بھر پور انداز میں انجوائے کیا جاتا ہے لائف کو اب کون عمل کرے اسلام جیسے پرانے خیالات والے مذہب پر تو اللہ کے حکم کی بات ہی مت کرو کیونکہ ساری دنیا کے لوگوں پر بھی اللہ کے حکم پر عمل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ہم پر تو اسلام کے ٹھیکیدار پہلے جاکر ساری دنیا والوں کو اسلام پر چلائیں تو پھر ہم سے بات کریں ہم ان کے پیچھے لگ کر ساری دنیا سے ٹکّر لینے سے تو رہے اور یوں اللہ کے حکم کو ناصرف ٹھکرا دیا جاتا ہے بلکہ صاف صاف انکار کر دیا جاتا ہے اور کوئی یہ کہے کہ آپ اللہ کے حکم کو ٹھکرا کر دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں تو اس کو ایسا بے عزّت کیا جاتا ہے کہ تم ہم کو کافر کہنے والے کون ہوتے ہو تم ہم سے زیادہ اللہ کے احکامات کو توڑتے ہو اور ہم سے بڑے کافر تم خود ہو اور جو سزا ان کو دی جانی تھی دعوت حق دینے کے جرم میں ایک اسلام کے وفادار کو دے دی جاتی ہے

اور پھر کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ کوئی دعوت حق ان دنیا والوں کو دے سکے اور پھر نماز بھی طاقت وروں کے طریقے پر پڑھائی جاتی ہے اور خطبہ بھی اور دوسرے معاملات کے بارے میں بھی اپنی مرضی کے فتوے لے لیے جاتے ہیں اور جو فتویٰ نا دے اس کو سسک سسک کر اور تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور اس کے گھر والوں کو ہی ان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے اور منحوس بنا دیا جاتا ہے کہ یہ تو ایسا ہے جیسے دھوبی کا کتّا نا گھر کا نا گھاٹ کا اور پاگل دیوانہ ایکسٹریمسٹ دہشت گرد اور نا جانے کیا کیا خطابات دیے جاتے ہیں اور اس بات پر مجبور کر دیا جاتا ہے کہ ہم اتنے قابل اور طاقتور سمجھ دار اور عالی نصب ہونے کے باوجود اپنے آپ کو غدّاری سے نہیں بچا سکے کفر سے نہیں بچا سکےتو کوئی ایک بھی ہم سے زیادہ قابل بن جائے ایسا ہم ہونے نہیں دیں گے بلکہ سب کو غدّار اور بے ایمان بننا پڑے گا اور یوں ایک کسوٹی بنادی جاتی ہے جو اس کسوٹی کے مطابق پورا نہیں اترتا وہ نا نوکری کے قابل ہے نا امداد کے نا کاروبار چلا سکتا ہے

نا اس کو ٹکٹ مل سکتا ہے اسمبلی کا یا کسی پارٹی کا اور اس سے بھی بڑھ کر اس کو بس کا ٹکٹ نہیں مل سکتا اور ایسا ہر شہر ہر قصبے اور ہر گاوں میں ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں جالات پر قابو نہیں پا سکتی ہیں اور حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں اور کرپشن بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عورتیں تو کیا ہر لحاظ سے قابلیّت اور اہلیّت رکھنے والے مرد بھی حالات سے میں سدھار نہیں لا سکتے ہیں اور اگر سدھار لا سکتے ہیں تو وہ لا سکتے ہیں جنھوں نے کرپشن پھیلا رکھی ہے اور اگر انھوں نے سدھار لانا ہوتا تو کرپشن پھیلاتے ہی کیوں تو اس طرح امریکی آئیں گے اور پھر ملک کو چھین لیں گے اور اپنے طریقے اپنے قانون رائج کر دیتے ہیں اور پھر ان کے آگے کرپشن پھیلانے والے بھی آنکھ نہیں اٹھا سکتے اور پھر اللہ کے حکم کو نا مان کر جو فتنہ فساد کرپشن پھیلائی تھی اب اللہ کے دشمنوں کا حکم بلا چون و چرا مان لیتے ہیں جو نہیں مانتا اس کو نشانہ عبرت بنا دیا جاتا ہے دین میں زور زبردستی نہیں والے سارے نعرے قصّہ پارینا بن جاتے ہیں اور پھر جو اللہ کے حکم پر عمل کرنا چاہے اس کے لیے دوگنی چوگنی مشکلات بڑھ جاتی ہیں --- جاری ہے
 

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 126215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.