بیس رکعات نماز ترایح سنت موکّدہ!

 بردران اسلام کے لئے رمضان شریف کا مبارک مہینہ عالم روحانیت کا موسم بہار ہے ۔ اس مبارک مہینہ میں دن کو فرض روزہ رکھنا اور رات کو سنت تراویح پڑھنا مخصوص عبادت ہے ۔ اس ماہ مبارک کے برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں ایک رکعات نفل کا ثواب فرض کے برابر جبکہ فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر کردیا جاتا ہیں ۔

حضرت عبدالرحمن بن خوف رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک اﷲ تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس میں رات کو قیام سنت قرار دیا ہے سو جس نے رمضان کے روزے رکھے اور رات کو قیام (تراویح )کیا ایمان کی حالات میں وہ ایساپاک ہواگناہ سے جیسے اس کو ابھی اس کی ماں نے جنا ہو، (لنسائی جلد ایک صفحہ ۲۳۹)

آج میں ترایح کی اہمیت بتانے کی کوشش کرونگا ،کیونکہ رمضان المبارک آتے ہی بعض لوگ بیس رکعات تراویح کو خلاف سنت اور بدعت قرار دیتے ہیں ، تراویح کی جماعت کے ساتھ باقاعدگی سے آغاز حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دور سے کیا گیا ہے ۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ان خلفاء راشدین میں سے ہیں، جن کی بابت رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اسی کو ڈاڑھوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروقؓکا یہ اقدام عینِ سنت ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ۲ ص ۱۰۴،)

اس ہی حوالے سے چند احادیث کا تبصرہ کرتا چلوں ۔ دور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین ترایح کی تعداد کیا تھی ، حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت کہ رسول خدا ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعتیں اور تین وتر پڑھاکرتے تھے ، (مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲)حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ایک رات رسول خدا ﷺ باہر تشریف لائیں اور صحابہ کرام ؓ کو27 رکعتیں (چار فرض بیس ترایح اور تین وتر پڑھائیں (تاریخ جرجان صفحہ 28)

حضرت ثابت بن یزید ؓ فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہ کرامؓ)حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کت دور خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے جبکہ عہد عثمانی میں لوگ شدت قیام سے لاٹیوں کا سہارہ لیا کرتے تھے ۔ (سنن کیدیٰ جلد ۲ص ۴۹۲)

امام اعظم ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہے کہ نماز ترایح سنت موکیدہ ہے یہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے اپنی طرف سے مقرر نہیں کی ،کیوں کے حضرت عمر ؓ بدعت کے ایجاد کرنے والے نہیں تھے ۔ تراویح کی اصل یقیناََ ان کے پاس رسول خداﷺ سے ثابت تھی (مراقی الفلاح ص۳۳۴)

حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے بدعتی کو مدینہ میں پناہ دی اس کا کوئی فرض و نفل قبول نہیں اس لئے آپ ؓ نماز عید سے قبل نفل پڑھنے والوں کو سختی سے منع کیا کرتے تھے اور رمضان المبارک آتے ہی آپ قاریوں کو یہ حکم صادر کرتے کہ وہ بیس رکعات تراویح پڑھائیں ، ( بیہقی جلد ۲ صفحہ نمبر ۴۹۶) ،

مدینہ منورہ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کے دور سے ہی بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہے اور آج بھی بیس ہی رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں مدینہ منورہ میں۔ رسول خدا ﷺ کی دنیا سے رخصتی کے بعد حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا مدینہ منورہ میں ہی قیام پزیر تھی ، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے رسول خدا ﷺ کا یہ ارشاد نقل فرمایا کہ جس نے ہمارے اس امر(دین) میں بدعت نکالی وہ مردود ہے ، اگر بیس رکعات تراویح بدعت ہوتی یا ناجائز تو اماں عایشہ رضی اﷲ عنہا سالہاسال اس پر کبھی بھی خاموش نہیں رہتی ۔

حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حدیث پاک کے راوی ہے جس میں رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی جہنم میں لے جانے والی چیز ہے ، آپ ؓ کے سامنے تقرباََ نصف صدی تک مدینہ منورہ میں بیس رکعات تراویح باجماعت پڑھی جاتی رہی لیکن آپ ؓ نے ان کے خلاف بدعت کا حکم نہیں دیا ۔

ائمہ اربعہ یعنی چاروائمہ کرام سب کے سب بیس رکعت تراویح کے قائل تھے ، امام اعظم ابو حنیفہ ؒ بیس رکعت نماز تراویح کے قائل تھے (قاضی خان جلد۱ص۱۱۲) امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ کے لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھتے پایا ( ترمذی جلد ۱صفحہ ۱۴۴)امام مالک ؒ کے ایک قول بیس رکعت کا ہے جبکہ ایک چھتیس کا ہے جس میں سولہ نوافل شامل ہے (ہدیۃالمجتہہ ج ۱ ص۱۶۷)امام احمد بن حنبل ؒ کامختار قول بھی بیس رکعت کا ہے (الختی جلد ۲ ص ۱۶۷)

’’قابل غور بات ‘‘
احادیث کی کتابوں میں بسا اوقات رسول خدا ﷺ کی ایک بات کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری روایت میں اس بات کی ممانعت ہوتی ہے ، احادیث کو ظاہری اور سرسری دیکھ نے والے پریشا ن ہوجاتے ہے کہ کس حدیث پر عمل کیا جائے آج بھی یہی صورت حال ہے کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ سنت پر عمل کر و تووہ بھی یہی جواب دیتا ہے کہ اس سنت کی روایت میں اختلاف ہے کس روایت پر عمل کیا جائیں۔

رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ میرے بعددمیری امت کے لوگ بہت سا اختلاف دیکھے گی جس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی تکمیل آہستہ آہستہ ۲۳ سال میں ہوئی بعض امور شروع اسلام سے جائز تھے اور آخر میں ناجائز قرار دئے گئے ، جیسے کہ نماز میں باتیں کرنا، شراب کا استعمال، جوا یہ پہلے اسلام میں منع نہیں تھی آخری حصے میں حرام قرار دی گئی، عاشورہ کا روزہ رکھنا ،تہجد کی نماز ، وغیرہ ان ۲۳ سالوں میں لوگ مسلمان ہوتے رہے پھر بعض ہجرت کرکے دوسرے ممالک چلے گئے اور ان ہی باتوں پر عمل کرتے رہے جو پہلے سے ان کو معلوم تھیں آگر چہ بعد میں ان کی جگہ دوسری چیزیں شروع ہوچکی ہو ۔ بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین دور دراز کے رہنے والے تھے وہ چند دن رسول خداﷺکی دربار میں رہتے جو سیکھتے اپنے وطن میں جاکے اس پر ہی عمل پیرا رہتے اور اسی کی روایت کرتے رہتے۔ کچھ صحابہؓ رسول خدا ﷺکے دور میں ہی جہاد اور تبلیغ کے سلسلے دور دراز علاقوں میں چلے گئے اس لیئے ضروری تھا کہ اختلاف ہو کیونکہ بعد میں آنے والے لوگوں کہ سامنے تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کی روایات ہونگی وہ دیکھیں گے ایک صحابی ایک روایت کرتا ہے تو دوسرا اس کے بر عکس ہو تا ہے -

اب اس کا حل کیا ہے کس روایت پر عمل کیا جائیں ؟ اس کا حل خود آپ ﷺ ارشاد فرمایا ہے ، خلفائے راشدین ، عبداﷲ بن مسعود اور ان جیسے کئی صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین جو ہما وقت دربار رسالت ﷺ میں حاضر رہتے تھے ، دن و رات کے ساتھی تھے ، جنہونے آپ ﷺ کی پوری زندگی کو قریب سے دیکھا اور صحیح مطلب تک رسائی بھی رکھتے تھے ان کی اتباع کا حکم دیا کیونکہ کے یہی صحابہ کرام تکمیل دین تک اور رسول خدا ﷺ کی دنیا سے رخصتی تک آپ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ اس لئے ان ہی روایات پر عمل کیا جائے جو خلفائے راشدین یا ان جیسے بڑے صحابہ ؓ کا عمل ثابت ہو ۔ اﷲ ہم کو صحیح مانے پر دین اسلام پر عمل پیرا فرمائے (آمین)

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84732 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.