کلبھوشن اور عالمی عدالت

عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کیس پر 18 مئ کو فیصلہ دیا کہ حتمی فیصلے تک کلبھوشن کو سزاۓ موت نہ دی جاسکتی ہے اور نہ دی جاۓ گی۔ عالمی عدالت کے اس فیصلے سے پاکستان کے اندر مایوسی کی لہر دوڑ گئ۔ عالمی عدالت کے اس فیصلے سے قبل ہمارے تجزیہ نگار بہت پر امید تھے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا کیوں کہ 15 مئ کو عالمی عدالت میں ہونے والی سماعت میں پاکستانی وکیل خاور قریشی نے جس ظرح کیس کی پیروی کی تھی، وہ ہمارے تجزیہ نگاروں کے مطابق قابل ستائش تھی جس کی وجہ سے بھارتی وکیل کے پسینے چھوٹ گۓ تھے۔ مگر ایک دم یہ کیا ہوا کہ جیسے ہی فیصلہ ہمارے خلاف ہوا، ہم وکیل کے خلاف ہوگۓ۔ کل تک ہم پر امید تھے تو خاور قریشی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے اور آج جب فیصلہ ہماری مرضی کے مطابق نہ ہوا تو وہی خاور قریشی ناتجربہ کار وکیل ٹہرا دیا گیا۔

بیرسٹر راشد اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اس کیس کے لئے بلکل تیاری نہیں تھی۔ پاکستانی وکیل کو اپنا موقف پیش کرنے کے لئے 90 منٹ ملے تھے جس میں سے 40 منٹ ضائع کر دئے گئے۔

سابقہ اٹارنی جنرل فرقان قادر کہہ رہے ہیں کہ پاکستان وہاں گیا ہی کیوں تھا؟ اور یہ کہ ایک ناتجربہ کار وکیل نے اس کیس کی پیروی کی جس کی دلیلوں میں کوئی وزن نہیں تھا۔

پیپلز پارٹی کی سینئر لیڈر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ہمارا کیس کمزور تھا۔

وکیل فیصل نقوی کا کہنا ہے کہ سوال یہ نہیں کہ کلبھوشن کو پھانسی دی جانی چاہئے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا وہ قونصلر رسائی کا حق حاصل کر سکتا ہے؟

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوۓ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا حکومت پاکستان کو عالمی عدالت میں اس معاملے کو پیش کرنے کے لئے ایک اٹارنی جنرل بھیجنا چاہیئے تھا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اتنی ساری باتیں اور سوالات جو اب اٹھاۓ جا رہے ہیں، پہلے ان سب کا شور کیوں سنائ نہ دیا؟ سارے کا سارا نزلہ ایک وکیل پر ہی گرایا نہیں جا سکتا۔ غلطی پاکستان نے کی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ کیس عالمی عدالت میں لے جانے پر حامی کیوں بھری؟ جب کہ عالمی عدالت میں کوئ کیس اس وقت تک نہیں لے جایا جا سکتا جب تک کہ دونوں فریقین اس بات پر راضی نہ ہوں۔ ویانا کنونشن کے آرٹیکل بی 5 میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اگر کوئ جاسوس پکڑا جاۓ تو اس کے تمام انسانی حقوق ضبط کر لئے جایئں۔ پاکستان چاہتا تو اس کیس کو عالمی عدالت میں لے جانے کے لئے قطعی طور پر حامی نہ بھرتا بلکل اسی طرح جس طرح انڈیا نے کشمیر کے تنازعے کو عالمی عدالت میں لے کر جانے پر حامی نہیں بھری تھی۔ 17 سال پہلے جب پاکستان نے عالمی عدالت میں ایک معاملہ پیش کیا تھا تو عالمی عدالت نے کہا تھا کہ ہمارے پاس فیصلہ صادر کرنے یا قانون نافذ کرنے کا اختیار نہیں اور آج پاکستان کے موقف کو رد کرتے ہوۓ یہ کہہ رہی ہے کہ ہمارے پاس فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہے۔ نہ یہ کیس عالمی عدالت میں جاتا اور نہ ہی انڈیا والے عالمی عدالت کے اس فیصلے پر آج جشن منا رہے ہوتے۔

دوسری بات یہ کہ اگر یہ کیس عالمی عدالت میں چلا ہی گیا تھا تو پاکستان کو عالمی عدالت میں اپنا جج متعین کرنے والے حق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے تھا۔

عالمی عدالت نے پاکستان کے خلاف ابھی کوئ حتمی فیصلہ نہیں دیا ہے۔ عالمی عدالت دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد ہی کوئ حتمی فیصلہ دے گی۔

اب یہ پاکستان پر ہے کہ اگلے مرحلے کے لئے پوری تیاری کے ساتھ سامنے آئیں اور عالمی عدالت میں اپنا جج بھیجنے کے حق کو ضرور استمعال کریں۔

خدا ہمارے وزیر اعظم کو اتنے سنگین مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کی توفیق دے۔ انھوں نے اس معاملے پر ایسی چپ سادھی ہوئ ہے جیسے کلبھوشن سے ان کی کوئ رشتہ داری نکل آئ ہو۔ پانامہ لیکس کرپشن اسکینڈل کی وجہ سے وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے تو ایک ماہ کے اندر اندر قوم سے چار بار خطاب کر سکتے ہیں مگر ملک میں اتنا سنگین معاملہ ہو گیا، اس پر خاموش ہیں۔ نہ انھیں اس معاملے پر قوم کو اعتبار میں لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اس سنگین مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر لوگوں کے سامنے لاۓ ہیں۔ وہ فی الحال نریندرا مودی کے خاص آدمی جندل کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 30170 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.