سگریٹ نوشی چھوڑ دیں!!

گزشتہ سال ہمارے ایک عزیز اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہیں بیک وقت کئی بیماریوں کا سامنا تھا۔ دمہ، پھیپھڑوں کا کینسر، دل کا دورہ، معدہ کی خرابی اور اعصابی تناؤ۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان سب امراض کی جڑ ان کی سگریٹ نوشی تھی۔ وہ بلا کے سگریٹ نوش تھے۔ دن میںدو سے تین سگریٹ کی ڈبیاں ختم کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔

سگریٹ کیا ہے؟ یہ تمباکو، کاغذ اور فوم کے چھوٹے سے ٹکڑے کے مجموعے کا نام ہے۔ اس کی ایجاد کا سہرا میکسیکو (امریکہ) کے سر ہے۔ پہلے پہل تمباکو کو خاص قسم کے پتوں میں لپیٹ کر پیا جاتا تھا۔ پھر 1847ء میں Juan Nepomuceno Adorno نے دنیا کی سب سے پہلی سگریٹ مشین ایجاد کی۔ اور 1880ء میںمیکسیکو کے جیمز البرٹ بونساک نے اس مشین کو جدید خطوط پر استوار کیا جس سے 4ملین سگریٹ روزانہ کی تعداد میں تیار ہونے لگے۔ اس وقت دنیا میں سگریٹ سازی اور تمباکو کی پیداوار میں امریکہ سب سے آگے ہے۔

NATCیعنی National Allince for Tobacco کی رپورٹ کے مطابق تمباکو نوشی کی فہرست میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔ جبکہ باقی تین ممالک ملائیشیا، انڈونیشیا اور ویتنام ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40% مرد اور 9% عورتیں تمباکو نوشی کی لت کا شکار ہیں۔ جن میں چھ سے بارہ سال کی عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔ 4جنوری 2017ء کو محکمہ صحت کے ایک اجلاس میں رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق سکول میں پڑھنے والے 12سال تک کی عمر کے 9.2% لڑکے اور 6.1%لڑکیاں نشہ کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جبکہ اپواء کے زیر اہتمام سگریٹ نوشی کے بارے میں ہونے والی ورکشاپ میں، سرگنگا رام ہسپتال کی ڈاکٹر عندلیب خانم نے انکشاف کیا کہ 22% پاکستانی خواتین اور 35%مرد سگریٹ نوش ہیں۔ جبکہ بارہ سو بچے روزانہ سگریٹ پینا شروع کرتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال یعنی سن 2005ء میں 90ارب سگریٹس پی گئیں۔ سگریٹ نوشی کا یہ شوق پوری دنیا میں 60 لاکھ لوگوں کی جان لے لیتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ لوگ سگریٹ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ جبکہ 50% سگریٹ نوش اپنی طبعی عمر پوری ہونے سے پہلے ہی ایکسپائر ہو جاتے ہیں۔سگریٹ نوشوں میں ان لوگوں کا بھی شمار کیا جانے لگا ہے جو سگریٹ نہیں پیتے لیکن ان کے ہم نشین ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹر طلحہ شہزاد کی رپورٹ کے مطابق یہ بالواسطہ سگریٹ نوش لوگ اوسطا 60ہزار کی تعداد میں سگریٹ کے دھوئیں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس دھوئیں میں نکوٹین، کاربن مونو آکسائیڈ، گارسینوجنک، سنکھیا اور امونیا موجود ہوتے ہیں۔جو خطرناک قسم کی زہریں ہیں اور بعض اوقات فوری موت کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ میٹریا میڈیکا کے مصنف ڈاکٹر جیلانی کے مطابق اس دھوئیں سے خون کا دباؤ کم ہوتا ہے، وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے جبکہ اعصابی تناؤ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اور آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں کی گئی تحقیق کے مطابق سگریٹ نوشی ان کے علاوہ بھی کئی امراض کا موجب بنتی ہے۔ مثلا: دمہ ، پھیپھڑوں کا کینسر، دل کا دورہ، بلند فشار خون،ذیابیطس، کان میں انفیکشن ، دانتوں کے مسائل، اور بچوں کی اچانک موت (سینڈروم) وغیرہ۔

لوگ سگریٹ کیوں پیتے ہیں، حالانکہ اس سے صحت کے ساتھ ساتھ قیمتی سرمایہ بھی ضائع ہوتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر سگریٹ نہ پینے والے کے ذہن میں کلبلاتا ہے۔ یہی سوال جب سگریٹ نوشوں سے کیا گیا تو انہوں نے جو جواب دیے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ عام طور پر سگریٹ نوشی شوقیہ اور بُری سوسائٹی کی بنا پر شروع کی جاتی ہے جو بعد میں مستقل عادت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل میں سکون کی تلاش، ذہنی دباؤ، کاروبار یا کسی معاملہ میں ناکامی، فارغ البالی، بے کاری، جنسی بے راہ روی، معاشرتی رشتوں میں دراڑیں، گھریلو اور دیگر جگہ ماحول میں تلخی وغیرہ ہیں۔

اس جان لیوا ڈائن یعنی سگریٹ سے جان چھڑانا مشکل نہیں ہے۔ بس قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ جب سگریٹ نوشی ترک کرنے والوں سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ اسے رفتہ رفتہ چھوڑنے کی بجائے یکدم چھوڑدیا جائے۔ نیز اس کے بارے میں میڈیا، سکول، کالج اور قومی و صوبائی سطح پر اجتماعی شعور بیدار کیاجائے، دین کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جائے اور قانون پر سختی سے عملدرآمد ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس بلائے ناگہانی سے جان نہ چھوٹے۔ بس ذرا سی ہمت کرنے کی ضرورت ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

عبدالصبور شاکر
About the Author: عبدالصبور شاکر Read More Articles by عبدالصبور شاکر: 53 Articles with 88785 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.