دو سوکنوں کی کہانی٬ وراثت اور طلاق

ایک تاجر کی بیوی تھی. اﷲ تعالیٰ نے اس کو نیکی بھی دی تھی اور حسن و جمال بھی دیا تھا. وہ زندگی گزارتی رہی. اس کا خاوند سفر کے لئے کسی دوسرے شہر جاتا ہے. کچھ دنوں کے وقفے سے اسے اس شہر جانا پڑتا ہے، وہاں اسے رہنا پڑ جاتا ہے. اب اس کی بیوی نے یہ محسوس کیا کہ اس کے خاوند کا قیام وہاں زیادہ ہونے لگا ہے. لہذا اسے احساس ہوا کہ کہیں اس نے وہاں دوسرا گھر تو نہیں بنا لیا.

چنانچہ اس نے اپنی اعتماد والی ایک خادمہ سے کہا کہ تم اس کے پیچھے جاؤ اور دوسرے شہر میں جہاں رہتا ہے وہاں ہمسایوں سے جاکر معلومات حاصل کرو. جب اس نے وہاں سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ چونکہ اسے وہاں دس پندرہ دن رہنا ہوتا تھا، اس لئے اس نے وہیں کسی عورت سے نکاح کر لیا تھا اور اسے ایک گھر بھی لے کر دیا تھا جہاں وہ جاکر رہتا تھا. گناہ نہیں تھا البتہ اس نے دوسرا نکاح کرلیا تھا.
جب اس عورت کو کنفرم ہوگیا تو اس نے سوچا کہ میرے خاوند نے نکاح تو کرلیا ہے اگر جھگڑا کروں گی تو خاوند کو خوا مخواہ میرے سامنے شرمندگی ہوگی یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرا خاوند کھلم کھلا کہہ دے کہ میں ادھر بھی وقت دوں گا اور ادھر بھی دوں گا تو مجھے ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو محبت کی مساوات میرے اور میرے خاوند کے درمیان ہے کیوں نہ میں اسی کو برقرار رکھوں. یہ سوچ کر اس نے پردہ رکھنے کا ارادہ کرلیا. چنانچہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ اسی محبت کے ساتھ رہتی رہی. حالانکہ اسے یقین تھا کہ جب یہ دوسرے شہر میں کاروبار کے لئے جاتا ہے تو وہاں اس کی دوسری بیوی بھی موجود ہے. اﷲ کی شان کہ کچھ مہینوں کے بعد خاوند کی وفات ہوگئی. جب خاوند کی وفات ہوئی تو اس کا جتنا سرمایا تھا وہ سارے کا سارا اسی بیوی کے پاس تھا. جب اس کی تدفین کا مرحلہ مکمل ہوا اور اس کی وراثت کی تقسیم کا وقت آیا تو اس کی بیوی اپنا حصہ بھی الگ کیا اور دوسری بیوی کا حصہ بھی الگ کر دیا اور اسی عورت کو جس نے اس کو بتایا تھا کہ اس کا دوسرا نکاح بھی ہے اس کو بڑی رازداری سے کہا کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے اور کوئی میرے خاوند کی بات بھی نہ کرے. لیکن اس کی وارثت میں اس بیوی کا شرعی حق ہے مجھے قیامت کے دن اﷲ کے ہاں جواب دینا ہے، اس کا حق میں نہیں کھا سکتی. لہذا یہ پیسے لے جاؤ اور اس سے کہو کہ تمھارے خاوند کی میراث میں سے یہ تمہارا حصہ ہے، اسے وصول کرلو. وہ عورت وہ رقم لے کر خاتون کے پاس گئی. وہ کافی ساری رقم تھی. اس نے جاکر اس سے بات کی کہ اس کے خاوند کی وفات ہوگئی ہے، اور اس کی بیوی نے اس کی وراثت میں سے تمہارا حصہ نکالا ہے . کیونکہ تم بھی آخر اس کی بیوی ہو. وہ اگر تمہارا حق کھاۓ گی تو وہ قیامت کے دن اﷲ کو جواب نہیں دے سکے گی. لوگوں کو تو پتہ نہیں مگر اﷲ کو تو پتہ ہے. لہذا تم یہ اپنا حصہ وصول کرلو! اس عورت نے وہ رقم پکڑ کر کہا کہ اﷲ اس کا بھلا کرے، وہ کتنی نیک عورت ہے، وہ کتنی اچھی عورت ہے جس نے میرا خیال رکھا! پھر اس نے کہا کہ تم یہ مال میری طرف سے لے جاکر اس عورت کو واپس کردو ، اس لئے کہ اس خاوند نے مرنے سے ایک ہفتہ پہلے مجھے طلاق دے دی تھی. اور اس طلاق کا پتہ یا مجھے ہے یہ میرے اﷲ کو ہے، لہذا اس وراثت میں میرا کوئی حصہ نہیں بنتا. یہ اسی کا حصہ ہے، لہذا اسے واپس کردو.

اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے ٹھیک ہے ، ہمارے معاشرے میں اگر ایسا واقعہ ہوجاے تو کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کوئی عورت آج کے معاشرے کی ایثار و قربانی کا ایسا جذبہ رکھی ہوئی ہوگی؟ یہ تعلیمات کونسا طریقہء زندگی دے رہا ہے؟ یہ دین اسلام دے رہا ہے. دنیا کو تو معلوم نہیں کہ حقیقت کیا ہے لیکن جب دل میں خوفِ خدا ہوتا ہے تو پھر لوگ ایک دوسرے کے حقوق کی اتنی رعایت رکھتے ہیں آج وہی دین اسلام ہے لیکن دین لوگوں سے ایسے نکل چکا ہے جیسے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
" لوگوں پہ ایسا زمانہ آئے گا کہ ان سے اس طرح دین نکل جائے گا جیسے اونٹ کے گلے سے رسی "-

YOU MAY ALSO LIKE: