حسنہ قسط نمبر 46

“ ماشااللہ شادی کے بعد بہت روپ آیا ہے۔ ہماری بیٹی پر ۔“ نائلہ نے کمرے میں آتے ہی اسکے چہرے پر نظر پڑتے ہی کہا ۔ اور آگے پھر کر اسکا ماتھا چوم لیا۔ حسنہ بھبی نائلہ کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی ۔

“ ارے یہ اچھا ہے تم دونوں مجھے بلکل نظر انداز کر گئی ہو ۔“ شازمہ نے مصنوئی غصے سے کہا۔ نائلہ اور حسنہ دونوں ہنسنے لگی پھر نائلہ نے اسے گلے سے لگایا۔

پھر تینوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کرنے لگی ۔ “ سلمان نظر نہیں آرہا ؟ “ شازمہ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا ۔

“ “ وہ اپنے پروجیکٹ میں مصروف ہے کہہ ریا تھا کہ یہ پروجیکٹ ختم کر کے بابا کے پاس انگلینڈ جا کر بزنس سنبھالے گا۔ اور مجھے بھی ساتھ چلنے کا کہہ رہا ہے جبکی میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ۔“ اسنے ساری تفصیل سے بات بتا دی۔

“ ارے والی کو بھی ساتھ لے آنا تھا۔ نئی نویلی دلہن اکیلی اچھی نہیں لگتی۔ میں ان دونوں کو ڈنر پر ایک ساتھ بلاتی۔ “ نائلہ نے مصنوئی خفگی سے کہا۔

“ ہاں ہاں کیوں نہیں والی کو تھوڑی پتہ ہے کہ ہم یہاں آئے ہیں۔ تم کل ہی بلا لو انکو ڈنر پر۔ “
“ ہاں کیوں نہیں “ پھر وہ دونوں اپنی باتیں کرنے لگی۔ حسنہ جی بھر کر بور ہو رہی تھی اب وہ ان دونوں کے بیچ میں کیا باتیں کرتی، نہ اسے انکی باتیں سمجھ آتی کیونکہ وہ اپنے کالج بچپن کی باتیں کرتی تھی۔ کبھی کبھی بیچ میں اسکی ماں کا زکر آجاتا تو وہ بات غور سے سننے لگتی نہیں تو بوریت سے جمایاں لینے اور روکنے میں مصروف تھی۔
“ حسنہ بیٹا! آپ بور ہو رہی ہیں تو ملازمہ کے ساتھ میری لائبریری ہی دیکھ لیں۔ اگر آپکو مطالعہ کا شوق ہے تو ۔“ نائلہ نے اسکی بوریت کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
“ صحیح کہہ رہی ہو تم حسنہ کا وہاں اچھا ٹائم گزرے گا ویسے بھی تم نے کتابوں کا انبار اکٹھا کر رکھا ہے۔“ شازمہ نے کہا۔
“ یہ صحیح آئیڈیا ہے۔ آپ لوگ اپنی باتیں کرے میں کچھ پڑھ لیتی ہوں“ پھر حسنہ ملازمہ کے ساتھ لائبریری میں آگئی ۔
لائبریری بہت شاندار تھی۔ کمرے میں چاروں طرف بک شیلف بنے ہوئے تھے۔ جہاں ہر قسم کی بک دستیاب تھی درمیان میں برا سارا ہال تھا ۔ ایک کونے میں ایک ٹیبل اور کرسی موجود تھی۔ ٹیبل پر ایک ٹیبل لیمپ موجود تھا اور کوئی چیز موجود نہ تھی۔ وہاں ہر رو میں الگ الگ موزوں پر بکس موجود تھی۔

اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا ملازمہ جا چکی تھی۔ وہ لائبریری دیکھنے میں اتنی مصروف تھی کہ اسے اسکا خیال ہی نہیں آیا۔ وہ یونہی بکس پر ہاتھ پھیرتی آگے بڑہ رہی تھی کہ ملازمہ لوازمات سے بڑہی ٹرے لے آئی۔ جسے وہ ٹیبل پر رکھ کر چلی گئی۔ اتنی زیادہ کتابیں تھی کہ اسے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی وہ کونسی کتاب پڑہے کونسی نہ پڑھے ۔ وہ آنکھیں بند کیے یونہی کتابوں پر ہاتھ پھیڑتی آگے برھ رہی تھی کہ اسنے ایک کتاب کو شیلف سے باہر نکالا اور اپنی آنکیں کھول دی ۔۔۔ (جاری ہے )

Zeena
About the Author: Zeena Read More Articles by Zeena: 92 Articles with 201545 views I Am ZeeNa
https://zeenastories456.blogspot.com
.. View More