بھیڑبڑھتی جارہی ہے !

غور کیجئے اب تشدد اور حیوانیت کے طریقے تبدیل کردیئے گئے ہیں ،ملک میں فسادات نہیں ہورہے ہیں لیکن تشدد کی جو دوسری شکل سامنےآرہی ہے وہ ان فسادات سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔فساد ایک جز وقتی واقعہ ہےلیکن اب جو ہورہا ہے وہ ایک مسلسل عمل ہے جو نفرت کی جڑوں کو بتدریج مضبوط کرتا جارہا ہے جس پر قابوپانا آسان نہیں اور یہ کام دھیرے دھیرے معمول پر آنے والابھی نہیں ۔سب سے زیادہ فکر مندکرنے والی یہ ہے کہ ان واقعات اور شیطانی شر انگیزیوں کے فتنوں کی سرکوبی کیلئے ارباب اقتدار بالکل کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں ،کبھی کبھار محض خانہ پری کیلئے کچھ بیانات آجاتے ہیں ۔اس کے برعکس ان غنڈوں اور جمہوریت کے قاتلوں کو جو سماج میں نفرت کے بیج بورہے ہیں اور ملک کی قدیم گنگا جمنی روایات کا گلا گھونٹ رہے ہیں انہیں فسادی نہیں کہا جاتا بلکہ ان کا ایک قابل فخر نام گئورکھشک یعنی گایوں کا محافظ رکھ دیا گیا ہے

’’یہ بھیڑ مذہبی اشتعال انگیزیوں کے پیچھے بہت تیزی سے چلنے لگتی ہے ۔یہ بھیڑ کسی بھی ایسی تنطیم یا گروہ کے ساتھ ہوسکتی ہے جو ان میں اشتعال ،کشیدگی اور شر انگیزی پیدا کردے ۔پھر اس بھیڑ سے تباہ کن کام کرائے جاسکتے ہیں ۔۔‘ہمارے ملک کے اندر اس بھیڑ میں تیز ی سے اضافہ بھی ہورہا ہے اور استعمال بھی ۔مستقبل قریب میں اس بھیڑ کا استعمال ساری قومی اور انسانی اقدار کی تباہی اور جمہوری طرز نظام کے خاتمے کیلئے کیا جاسکتا ہے۔‘‘

یہ اقتباس ہندی کے مشہور مصنف اور مفکرہری شنکر پرسائی کی دہائیوں پر انی تحریر ’ آوارہ بھیڑ کے خطرات ‘سے ماخوذ ہے ۔پرسائی کی تحریر کردہ بہت سی باتیں نوسٹراڈیمس کی پیشین گوئیوں سے بھی زیادہ درست نظر آتی ہیں ۔اس کا اندازہ اخبارات میں ایک تسلسل کے ساتھ شائع ہونے والی متعصبانہ اور اشتعال انگیزخبروں سے لگایا جاسکتا ہے ۔آج صورتحال یہ ہے کہ اب انسان کی قیمت گائے سے بھی کم ہوگئی ہے ۔گائے کے نام پر آئے دن ہونے والی مسلم نوجوانوں کی ہلاکت اس کا بین ثبوت ہے ۔دادری کے محمد اخلاق سے لے کر راجستھان کے پہلو خان سمیت اترپردیش ، مدھیہ پردیش اور ملک کے دیگر خطوں میں مسلمانوں کے لرزہ خیز قتل کے واقعات یہی بتارہے ہیں کہ ملک میں حالات بالکل نارمل نہیں ہیں ۔ابھی حال ہی میں اجین سے جو تازہ خبریں موصول ہوئی ہیں اس میں بتایا گیا ہے کہ کچھ گئو رکھشکوںنے گائے لے جاتے ایک شخص کی جم کر پٹائی کردی ۔نیوز ایجنسی کی جانب سے جاری کردہ ویڈیومیں کچھ لوگ ایک شخص کو انتہائی بے دردی سے پیٹ رہے ہیں اور اس پر مسلسل گئو کشی کا الزام لگارہے ہیں ، نوجوان اپنی جان بچانے کیلئے فریا د کئے جارہا ہے لیکن کوئی اس کی بات سننے کیلئے تیار نہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر بیچ بچاؤ کیلئے دوسرے لوگ نہ آجاتے تو درندوں اور سفاکوں کی یہ بھیڑ نوجوان کو قتل کرکے ہی دم لیتی ۔ تفتیش کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ معاملہ دراصل پیسوں کے لین دین کا ہے اس کا تعلق گئو کشی سے نہیں تھا لیکن چونکہ گئو کشی کے نام پر بھیڑ جمع کرنا زیادہ آسان تھا سو ان اشتعال انگیزوں نے یہی کیا اور گئو کشی کا بہانہ تراش لیا ۔ اس طرح کے واقعات اب یوپی سمیت مختلف ریاستوں میں عام ہوگئے ہیں اور آئے دن گائے کے نام پر قتل معمول بنتا جارہا ہے ، خاص طور پر جہاں جہاں بی جے پی برسر اقتدار ہے وہاں لااینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی نا گفتہ بہ ہوچکی ہے اور غنڈوں کے حوصلے ساتویں آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں ۔۱۹۵۶میں کمیونسٹوں کے بڑھتے زور کو توڑنے کیلئے کیرلامیں منعقد کانگریس کے اجلاس میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر نہرو نے یہی بات کہی تھی کہ ملک کو کمیونسٹوں سے نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی کٹر ہندوفرقہ پرستی سے خطرہ ہے اور آج وہی خطرہ پوری طاقت کے ساتھ دیش کے سر پر منڈلا رہا ہے جو بہت جلد ایک طوفانی قہر بن کر ٹوٹ سکتا ہےجو ساری تہذیبی ، جمہوری اور سماجی قدروں کو چاٹ جائے گا ۔

غور کیجئے اب تشدد اور حیوانیت کے طریقے تبدیل کردیئے گئے ہیں ،ملک میں فسادات نہیں ہورہے ہیں لیکن تشدد کی جو دوسری شکل سامنےآرہی ہے وہ ان فسادات سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ۔فساد ایک جز وقتی واقعہ ہےلیکن اب جو ہورہا ہے وہ ایک مسلسل عمل ہے جو نفرت کی جڑوں کو بتدریج مضبوط کرتا جارہا ہے جس پر قابوپانا آسان نہیں اور یہ کام دھیرے دھیرے معمول پر آنے والابھی نہیں ۔سب سے زیادہ فکر مندکرنے والی یہ ہے کہ ان واقعات اور شیطانی شر انگیزیوں کے فتنوں کی سرکوبی کیلئے ارباب اقتدار بالکل کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں ،کبھی کبھار محض خانہ پری کیلئے کچھ بیانات آجاتے ہیں ۔اس کے برعکس ان غنڈوں اور جمہوریت کے قاتلوں کو جو سماج میں نفرت کے بیج بورہے ہیں اور ملک کی قدیم گنگا جمنی روایات کا گلا گھونٹ رہے ہیں انہیں فسادی نہیں کہا جاتا بلکہ ان کا ایک قابل فخر نام گئورکھشک یعنی گایوں کا محافظ رکھ دیا گیا ہے ۔ان القابات نے ان کے حوصلے اتنے بلند کردیئے ہیں کہ وہ بڑی شان سے کہتے ہیں کہ ہم جو کررہے ہیں وہ بڑا اہم اور عظیم کام ہے ۔بعض لوگ تو ان کا موازنہ بھگت سنگھ تک سے کرنے لگے ہیں ۔ اب بتایئےجب اس طرح کا موازنہ ہوگا تو وہ اپنے سارے گندے اور خلاف انسانیت کاموں پر فخر ہی کریں گے ،اب تو وہ اپنی زندگی کو ہی قابل ستائش سمجھنے لگے ہیں ۔

حدیث میں ظالموں کی بربریت پر خاموش رہنے والوں کو گونگا شیطان کہا گیا ہے اور ہم سب سے یہی غلطی مسلسل سرزد ہورہی ہے ۔ہمارے بہت سے قابل قدر ادارے اور سنستھائیں مختلف پروگراموں کے ذریعے محض ذاتی فائدوں کے لئے یا پھر خوف کے سبب ان حکمرانوں کی ستائش میں زمین آسمان ایک کئے ہوئے ہیں جن کی چشم پوشی کے سبب یہ غنڈے پورے ملک میں سینہ تانے گھوم رہے ہیں اور گایوں کے نام پر دستورو قوانین کا شکار کرتے ہیں ۔ کیا ہمیں اپنے محاسبے کی ضرورت نہیں کہ ہم چند ذاتی فوائد کیلئے پوری قوم کو قربان کررہے ہیں ۔مذہب اور اقتدار کی شہ پر پنپنے والی یہ بھیڑ خود کو قانون او ر انصاف سے ماورا سمجھنے لگی ہے ، ظاہر ہے جب انہیں بزعم خود ہی سزا سنانے کے حقوق حاصل ہوں تو وہ پولس یا عدالتو ں کی پرواہ کیوں کریں ، اس پر مستزاد یہ کہ ہم بھی در پردہ انہی کو تقویت پہنچارہے ہیں اپنی خاموشی سےیا پھر خوف زدہ تائید سے ۔یاد رکھیں کہ ہماری ذرا بھی لاپرواہی اور خود غرضی ایک ایسے طوفان کو ہمارے سروں پر مسلط کرسکتی ہے جس کا خمیازہ سب کے ساتھ ہی ہمیں بھی بھگتنا پڑسکتا ہے کیونکہ طوفان جب آتا ہے تو اس کے سامنے جو بھی آتا ہےخس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہےکچھ بھی باقی نہیںبچتا ۔اس نازک ترین وقت میںہم پر فرض کی حد تک ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے طرز عمل کا بغور محاسبہ کریں اور حق گوئی کو اپنا شعار بنالیں اور گونگے شیطان نہ بنیں ۔ورنہ بصورت دیگر طوفان کے سر پر مسلط ہونے سے بھلا کون روک سکتا ہے ۔ آ پ سن رہے ہیں نا ؟۔

vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94766 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.