گوادر کی اہمیت

یہ چین کو وسط ایشیا، مغربی ایشیا سمیت پاکستان، بنگلہ دیش، روس، ترکی، سنگاپور، میانمار، منگولیا سے جوڑتاہے۔بھارت نے چین میں منعقدہ فورم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے خود معاشی تنہائی کا انتخاب کیا ہے۔بھارت گوادر کی اہمیت ختم کرنے کی کوشش میں جاپان کے ساتھ مل کر ایران میں چابہار، سری لنکا میں ترنکومالی، تھائی لینڈ میانمار سرحد پر داوائی بندرگاہیں تعمیر کر رہا ہے۔بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے اور شاہراہ ریشم منصوبے کے مقابل میں جاپان کے ساتھ مل کر میکانگ انڈیا اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی شروع کیا ہے جو کینیا، تنزانیہ، موزمبیق کو جوڑے گا۔’مگر ’ ایک بیلٹ ، ایک شاہراہ‘‘منصوبہ منفرد ہے جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے ملائے گا۔ جسے انسانی برادری کی تعمیر کا منصوبہبھی قرار دیاجاتا ہے۔یہ چین کا منصوبہ ہے جو اس نے دنیا سے سمندری اور زمینی راستوں کی مدد سے جوڑنے کے لئے تشکیل دیا ہے۔ اس پر فوری عمل بھی ہو رہا ہے۔ سلامتی کونسل میں اتفاق رائے سے منظور قرارداد میں بھی چائنا پاک اقتصادی راہداری منصوبے کا ذکر کیا گیا۔ جو اس قرارداد میں ایک پیراگراف کے طور پر شامل ہیجو افغانستان سے متعلق تھی۔ جس میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن میں متفقہ طور پر ایک سال توسیع کی منظوری دی گئی ۔ سی پیک میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہیں۔ جس پر بھارت کو اعتراض ہے۔ بھارت دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے چین کے فوجی کمانڈوز کی آزاد کشمیر میں موجودگی کا واویلاکرتا رہتا ہے۔ جب کہ دنیا جانتی ہے کہ آزاد کشمیر میں جاری بجلی ، پانی اور سڑکوں کے منصوبوں میں چین کے کمانڈوز نہیں بلکہ انجینئرز کام کر رہے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لئے چین کے کمانڈوز کے بجائے پاکستانی سیکورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔ مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی تعمیراتی عملے کی سخت حٖفاظت کی جا رہی ہے۔ بھارت کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر ہی اعتراض نہیں بلکہ وہ پاکستان اور چین کی ترقی کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر ابھر رہا ہے۔گوادر میں حالیہ دہشتگردی اس کی مثال ہے۔ چونکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بجی غیر منقسم جموں و کشمیر ریاست کا حصہ ہیں۔ اس لئے بھارت کا ساری ریاست پر دعویٰ ہے۔ جموں و کشمیر پر بھارتی جبری فوجی قبضے کے بعد سے منقسم ریاست کے مستقبل کے بارے میں مختلف موقف پیش کئے جاتے ہیں۔ جب کہ سب سے اہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادیں ہیں۔ جن کے مطابق جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جانا ہے۔ بھارتی حکمران 70سال سے ٹال مٹول اور تاخیری حربے آزما رہے ہیں۔ وہ رائے شماری کرانے پر آمادہ نہیں۔ اپنی فوج کی نگرانی میں انتخابات کرنے کے بعد انہیں رائے شماری کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جسے کشمیری عوام کی اکثریت مسترد کرتی ہے۔ اسی وجہ سے جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی قبضے کے خلاف جدوجہد چل رہی ہے۔ لیکن بھارت اس جائز آزادی کی تحریک کو بھی دہشت گردی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے او جنگ بندی لائن پر گولہ باری سے جنگی ماحول پیدا کرنے میں مصروف ہے۔

جمو ں و کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں ہی آج 70سال سے کشمیر کی جنگ بندی لکیر کے آر پار اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین موجود ہیں۔لیکن بھارت سلامتی کونسل کے منڈیٹ کو پامال کر رہا ہے۔ تا ہم کشمیری عوام ان مبصرین کی تعداد میں اضافے کا مطالبے کرتے ہیں۔ دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ سی پیک میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شمولیت پر بھارتی اعتراضات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ اس خطے میں تعمیر و ترقی کے عمل کو روکنے کی بھارتی سازش ہے۔ جسے امن پسند دنیا قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتی۔ چین کو پاکستان سے زمینی راستوں سے ملانے والی شاہراہ ریشم کے بعد سمندری راستوں سے جوڑنے والی شاہراہ ریشم بھی تعمیر ہو گی۔ جب کہ ایک بیلٹ، ایک سڑک منصوبے سے فی الوقت دنیا کے 60ممالک مستفید ہوں گے۔ سی پیک منصوبے کی سلامتی کونسل کی جانب سے توثیق انتہائی اہم پیش رفت تھی۔ اس نے بھارت کی تشویش میں اضافہ کر دیا اور بھارت کو سفارتی دیوار سے لگا دیا۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کا اس خطہ پر اپنی بالا دستی قائم کرنا کا منصوبہ ہے ۔ سی پیک صرف جنوبی ایشیا کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو معاشی تعاون، علاقائی روابط، تجارت، سلک روڈ، سمندر ی شاہراہ ریشم، علاقائی ترقی اور روابط میں تیزی لانے کا منصوبہ ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی انسانی برادری کی تعمیرکے تصور کا ایک فارمولہ پیش کیا ہو اہے۔ چین کے تصور نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ سلامتی کونسلنے بھی اپنی ایک قرارداد میں دنیا کو چین کے اس منصوبے میں مثبت طور پر شامل ہوکر انسانی برادری کی مشترکہ تعمیر میں حسہ لینا کی خواہش ظاہر کی ہوئی ہے۔ اس منصوبے میں چار تا آٹھ کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ آج کے دور میں جب دنیا اپنے مفادات کے لئے تڑپ رہی ہے، ہر ملک اپنے مفادات کو سب پر ترجیح دیتا ہے، ایسے میں دنیا کی مشترکہ تعمیر اور ترقی کا کوئی منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔ اس میں اگر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی شامل ہو رہے ہیں تو بھارت کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے اپنی شمولیت اور مل کر دنیا کو جوڑنے کے اس عمل میں ساتھ دینا چاہیئے تھا مگر اس نے بائیکاٹ کر کے اپنی ترقی دشمنی ظاہر کر دی۔ آج دنیا اجتماعی ترقی کا سوچ رہی ہے، مل کر ترقی کرنا چاہتی ہے، ہر جگہ امن قائم کرنے کی خواہش بڑھ رہی ہے، اس دوران جبری اور ناجائز قبضے، قوموں کو غلام بنائے رکھنا، آزاد علاقوں کو ریاستی کالونیاں بنانا، نسل کشی، مظلوموں کا قتل عام ناقابل قبول ہے۔ دنیا کو روشنی کی تلاش ہے۔ بھارت اندھیروں میں گم ہو رہا ہے۔ بھارت میں ہندو دہشت گردی فروغ پا رہی ہے۔ نریندر مودی کی سرپرستی میں بھارت کا مستقبل خانہ جنگی اور ماردھاڑ کا پتہ دیتا ہے۔ کیوں کہ بی جے پی اور جن سنگھی اپنی عمارت کو نفرت اور انتہا پسندی پر کھڑا کر رہے ہیں۔ امن اور ترقی کا خواب دیکھنے والی دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔چین کو بھی بھارت کے ساتھ اپنی کسی اشتراک پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے قدیم تجارتی راستوں کے زریئعے جوڑنے کا منصوبہ تقریباً 100ممال کی معیشت کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ اس منصوبے میں کسی رکاوٹ کی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے یہ ممالک مل کر کام کریں تو دیگر ممالک بھی چین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کو توڑنے کے بجائے جوڑنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ چیننے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبے ، وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا بجلی ٹرانسمشن اور تجارتی منصوبے، افغانستان بھارت ایران کے چابہار بندرگاہ منصوبوں میں بھی کردارادا کرنے کی خواہش کر چکا ہے۔پاکستان اور چین کی ترقی اور اقتصادی راہداری منصوبوں اور دنیا کوجوڑنے کے منصوبوں کی بھارت کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔ جس کا چین کی جانب سے نوٹس لینا یقینی بن رہا ہے اور چار ماہ بعد بھارت میں بریکس سربراہ کانفرس میں چین اور اس کے دوست ممالک کی شرکت کے فیصلہ پر از سر نو غور کیاجانا بھی ضروری بن گیا ہے۔کیوں کہ گوادر کی اہمیت بھارتی سازشوں سے ختم نہیں ہو سکتی۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485075 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More