سفید ہاتھی

 لاہور چڑیا گھر کی ہتھنی مر گئی، تقریباً تین دہائیاں قبل وہ یہاں لائی گئی تھی، چڑیا گھر کی سیر کو آنے والے اور چڑیا گھر کے متعلقہ عملے کے افراد اس سے خوب آشنا ہو چکے تھے، یہی وجہ ہے کہ اس کی موت پر چڑیا گھر میں اداسی اور ویرانی سی چھا گئی، اس کے محافظ اور خدمت گار پھوٹ پھوٹ کر روئے، معمول کے مطابق چڑیا گھر کی سیر کو آنے والے بچے بھی افسردہ دکھائی دیئے۔اس معاملے میں اعلیٰ سطح پر حالات کا جائزہ لیا گیا، جس کے نتیجے میں چڑیا گھر کے کچھ لوگوں کو احتیاطاً معطل بھی کردیا گیا، اگر یہ کارِ خیر افسران وغیرہ سرانجام نہ دیتے تو خدشہ ہو سکتا تھا کہ بات پنجاب کے خادمِ اعلیٰ تک پہنچ جاتی، اور پھر اُن ملازمین کے ساتھ افسران میں سے بھی کسی کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا، چنانچہ اب چھوٹے بکروں کی قربانی سے ہی کام چلا لیا گیا۔ خیر لاہور والے سرکاری ملازمین خادم اعلیٰ کے مزاج سے بخوبی واقف ہیں، اس لئے احتیاطی تدابیر کر لی گئیں۔

کہتے ہیں کہ ہاتھی زندہ لاکھ کا ہوتا ہے تو مرا ہوا سوا لاکھ کا۔ لاکھ روپے کا محاورہ وجود میں آئے ہوئے نہ جانے کتنی دہائیاں گزر چکی ہیں، اس لئے اب قیمت میں اضافہ ہو چکا ہوگا، عام زندگی پر تو یہ محاورہ اب بھی صادق آتا ہے، تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ خود ہاتھیوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ ممکن ہے اس کی کھال ہی لاکھوں روپے کی ہو، کیونکہ یہاں تو گدھوں کی کھال اس قدر قیمتی اور نایاب ہو چکی ہے کہ یار لوگ گدھوں کی کھال اتارنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور ’’آم کے آم ، گٹھلیوں کے دام‘‘ کے مصداق گدھے کے گوشت کو معروف ہوٹلوں میں فروخت کردیتے ہیں، گزشتہ دو برس سے پاکستان میں گدھوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ گوشت سے ہٹ کر صرف کھال اتارنے کی خبریں ابھی تک اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں، یہ دھندہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ گدھے کی کھال کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں ہاتھی کا گدھے سے کیا مقابلہ؟ دوسری طرف مرنے والی ہتھنی کی کھال پنجاب یونیورسٹی زوالوجی ڈیپارٹمنٹ نے مانگ لی ہے، یقینا انہوں نے تحقیق کرنا ہوگی، مگر اس کھال میں بھوسہ بھر کر اسے چڑیا گھر کے ’’ہاتھی گھر‘‘ میں نصب بھی کیا جاسکتا ہے، زندہ نہ سہی اصلی کے روپ میں مردہ ہی سہی۔ ہتھنی کا ڈھانچہ ویٹرنری یونیورسٹی نے مانگ لیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا ہتھنی کے دانت بھی کسی ادارے نے مانگے ہیں یا نہیں۔ ورنہ یہ بھی کسی نہ کسی ادارے یا شخصیت کے کام تو ضرور آسکتے ہیں، اس سے بیش قیمت مصنوعات بنائی جاتی ہیں، اور دکھانے کے لئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ نہ جانے ہاتھی کے مذکورہ اعضا لاکھ اور سوا لاکھ کی نسبت سے ہے یانہیں؟

پاکستان کے چڑیا گھر ہاتھیوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں، تقریباً دس برس قبل بہاول پور چڑیا گھر کا ہاتھی بھی آنجہانی ہو گیا تھا، اب تک اس کی خرید کے لئے حکومتی اداروں کی مراسلہ بازی ہو رہی ہے، مگر شاید خریدنے کا ارادہ نہیں، صر ف بیانات وغیرہ سے کام چلانے کی منصوبہ بندی ہے۔ اب کراچی اور اسلام آباد کے چڑیا گھروں میں ہاتھی رہ گئے ہیں۔ لاہور میں تو شاید یہ خلا جلد ہی پُر ہو جائے، تاہم بہاولپور میں ایسی کوئی سیاسی شخصیت نہیں، جو حکومت پر اخلاقی اور سیاسی دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہو، ایک وزیر مملکت، ایک صوبائی وزیر یہاں موجود ہیں، ظاہر ہے حکومت کے سامنے بات کرنے کی یہاں روایت ہی نہیں، جب بچہ روئے گا نہیں تو اسے ماں دودھ بھی نہیں دیتی۔ حکومت کی توجہ چڑیا گھروں سے ہٹتی جارہی ہے، جانوروں اور پرندوں کے پنجروں میں ویرانیوں کے ڈیرے ہیں، جانوروں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ چڑیا گھروں کی انتظامیہ کھا جاتی ہے، جنگلوں میں آزاد پھرنے والے جانور جب قید ہو جاتے ہیں اور جہاں انسان ہی ان کا خیال رکھنے کی بجائے ان کی خوراک کھا جائیں، تو اُن پر کیا بیتے گی؟ جن چڑیا گھروں میں ہاتھی نہیں رہے، وہاں دو طریقے سے ہاتھیوں کی کمی پوری کی جاسکتی ہے۔ اول یہ کہ عام رواج کے مطابق چڑیاگھروں کے باہر پلاسٹر کے بنے ہوئے بڑے بڑے جانور موجود ہوتے ہیں، ان میں اضافہ کردیا جائے، نہ خوراک کی ضرورت اور نہ بیماری کا ڈر۔ دوسرا یہ کہ اسلام آباد یا لاہور میں بے شمار ’’سفید ہاتھی‘‘ موجود ہیں، انہیں چڑیا گھروں کی زینت بنانے کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427089 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.