پانی پر تیرتے ہوئے افریقی گاؤں

سطح آب پر افریقہ کے دو خوب صورت گاؤں
اٹلی میں تو نہروں اور بحر بالٹک کے بہتے پانی کے ساتھ وینس کا آبی شہر آباد ہے لیکن مغربی افریفہ کے ملک بینن کے شہر ’’کوٹونو‘‘ کے نزدیک’’ نوکوئی ‘‘جھیل کی سطح آب پر تیرتا ہوا’’ گینوی ‘‘ کا گاؤں آباد ہے، جسے سیاحوں نے ’’افریقہ کے وینس ‘‘ کا خطاب دیا ہے اور یہ سیاحت کے حوالے سے مقبول مقام بن گیا ہے۔
 

image


یہ گاؤں سولہویں اور سترھویں صدی کے دوران ’’ٹوفینو قبیلے‘‘ نے جھیل کے وسط میں فان جنگجوؤں کے حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے تعمیر کیا تھا۔ مذکورہ لڑاکا قبیلے کے افراد ، ٹوفینو قبائلیوں پر حملے کر کے انہیں قیدی بنا کر لے جاتے تھے اور انہیں غلاموں کی حیثیت سے یورپی تاجروں کے ہاتھوں فروخت کردیتے تھے۔ فان قبیلے کے عقیدے کے مطابق ان کے دیوتاؤں کی جانب سے بعض مذہبی پابندیوں کی وجہ سے جھیل کے پانی میں اترنے کی اجازت نہیں تھی جس سے فائدہ اٹھا کر ٹوفینو قبائلیوں نے جھیل کے وسط میں چوبی مکانات پر مشتمل گاؤں بسا کرخود کو ان کے حملوں سے محفوظ کرلیا۔ افریقہ کے ٹوفینو باشندے غیر مہذب اور وحشی ماحول میں رہنے کے باوجود بے انتہا ذہین تھے، قبیلے کے لوگوں نے سطح آب پر جس طرح سے میلوں رقبے پر محیط علاقے کو آباد کیا، اس پر آج کے سائنسی اور سول انجینئرنگ کے ماہرین بھی حیران ہیں۔

انہوں نے جھیل کے گہرے پانی میں لکڑی کے بڑے بڑے مضبوط شہتیروں اور تختوں کے پلیٹ فارم بنا کر ان پر بانس کے ڈنڈوں کی مدد سے جھونپڑی نما مکانات تعمیر کیے ، جن پر کھپریل ، گھاس پھوس اور چٹائیوں سے چھتیں ڈالی گئی ہیں، ان کے ساتھ جھیل میں اگی گھاس اورخودرو پودے اگے ہوئے ہیں جن سے اس گاؤں کے اطراف کا منظر انتہائی دلکش معلوم ہوتا ہے۔ قبیلے کے لوگوں نے تو اپنی یہ آبی بستی ،’’نظریہ ضرورت ‘‘کے تحت فان قبیلے کے خوں خوار لوگوں سے ا پنی زندگیاں محفوظ کرنے کے لیے بسائی تھی، لیکن آج یہ فن تعمیر کا ایسا نادر شاہکار بن چکی ہے کہ لوگ دور دراز کے علاقوں سے اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ اس آبی گاؤں میں بیس ہزار سے زائد نفوس آباد ہیں جو افریقہ کے دیگر علاقوں کے باشندوں کی بہ نسبت انتہائی خوش حال زندگی گزار رہے ہیں۔
 

image


کوٹونو شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر میلوں رقبے پر پھیلے اس گاؤں کو پہلی نظر میں دیکھنے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے جیسے کہ ہم کسی ایسے علاقے کے پاس سے گزر رہے ہیں جس کے گھر سیلاب کی وجہ سے زیر آب آگئے ہیں اور اس کے مکین بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ لیکن جب اس گاؤں کے اندر داخل ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھیل پر تیرتا ہوا ایسا چوبی گاؤں ہے جو انسانی ہاتھوں کی کاری گری سے خوب صورت نمونے کی صورت میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اس گاؤں کی ایک خصوصیت انتہائی دل چسپ ہے۔ یہاں کے ہر باشندے کے پاس اپنا خود ساختہ ذریعہ سفر ہے جو انہوں نے درختوں کے تنے کاٹ کر کشتیوں کی صورت میں بنایا ہے۔گھروں کے اطراف جھیل کے گہرے پانی کی موجودگی اور آبی شاہراہوں کی وجہ سے ٹوفینو قبیلے کے افراد اپنے پڑوسیوں اور عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے بھی کشتیوں پر سفر کرتے ہوئے جاتے ہیں۔

گاؤں کے باشندوں کی گزراوقات کا انحصار کھیتی باڑی پر ہے جو وہ جھیل کے ساحلی علاقوں پر کرتے ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں میں یہاں سیاحت، ماہی گیری اور مچھلیوں کی افزائش نسل کی فارمنگ کی صنعت کو فروغ حاصل ہوا۔ حالاں کہ اس گاؤں کو باقاعدہ طور پر سیاحتی مقام کا درجہ نہیں دیا گیا ہے لیکن 31؍اکتوبر 1996ء کو یونیسکو کی جانب سے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا۔
 

image


پانی پر تیرتے اس گاؤں میں ہر قسم کی ضروری اشیاء مل جاتی ہیں لیکن ان کے علاوہ یہاں سوفٹ ڈرنک کی ایک دکان بھی ہے۔ یہاں ایک ہوٹل بھی بنا ہوا ہے، لکڑی کے ڈنڈوں اور چوبی تختوں کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے اس ہوٹل کے تختوں پر سرخ اور سفید رنگ ک رکے، ان پر چینی انداز میں محرابیں بنائی گئی ہیں، جو انتہائی خوب صورت معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں سیاحوں کی رہائش کے لیے تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں لیکن سیر کے لیے آنے والے افراد کی قیام گاہ کے علاوہ یہ ہوٹل گاؤں کے امراء اور بے فکرے نوجوانوں کی تفریح طبع کا مرکز بھی بنا رہتا ہے جہاں لوگ شام ہوتے ہی کشتیوں پر بیٹھ کر آنا شروع ہوجاتے ہیں اور رات گئے تک یہاں مختلف مشاغل میں وقت گزارتے ہیں۔ اس گاؤں میں چھوٹے چھوٹے ریستوران بھی بنے ہوئے ہیں جب کہ گاؤں کے لوگوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے صحت مرکز بھی بنایا گیا ہے، جس میں خدمات انجام دینے والا ڈاکٹر یہاں سے تھوڑی دور کے فاصلے پر رہتا ہے اور اسے شفا خانے تک پہنچنے کے لیے کشتی پر سفر کر کے آنا پڑتا ہے۔

اس گاؤں کے تمام گھر، دکانیں، ریستوران اور ہوٹل لکڑی کے لمبے لمبے ڈنڈے کھڑے کر کے جھیل کی سطح سے کئی فٹ اونچائی پر بنائے گئے ہیں۔ آبی بستی کے ساتھ کشتیوں پر تیرتا ہوا ایک بازار بھی واقع ہے جہاں خواتین دکان دار مختلف اجناس اور اشیاء فروخت کرتی ہیں۔ اس گاؤں میں اجتماعی زندگی کا رواج ہے اور تمام باشندے پیارمحبت، بھائی چارے اور ایثار و قربانی کے جذبے کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں ۔ اس کی بین مثال جھیل کے وسط میں بچوں کے ایک اسکول کی صورت میں موجود ہے۔ یہ درس گاہ مکمل طور سے پانی کے درمیان ایک چھوٹے سے مصنوعی جزیرے پر بنی ہوئی ہے۔اس جزیرے کو وجود میں لانے کے لیے ان کی ہمت ، محنت مشقت اور باہمی اتحاد کےعلاوہ ذہانت کا کافی دخل ہے۔ جزیرے کی تعمیر کے لیے تمام مٹی جھیل کے کنارے پر واقع میدانوں سے لائی گئی ہے جو ایک انتہائی دشوار گزار کام تھا لیکن گاؤں کے باسیوں نے اپنی ہمت و استقامت سے ایک ناممکن کام کو ممکن بنا کے دکھا دیا ۔ گاؤں کے لوگ اردگرد کی پہاڑیوں اور ٹیلوں سے چٹانی پتھر، روڑی کشتیوں میں بھر کر لاتے رہے اور اسے جھیل کی تہہ میں ایک مخصوص مقام پر ڈال کر بھراؤ کرتے رہے ۔ اس کے بعد وہ مٹی بھر کر لائے اور اس سے اتنا بھراؤ کیا کہ وہاں پانی کی جگہ خشک زمین جزیرے کی صورت میں ابھر آئی۔ اس کے بعد انہوں نے یہ درس گاہ بنا کر فن تعمیر کا ایک محیر العقول کارنامہ انجام دیا۔
 

image

گاؤں کے زیادہ تر باشندوں نے کھیتی باڑی کے علاوہ ماہی گیری اور سیاحت کو بھی اپنا ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے۔ ۔ وہ گاؤں کی تفریح کے لیے آنے والے سیاحوں کے گائیڈ کے فرائض انجام دیتے ہیں، انہیں کشتی میں اپنے آبی گاؤں کے طول و عرض پربنے ہوئے مکانات کی سیر کراتے ہیں، ان کے لیے اشیائے خوردونوش مہیا کرتے ہیں، جس سے انہیں اتنی آمدنی حاصل ہوجاتی ہے کہ وہ خوش و خرم زندگی گزار سکیں۔ ماہی گیروں نے مچھلیاں پکڑنے کے لیے بالکل انوکھا طریقہ ایجاد کیا ہے، انہوں نے بانس کے بڑے بڑے ڈنڈوں اور جالیوں کی مدد سے پنجرے بنائے ہوئے ہیں جن میں چارہ رکھ کر وہ جھیل کی تہہ میں ڈال دیتے ہیں۔ چارہ دیکھ کر مچھلیاں آتی ہیں اورخودکار دروازہ بند ہونے کی وجہ سے پنجرہ نما جال میں قید ہوجاتی ہیں ۔ انہیں باہر نکال کر بازار میں فروخت کے لیے لے جایا جاتا ہے یا پھر جھیل کے کنارے بنے ہوئے ریستوران کو سپلائی کردیتے ہیں، جہاں بیٹھ کر لوگ خوش ذائقہ مچھلی اور چاول کے پکوان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن اس گاؤں میں تجارت بھی ایک منفرد نظام کے تحت ہوتی ہے۔ یہاں خواتین کو مردوں کے مقابل مساوی مقام حاصل ہے۔ وہ شکار کی گئی ، مچھلیاں اپنی بیویوں کے حوالے کرتے ہیں جن کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ان مچھلیوں کو فروخت کریں- جس کے بعد یہ خواتین انہیں مقامی مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنے بچوں اور شوہر کے لیے خوراک اور دیگر ضرورتوں کا بندوبست کرتی ہیں-

گینوی کی طرح کا ایک آبی گاؤں ’’نیزولیزو‘‘ کے نام سے مغربی افریقہ میں ہی گھانا کے دارالحکومت عکرہ کی مغربی جانب 360 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اِس گاؤں کے تمام مکانات’’ تاندانے ‘‘نامی جھیل کے اوپر درختوں سے کاٹے ہوئے شہتیروں اور پتوں کی مدد سے بنائے گئے ہیں ۔ بینن کے’’ٹوفینو‘‘قبائل کی بہ نسبت ان کا لوگوں کا رہن سہن خالص فطری ماحول پر مبنی ہے، لیکن بعض سیاح اسے قدیم اور جدید ماحول کا حسین امتزاج قرار دیتے ہیں۔مغربی گھانا میں’نیزولیزو‘نامی گاؤں کوئی عام علاقہ نہیں ہے۔ اِس علاقے کے باسی قدرتی ماحول میں کسی بھی قسم کا ردوبدل کیے بغیر فطری زندگی بسرکر رہے ہیں۔ گاؤں کے اطراف میں واقع چھوٹے چھوٹے جزیروں میں رنگ برنگے پرندے، مختلف نسلوں کے بندر، مگرمچھ اور کچھوے پائے جاتے ہیں۔
 

image

افریقہ کی قدیم داستانوں کے مطابق گیارہ سو سال قبل اِس علاقے کے باشندوں کے اجداد کا تعلق گھانا کے اس علاقے سے تھا جس کا شمار اُس دور میں ایک خودمختار سلطنت کی حیثیت سے ہوتا تھا۔ وہ علاقہ آج کل افریقہ کی ایک اور مملکت ،مالی کا حصہ ہے۔ 15 ویں صدی میں سونے کی کانوں اور زرخیز زمین کے حصول کے لیے اس علاقے پر سرحد کے قریب رہنے والے ’’مینڈے ‘‘قبائل نے حملہ کردیا اور ان کے علاقے میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جس کی وجہ سے اِن لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر وہاں سے بھاگنا پڑا ۔ جب وہ بھاگتے ہوئے ایک مقام پر ٹھہرے تو اِن کا دیوتا گھونگے کی صورت میں نمودار ہوا اور اِنہیں گھانا لے آیا۔ لیکن گھانا میں بھی انہیں مختلف جنگ جو قبائل کے حملوں کا سامنا رہا جس کی وجہ سے وہ یہاں سے بھی نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان کا دیوتا دوبارہ نمودار ہوا اور وہ اس کے پیچھے چلتے ہوئے جھیل ’’تاندانے‘‘ پہنچ گئے۔ یہاں آنے کے بعد اس نے انہیں یقین دہانی کراتے ہوئے جھیل کے پانی کے حوالے کیا کہ یہ جھیل اِنہیں نہ صرف جنگ جو اور وحشی قبائل سے محفوظ رکھے گی بلکہ یہاں اِن کے کھانے پینے کا سامان بھی میسر ہوگا۔ انہوں نے دیوتا کی ہدایت کے مطابق درخت کاٹ کر ان کے بڑے شہتیروں، بانس کے لمبے لمبے ڈنڈوں کو جھیل کی تہہ میں گاڑ کر لکڑی کے تختوں کو جوڑ کر پلیٹ فارم بنایا، جس کے بعد خوش نما جھونپڑے تعمیر کیے گئے، یوں جھیل کی سطح پر نیزو لیزو نامی آبی بستی وجود میں آگئی۔ان کے گھر لکڑی کے بنے ہوئے ہیں، جن میں درختوں کے تنوں اور کھجور کی خاص قسم کی شاخیں استعمال کی گئی ہیں۔ ان کی چھتیں درختوں کے پتوں اور چھالوں سے بنائی گئی ہیں، تمام گھر، لکڑی کے پلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔مقامی زبان میں ’نزیما‘ کے معنی پانی کی سطح ہے، اسی کی مناسبت سے اس کا نام نزولیزو تجویز ہوا۔ اِس علاقے کے باشندے مظاہیر پرست ہیں۔ تاندانے جھیل کا احترام بھی اپنے دیوتا کی طرح کرتے ہیں۔ منگل کا دن ان کے نزدیک خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور تقدس کا درجہ رکھتا ہے، اس روز نہ تو جھیل میں کشتی چلائی جاتی ہیں اور نہ ہی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔ گاؤں کے متعدد افراد اپنے دیوتا سے عقیدت کی بناء پر گھونگے بھی نہیں کھاتے۔
 

image

ان لوگوں کی زندگی کا درومدار مچھلی اور دیگر آبی حیات پر ہے۔ چھوٹی عمر سے ہی اِنہیں جال بنانا، مرمت کرنا اور پانی میں ڈال کر مچھلیاں پکڑنا سکھایا جاتا ہے۔ اب گاؤں کے بیشتر باسی جھیل کے کنارے واقع میدانوں کو کاشت کاری کے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے دو ہیکٹر رقبہ مختص کیا ہوا ہے جس پر یہ لوگ سبزیاں، کیلے، ناریل اور انناس اگاتے ہیں۔ اِن میں سے زیادہ تر اشیاء یہ لوگ اپنے ہی استعمال میں لاتے ہیں جب کہ اپنی ضرورت سے زائد فصلیں گاؤں سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر دور واقع بازار میں لے جا کر فروخت کرتے ہیں۔ مذکورہ گاؤں کو بھی گینوی کے آبی گاؤں کی طرح، سیاحوں کی جانب سے ’’وینس ثانی ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جبکہ 2000ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ینزولیزو کو بھی عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا ہے۔ پلوں کے ذریعے چوبی مکانات ایک دوسرے سے منسلک ہونے کی وجہ سے یہاں کشتیوں کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔اس گاؤں میں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ یہاں مچھروں کی وجہ سے ملیریا کی بیماری عام ہے۔لوگوں کے پاس انجن والی چند کشتیاں ہیں جو بیماروں اور حاملہ خواتین کو قریبی ڈاکٹر تک لے جانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے یہ ایک پرکشش علاقہ ہے ، لیکن رہائشی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر سیاح ایک روزہ دورے پر ینزولیزو آتے ہیں اور رات قریبی علاقے بیئن میں واقع ریسٹ ہاؤسز میں بسر کرتے ہیں۔گھانا کی حکومت کی طرف سے جھیل میں واقع اس تیرتی بستی میں سیاحت کی ترقی کے لیے کئی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ بستی کے باشندوں کو بجلی، موبائل فون اور سیٹیلائٹ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ بستی کے باسیوں کو جدید زندگی سے روشناس کرنے کے لیے تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں جن میں اساتذہ کی تعیناتی گھانا کی وزارت تعلیم کی جانب سے کی جاتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اساتذہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، جنہیں اِس شعبے میں تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یہ لوگ اس علاقے میں زیادہ عرصے تک قیام نہیں کرتے۔ تاہم اب گاؤں والوں نے خود اساتذہ کی تربیت کے انتظامات کیے ہیں۔ درحقیقت گھاس پھوس کے جھونپڑیوں پر بنے اس آبی گاؤں میں قدیم اور جدید زندگی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE:

There’s only one Venice, but you might be surprised to find that you can get the same scenic and historic feel – complete with canal ‘streets’ and gondoliers – in several other towns across the globe. In fact, there are dozens of picturesque floating villages and islands that are so heavily populated, you can barely tell that there’s land under all the man-made structures. Here are 2 Beautiful floating villages of Africa.