وادی غذر

پوری بستی انگور کی بیلوں سے ڈھکی ہوئی ہے، کچے گھروں کی چھتوں کے اوپر سے بیلیں گزرتی ہیں۔ جب ان میں پھل آتا ہے تو پوری بستی میں انگور کے خوشے لٹکے نظر آتے ہیں جومسحور کن منظر پیش کرتے ہیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر ان کے پتوں کی چھاؤں، خوش گوار ٹھنڈک، بیلوں میں سے چھن کر آنے والی سورج کی کرنیں، فضا میں انگور وںکی مہکتی خوشبو ، چہل قدمی کے دوران شہری علاقے کے لوگوں کے دل و دماغ پر خوش گواراثرات مرتب کرتی ہے۔ وہ یہاں چند روز گزارنے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن یہاں کے باسی انہیں اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کوئی عجوبہ ہوں

وادی غذر کا ایک خوب صورت منظر

خالق کائنات نے پاکستان کو فطرت کی تمام رنگینیوں سے نوازا ہے۔ سرسبز مرغزار، جنگلات، جادوئی مناظر والی جھیلیں،آب شاریں، جھرنے ، لوک اورافسانوی داستانوں والی پریوں کی سیر گاہیں، دنیا کی بلند ترین چوٹیاں اورسر بہ فلک پہاڑی سلسلے ہیں جن کے دامن میں لاتعداد پر فضا مقامات اور وادیاں خیبر پختون خوا، گلگت اور پنجاب کے صوبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر سے سیاح گلگت، چترال، سوات، کاغان، ناران کی سیر کے لیے آتے ہیں اور اپنے دل میں حسین یادیں لے کر واپس جاتے ہیں۔ وہ ان علاقوں کے سر سبز مناظر کوہی کو فطرت کا حسن سمجھتے ہیں لیکن وہ اس سے لاعلم ہیں کہ قدرت نے اپنے حقیقی جلوے تو دور دراز علاقوں میں بکھیرے ہوئے ہیں جہاں پہنچنے کے لیے دشوار گزار پہاڑی راستوں، ہزاروں فٹ گہری گھاٹیوں اور اندھے موڑ سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ وہ لواری ٹاپ کے بل کھاتے، ہیبت ناک راستوں سے گزر کر چترال اور کافرستان جب کہ شاہراہ قراقرم کے اندھے موڑاور عمودی چڑھائیوں پرافق کی جانب سفر کرتے ہوئے گلگت اور ہنزہ پہنچتے ہیںلیکن ان میں سے بہت کم لوگوں کی نگاہیں گلگت کے دورافتادہ مقامات کی طرف جاتی ہے جہاں زندگی اپنے اصل رنگوں میںنظر آتی ہے۔ وادی غذر بھی ان میں سے ایک ہے۔

گلگت کا شہر پہاڑی راستوں کا جنکشن ہے جہاں سے مختلف وادیوں کی جانب جانے والے راستے نکلتے ہیں۔ ایک سڑک وادی نلتر، جب کہ دوسری اسکردو کی جانب جاتی ہے۔ ایک راستے پر سفر کرتے ہوئے ہنزہ سے گزرتے ہوئے درہ خنجراب اور پھر سنکیانگ جاتے ہیں جب کہ چوتھا راستہ قوس و قزح کے رنگوں سے مزین، وادی غذر کی جانب جاتا ہے جہاں سے چترال کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ غذر کا شمارخطے کے ایک ایسے علاقے میں ہوتا ہے جو جغرافیائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس وادی کی سرحدیں تین ممالک سے ملتی ہیں جب کہ وسط ایشیائی ممالک کا یہ داخلی دروازہ ہے۔ یہاں سے وادی یاسین اوردرہ بروغل پامیر سے گزر کر تاجکستان پہنچتے ہیں، شمالی جانب چین، جب کہ شمال مغرب میں واخان کی پٹی کے بعد افغانستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ مشرقی جانب شیندور کا درہ عبور کرکےوادی چترال اور کیلاش کا علاقہ ہے ، مشرق میں گلگت جب کہ جنوب میں دیامیر کی وادی ہے۔ اس میں جدید اورقدیم تہذیبوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے جب کہ یہاںایک بستی ایسی بھی ہے جہاں اجنبی لوگوں کے قدم نہیں پہنچے ہیں اوراگر کسی دوسرے علاقے کا کوئی فرد وہاں چلاجائے تو مقامی لوگ اسے حیرت اور استعجاب سے دیکھتے ہیں۔ وادی غذر مجموعی طور سے ایک ایسا تفریحی مقام ہے جو متعدد چھوٹے بڑے دیہاتوں اور قصبات پر مشتمل ہے ۔ بلند وبالا پہاڑ، برف پوش چوٹیوں، دریا، گلیشیئرز، شور مچاتی ندیوںنالوں، کھیت ، سر سبز میدان،باغات جو پھل دار درختوں سے بھرے ہوئے ہیں، مسحور کن خوشبو اور رنگا رنگ پھولوں سے مزین قطعات جنت ارضی کا منظر پیش کرتے ہیں اورتفریح کی غرض سے آنے والے لوگ چند روز کے لیے شہر کی ہنگامہ خیز مشینی زندگی، گاڑیوں کے دھوئیں سے دور،دفتری و کاروباری الجھنوں کو بھلا کرفطرت کے اصل حسن میں کھو جاتے ہیں۔ وادی اشکومن گلگت بلتستان کے صوبےکی ایک تحصیل ہےجواس کے صدر مقام سے تقریباً 90 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ شاہ راہ ریشم پر بھل کھاتے راستوں پر سفر کرتے ہوئے وہ راولپنڈی سے گلگت پہنچنا ہوتا ہے۔ یہاں جانے کے لیے گلگت بازار سے جیپیں چلتی ہیں جوکوہ قراقرم کی بلندیوں پر سفر کرتے ہوئے ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں داخل ہوجاتی ہیں۔ یہاں سے بل کھاتے ہوئے پہاڑی راستوں، چٹانی پتھروں، کھائیوں، اندھے موڑاور خوف و دہشت طاری کرنے والے راستوں پر چلتے ہوئے مذکورہ وادی تک پہنچتے ہیں۔ پورے سفر میں دریائے غذر ، سفک کے ساتھ بہتا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو غذر روڈ اوردریا ایک ہی سطح پر ہوتے ہیں۔اس سڑک پر چلتے ہوئے دریا کےدوسری جانب متعدد چھوٹی بڑی بستیاں آتی ہیں۔ جن کے بعد شیر قلعہ کا مقام آتا ہے، اس سے آگے پونیال کی وادی ہے، یہاں سے گزرنے کے بعد دریائے غذر کے پار ایک دل فریب بستی نظر آتی ہے۔ جسےزیادہ تر لوگ دور سے دیکھتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور جیپ سے اتر کر دریا کی دوسری جانب اس میں جانے کی کوشش نہیں کرتے۔ جو لوگ کچھ دیر ٹھہر کر کشتی کے ذریعے اس بستی میں پہنچتےہیں انہیں وہاں ایک خواب ناک ماحول نظر آتا ہے۔ پوری بستی انگور کی بیلوں سے ڈھکی ہوئی ہے، کچے گھروں کی چھتوں کے اوپر سے بیلیں گزرتی ہیں۔ جب ان میں پھل آتا ہے تو پوری بستی میں انگور کے خوشے لٹکے نظر آتے ہیں جومسحور کن منظر پیش کرتے ہیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر ان کے پتوں کی چھاؤں، خوش گوار ٹھنڈک، بیلوں میں سے چھن کر آنے والی سورج کی کرنیں، فضا میں انگور وںکی مہکتی خوشبو ، چہل قدمی کے دوران شہری علاقے کے لوگوں کے دل و دماغ پر خوش گواراثرات مرتب کرتی ہے۔ وہ یہاں چند روز گزارنے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن یہاں کے باسی انہیں اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کوئی عجوبہ ہوں۔ مرکزی سڑک سے ہٹ کریہ ایک گم نام بستی ہے جہاں صرف اس کے رہائشی ہی جاتے ہیں، جب کہ سیاحوں کے قدم یہاں شاذو نادر ہی پہنچتے ہیں۔ اسی وجہ سے،یہ گاؤں دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ جب کوئی نووارد یہاں آتا ہے تو اس کی شکل کو دمقامی لوگ حیرانی سے ٹکٹکی باندھے تکتے رہتے ہیں جب کہ بچےگھبرا کر وہاں سےبھاگ جاتے ہیں ۔کچھ دیر قیام کے بعد جب یہاں سے آگے چلیں تو گاہکوچ کا علاقہ آتا ہے جو غذر کا ضلعی ہیڈکوارٹر ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا بازار ہے جہاں خریداروں کا ہجوم رہتا ہے۔ غذر سے اگلا مستقرگوپس کی وادی ہے جس سے آگے ایک جھیل واقع ہے جس کے اطراف میں ہرے بھرے درخت لگے ہوئے ہیں جو سہانا منظر پیش کرتے ہیں یہ پھنڈر جھیل ہے جسے اس وادی کے ماتھے کا جھومر کہا جاتا ہے۔ گاہکوچ تک کا سفر ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ چترال کی سیر کے بعد اگر سیاح غذر کی وادی آنا چاہیں توانہیں شیندور کے درے سے گزرکر سات گھنٹے میں وادی غذر پہنچتے ہیں۔

اس وادی کی آبادی زیادہ تر دہقانوں اور گجروں پر مشتمل ہے۔ ’’غذر‘‘ مقامی زبان کے لفظ ’’غرض‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے جس کے معنی ’’پناہ گزیں‘‘ کے ہیں۔ چترال کے حکمراں جنہیں ’’ مہتر ‘‘ کہا جاتا تھا، ناپسندیدہ لوگوں کو اپنی راجدھانی سے نکال کربطور سزا، غذر کی وادی میں گوپس کے مقام پر بھیج دیتے تھے۔ ان معتوب افراد کے یہاںبسنے کے بعد اس علاقے کی آبادی بڑھتی گئی۔1972 کے بعد پاکستانی حکومت کی جانب سے نئی سیاسی اصلاحات متعارف کرائی گئیں، جس کے نتیجے میں پاکستان سے ریاستی نظام کا خاتمہ ہوگیا اور چنرال کی وادی پاکستان کی عملداری میں آگئی، جس کے بعد غذر کوایک علیحدہ ضلع بنا دیا گیا۔ تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اس علاقے پر مقامی راجاؤں کی حکمرانی رہی ہےاوروادی پونیال اور یاسین کے کٹورے، بروشے اور کھوشوتے خاندان کے افراد مختلف ادوار میں تھومس یا مہتر کے منصب پر فائز رہے ہیں۔ بعد ازاں یہ تمام علاقہ چترال اور کشمیر کے ڈوگرہ حکمراں کے درمیان تقسیم ہوگیا۔ 1895میں ہندوستان کی برطانوی حکومت نے اسے کشمیر کی باجگزاری سے علیحدہ کرکے گلگت ایجنسی میں شامل کردیا اور یہاں انگریز سرکار کی حکومت قائم ہوگئی۔ بعد میں غذر کے حاکم راجہ گوہر امان نے گلگت ایجنسی کے تمام حکمرانوں کو شکست دے کر تھوئی سے بگروٹ تک کا علاقہ اپنے تسلط میں کرلیا۔ گوہر امان کے انتقال کے بعدکشمیر کے مہاراجہ نے یاسین اور ماؤڈی کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وادی غذر کے آخری مہتر؍تھوم غلام دستگیر کے انتقال کے بعد اس علاقے سے شخصی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔

ضلع غذر چار تحصیلوں گوپس، اشکومن، پونیال اور یاسین پر مشتمل ہے۔ یہاں پر سیاحوں کی دل حسپی کے حامل متعدد پرکشش مقامات ہیں جن میںدادی پونیال خاصی اہم ہے ۔یہ وادی بے شمارحسین مناظر اور سرسبز دیہات پر محیط ہے، جن میں شرقیلہ، سنگول اور بوبر قابل ذکر ہیں۔ گاہکوچ ، وادی غذر کا صدر مقام ہے ، جووادی پونیال کا ہی حصہ ہے۔ یہ علاقہ پھلوں خاص کرانگوروں کی پیداوار کے لحاظ سے خاصامشہور ہے ۔ یہاں پر بتھریتھ نالہ بہتا ہے جو دیامیر میں دیرل دریا سے مل جاتا ہے۔ شیر قلعہ پونیال کا مرکزی قصبہ ہے جو 40کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یہ دل فریب مناظر والا حسین سیاحتی مقام ہے۔ اس وادی سے 56 کلومیٹر کے فاصلے پرٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ ہوتی ہے۔ اشکومن غذر کی ایک اور خوب صورت وادی اور تحصیل ہے ، جو قدیم تہذیب و ثقافت کی حامل ہے۔یہ وادی برغول سے سوختر آباد (کرمبر) اور غو ٹلتی میں درکوت یاسین کی سر حد تک بے شمارخوب صورت دیہات کے ساتھ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان پھیلی ہوئی ہے۔اس کے مشہور گاؤں میں غوٹلتی،کوٹ،فیض آباد،تشکن، مومن آباد، جلال آباد، ایمت، بلہنز ،تشنہ لوٹ، دیور داس، بورتھ،شمس آباد، گشگش، بارجنگل، شونس، پکورہ، چٹورکھنڈ، دائین، برگل، شولجہ، دلتی اور تھپشکن شامل ہیں۔اشکومن کے صدر مقام کا نام چٹورکھنڈ ہے جو ضلعی ہیڈ کوارٹر گاہکوچ سے 60کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے شمال مغرب میں ڈوک کے مقام پر وادی اشکومن دو بڑے حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اشکومن کو قدرت نے حسین وجمیل سرسبز و شاداب وسیع و عریض جنگلات ، سبزچراگاہوں اور جھیلوں پرمشتمل قصبات سے نوازاہے۔برغول سے آگے چٹورکھنڈ نالہ اپنی وسعت اور شادابی کے لحاظ سے مشہور ہے ۔ ’حایول‘ کا دل نشین نظارہ قدرتی مناظرکی بہترین مثال ہے۔ ’’ ترنگول‘‘ کے مقام پر غوچھارآبشار واقع ہے ۔ ایک درجن سے زائد پہاڑی نالوں اور جھیلوںکی وجہ سے پوری وادی پانی پر تیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ان میں سے ایک نالہ پکورہ بھی ہے جو آگے جا کر وسیع و عریض دریا کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔یہاں کی سرسبزچراگا ہیں قدرت کے حسین شاہ کار کی صورت میں موجود ہیں۔ ’’دلتی‘‘ کی پہاڑی پر قدیم کھنڈرات پائے جا تے ہیں جنہیں ’’ڈربن ‘‘کہتے ہیںجہاں ہزاروں سال قدیم تہذیب و ثقافت کے آثار پائے جاتے ہیں ۔ گوپس غذر کی ایک اور خوب صورت وادی ہے جہاں کےدل کش مناظر سیاحوں کا دل موہ لیتے ہیں۔ وادی یاسین، یا درشیگم کوہ ہندوکش کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں سیاحوں کے لیے ٹریکنگ اور ہائیکنگ کے وسیع مواقع ہیں۔ پھندرکا قصبہ بھی وادی غذر کا ایک خوب صورت علاقہ ہے۔ حسن و دل کشی اور دل فریب مناظر کی وجہ اسے چھوٹا کشمیر کہا جاتاہے۔اس علاقے کی نیلگوں پانی والی پھندرجھیل کا شمارپاکستان کی مسحور کن جھیلوں میں ہوتا ہے۔ چاروں اطراف گھنے درخت اور ان پر چہچاتے پرندے عجب سماں پیش کرتے ہیں۔ اس جھیل کے اطراف پرندوں کی ایک نایاب نسل پائی جاتی ہے جسے ’’برڈزآف پیراڈائیز کہتے ہیں۔ ایک فٹ لمبی دم والا یہ پرندہ دیکھنے میں انتہائی خوب صورت لگتا ہے۔جھیل کے عین اوپر، پہاڑی پر ٹورزم ڈیولپمنٹ کا ریسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے، جہاں سے جھیل کا نظاہ اور بھی حسین لگتا ہے۔ کرومبر جھیل بھی وادی کی حسین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ یہ اشکومن کے بالائی علاقے میں واخان کی پٹی کے قریب واقع ہے۔ گلگت سے جب غذر روڈ پر سفر کریں تو گاہکوچ اور وادی پندھر کے درمیان خلطی جھیل آتی ہے۔ اس کاپانی سڑک کے دونوں اطراف خشکی کی سطح کے ساتھ بہتا ہے، ۔اس وادی میں کئی مشہور درے ہیں جن میں کرمبر ، چلنگی، نلتھر، بچر، تھول درے قابل ذکر ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 13 Articles with 18168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.