یہ مسیحا نہیں سوداگر ہیں

وطن عزیز پاکستان کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کے مسائل میں بھی حد درجہ اضافہ ہو تا دکھائی دے رہا ہے ۔ جہاں ایک طرف غربت و افلاس ، گیس ، بجلی ، پینے کے لیے صاف پانی ، اغواہ برائے تاوان ، بے روزگاری اور تعلیم کے مسائل نے جینا محال کر رکھا ہے وہاں دوسری طرف صحت کے میدان میں سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر ماہ سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے چونکہ سرکاری ہسپتال علاج معالجہ کی تمام ذمہ داریاں بطریق احسن سرانجام دینے سے قاصر ہیں لہذا پرائیویٹ سیکٹرکے لیے علاج معالجہ کے نام پر انسانی جانوں سے کھلواڑ کے بھر پور مواقع موجود ہیں ۔ان پرائیویٹ ہسپتالوں اور ہر گلی میں موجود میٹرنٹی ہومز کے ہاں گلے میں ایک عدد سٹیتھوسکوپ لٹکانے اور سفید شرٹ پہننے والاہر شخص ڈاکٹر کہلاتا ہے جو بیک وقت ڈاکٹر ، سرجن اورہر مرض کے لیے سپیشلسٹ ہوتا ہے ۔ہر قسم کی دوا تجویز کرنے ، انجکشن لگانے اور بوقت ضرورت آپریشن کرنے تک کے سارے کام یہی قصائی نما نام نہاد ڈاکٹر کرتا ہے اور انسانی جانوں کی حفاظت سے زیادہ تجوری بھرنے کی فکر میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔پرائیویٹ ہسپتال اور میٹرنٹی ہومز کے نام پرغریبوں کو لوٹنے اور موت کے منہ میں ڈالنے والے یہ نام نہاد ڈاکٹر مسیحا نہیں سوداگر ہیں۔انسانی جانوں کے اس ضیاع کو کون روکے گا؟مسیحائی کے نام پر موت بانٹنے والے ان سوداگروں کے گریبان پر کون ہاتھ ڈالے گا؟ انسانی جانوں سے کھلواڑ کی سرپرستی کون کر رہا ہے؟

وطن عزیز میں ہر گلی و محلے میں پرائیویٹ کلینک اور میٹرنٹی ہومز کے نام پر انسانی جانوں کے ساتھ موت کا کھیل کھیلنے والے ان نام نہاد ڈاکٹروں کو انسانی جانوں کے ضیاع اور غریب عوام کو علاج کے نام پر لوٹنے سے روکنا ہوگا۔ ان میٹرنٹی ہومز اور سرجیکل ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات کم جبکہ انسانی جسم کے اعضاء سمگل کرنے کا کام زیادہ کیا جاتا ہے جس کے اثبات اکثر و بیشتر قومی اخبارات میں ملتے رہتے ہیں اور کئی ایسے کلینک و ہسپتال انسانی جسم کے اعضاء نکالنے کے اس گھناؤنے جرم میں ملوث بھی پائے گئے ہیں۔پرائیویٹ ہسپتالوں اور میٹرنٹی ہومز کا عملہ و مالکان عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کو لوٹنے میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں اور نارمل کیسز کو آپریشن کا نام دے کر چیر پھاڑ کرنے سے ذرا بھی نہیں دریغ نہیں کرتے۔ہر کیس کو آپریشن میں تبدیل کرنے کی آخر وجہ کیا ہے؟ ۔ نارمل ڈلیوری کیس کی فیس صرف پانچ سے دس ہزار لی جاتی ہے جبکہ آپریشن کے ذریعے ڈلیوری کی صورت میں کم از کم پچاس سے ساٹھ ہزار وصول کیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ہر کیس کو آپریشن میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ مریض کے لواحقین کے ہاتھوں میں تھمائی جانے والی دوائی کی پرچیوں پر لکھی ہوئی دوائیاں بھی ان کے تجویز کردہ میڈیکل سٹوروں کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے نہیں ملیں گی کیونکہ میڈیکل سٹورمالکان سے کمیشن پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے اور بدلے میں ان کی جعلی و پرانی ادویات بھی بِک جاتی ہیں۔پرائیویٹ ہسپتال و میٹرنٹی ہومز کی انتظامیہ نے عوام کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ غنڈہ گردی بھی شروع کر دی ہے اور فوراً گالی گلوچ اور ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ روزچیچہ وطنی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں پیش آیا ہے۔ نوجوان شاعر و معروف کالم نگار الطاف احمد کو چیچہ وطنی کے بسم اﷲ سرجیکل ہسپتال اینڈمیٹرنٹی ہوم پراپنے عزیز کو لے کر جانا پڑاجوکہ چیچہ وطنی شہر سے تقریباً 20 کلومیٹر دور بورے والا روڈ پر واقع ہے۔مریض کو داخل تو کر لیا گیا مگرتقریباً 20 گھنٹے گزر جانے کے باوجود علاج شروع نہ کیے جانے پر الطاف احمد نے مریض کی صحت کی نازک صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ کے مسٹر افضل خان لودھی سے علاج شروع کروانے کی درخواست کی تو معلوم ہوا کہ 30 سے زائد بستروں پر مبنی ا س سرجیکل ہسپتال و میٹرنٹی ہوم میں صرف ایک لیڈی وزیٹر ہے جو ہرقسم کی امراض کے لیے دوا بھی تجویز کرتی ہے اور ہر قسم کے آپریشن کرنے کا سہرا بھی اسی خاتون کے سر ہے۔ہسپتال کے نام پر عوام کو لوٹنے کے حوالے سے آئینہ دکھانے پر مسٹر افضل خان لودھی کی جانب سے الطاف احمد کوتشدد کا نشانہ بنایا گیااور دھکے دیے گئے جس سے ان کا ہاتھ ذخمی ہوگیااس کے علاوہ پستول نکال کرنشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جسے ہسپتال میں موجود دیگر مریضوں کے لواحقین نے ناکام بنادیا۔چیچہ وطنی کی انتظامیہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کہاں ہے جوکہ ایک لیڈی ہیلتھ ورکر انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہی ہے؟ کیا ہسپتال اسلحہ کے زور پر چل رہے ہیں ؟ کیا ایسا مافیہ دہشت گردوں سے کم خطرناک ہے؟ پرائیویٹ ہسپتال مافیہ جانیں بھی لے رہا ہے اور روزانہ لاکھوں روپے کما کر عزت کے ساتھ عیاشی بھی کر رہا ہے۔کیا اس معاملے پر کوئی سوموٹو ایکشن نہیں ہونا چاہیے؟

پرائیویٹ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے غنڈہ گردی انتہائی افسوس ناک ہے۔مسیحائی کے نام پر عوام کو لوٹنے اور موت کے منہ میں دھکیلنے والے سوداگروں کو روکنا ہوگا۔غنڈی گردی و اسلحہ کے زور پر چلنے والے ہسپتالوں کا لائنس فوری کینسل کرکے ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے زیر اہتمام ان پرائیویٹ ہسپتالوں کی کڑی نگرانی کرنا ہوگی اور انسانی جانوں کے ساتھ کیے جانے والے اس کھلواڑ کاکو روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ غریب عوام کو پرائیویٹ ہسپتال اور میٹرنٹی ہومز کے نام پر عوام کو لوٹنے اور موت کے منہ میں دھکیلنے والے ان قصابوں کے چنگل سے محفوظ رکھا جا سکے۔ان اقدامات پر عمل کرکے انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Malik Muhammad Shahbaz
About the Author: Malik Muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik Muhammad Shahbaz: 54 Articles with 39810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.